ایک معصوم گزارش

عاصم سعید

میری حکُومت پاکستان، صدرِ مملکت، وزیرِاعظم جناب شاہد خاقان عباسی، وزیر داخلہ اور حکُومت پاکستان کے ماتحت دیگر اداروں کے سربراہان سے گُزارش ہے کہ جناب جان کی امان پاؤں تو کُچھ عرض کروں؟ ویسے آپ کی لگائی ہوئی آگ سے تو جان بچا کر اِدھر پناہ گزینی کی زندگی گُزار رہا ہُوں تو آپ سے جان کی امان کیوں مانگُوں؟ عرض یہ ہے کہ خُدارا بس کر دیں، کب تک آپ کی لگائی ہوئی آگ کا ایندھن عوام بنتے رہیں گے؟ کونسی ریاست ہے جو اپنے ہی نہتے، بے گُناہ شہریوں کے ساتھ یہ سلُوک کرتی ہے؟ یہ مُلک اِس لیے تو نہیں بنا تھا کہ اپنے ہی شہریوں کو اغوا کیا جاسکے؟ آپ نے تین دہائیاں قبل، مُلک کو سرحد پار جِس تزویراتی گہرائی میں دھکیلا تھا، اُس کا شاخسانہ یہ ہے کہ ہم آج اُس مقام پر آ پہنچے ہیں کہ آگے اندھا کُنواں اور پیچھے گہری کھائی؛ ہزاروں بے گُناہ شہری، فوجی، پولیس والے آپ کی اِس آگ کا ایندھن بن گئے ہیں اور آپ کی بھٹی ہے کہ اُس کا پیٹ ہی نہیں بھر رہا؟ ابھی آپ کی کئی برس قبل لگائی گئی آگ بُجھی نہیں کہ اب آپ نے وہی تزویراتی گہرائی اپنے ہی مُلک میں تلاش کرنا شروع کر دی ہے۔ بیووقوف ہوتا ہے وہ شخص جو ایک ہی تجربہ بار بار اِس اُمید پر کرے کہ شاید اگلی بار نتیجہ مُختلف ہو۔

جنابِ والا، جناح صاحب نے جو کہا تھا کہ یہ مُلک اسلام کی تجربہ گاہ ہے؛ خُدا کی قسم ایسے تجربوں کے لیے ہرگز نہیں کہا تھا۔ ایک طرف آپ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نعرے لگاتے نہیں تھکتے ہو اور دُوسری طرف اُنہیں ہیرو بنا کر میڈیا پر پیش کرتے ہیں؟

جناب کُچھ تھوڑی سی شرم ہوتی ہے۔ آپ کو خطرہ اُن بے گناہ بچوں کے قاتلوں سے نہیں محسوس ہوتا۔ آپ کے وقار پر زد، چند نہتے، معصوم، امن پسند، سماجی کارکنوں کے قلم سے پڑتی ہے؟ آپ کی دستار بم دھماکوں سے نہیں گرتی کہ اُن کا تدارک کیا جائے بلکہ آپ کا کُلاہ ایک ٹوئیٹ نہیں سہ پاتا کہ ٹوئیٹ کرنے والے کو غائب کر دیتے ہیں۔

آپ کی عزت اُس وقت مٹی میں نہیں ملتی، جب ہماری عسکری فضائی اڈوں، ائیر پورٹوں، چھاؤنیوں پر حملے ہوتے ہیں۔ آپ کی آبرُو اُس وقت خاک ہوتی ہے جب کوئی فیس بُک پر چند فقرے لِکھ دیتا ہے کہ اُسے دِن دیہاڑے اُسے اُس کے گھر والوں کے سامنے ہی اُٹھا کر تشدد کا نشانہ بناتے ہیں؟

باتوں کا خُلاصہ یہ ہے حضُور کہ ہمیں بھی وطن کا درد ہے ، اِس کی مٹی ہمیں بھی اُتنی ہی عزیز ہے جتنی آپ احباب کو؛ ہم بھی چاہتے ہیں کہ اقوامِ عالم میں ہمیں بھی عزِت کی نگاہ سے دیکھا جائے، ہمارے پاسپورٹ کی تکریم بحال ہو حضور، گزُارش یہ ہے کہ اختلافِ رائے غداری نہیں ہے بہت شُکریہ العارض برطانیہ میں مقیم ایک پاکستانی پناہ گُزین