باہم معذوری دربدر کیوں ہیں؟

  ارشدسلہری

سپریم کورٹ آف پاکستان افراد باہم معذوری کے حقوق پر کئی فیصلے دے چکی ہے۔ ہائی کورٹس کی جانب سے بھی کئی رٹ پٹیشنز اور مقدمات میں افراد باہم معذوری کے حق میں فیصلے دیئے گئے ہیں۔ یہ عدالتی فیصلے کہاں جاتے ہیں اور ان پر کتنا عمل درآمد ہوتا ہے، یہ سب جانتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کی دورِ حکومت میں افراد باہم معذوری کی خصوصی علامت کے حامل قومی شناختی کارڈ بنائے گئے۔ خصوصی سرٹیفکیٹ بنانے کےلیئے بھی بورڈ تشکیل دیئے گئے کہ معذوری کے حامل افراد کے بارے میں علم ہوسکے۔ آیا کہ ملازمت کے قابل معذوری ہے یا نہیں۔ سرِتسلیم خم کہ سب اچھا ہے۔ پر کیا عدالتی فیصلوں سمیت حکومتی اقدامات کے ثمرات افراد باہم معذوری تک پہنچے ہیں؟ یہ سوال ابھی تِشنہِ جواب ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ (احساس ) پروگرام، بیت المال اور محکمہ سوشل ویلفیئر سمیت کئی ادارے ہیں جو بحالی برائے افراد باہم معذوری کےلیئے قائم کردہ ہیں۔ ان اداروں میں افراد باہم معذوری کی بھرتی آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ مذکورہ اداروں کے پاس کوئی ٹھوس اور جامع پروگرام نہیں ہے۔ ریاست نے 73 سالوں میں کوئی قومی پالیسی مرتب نہیں کی ہے۔ وقت گزاری کےلیئے کچھ پروگرام شروع کیئے جاتے ہیں۔ جس کا زیادہ بجٹ افسرشاہی کے اخراجات اور تنخواہوں میں چلا جاتا ہے۔ جیسے آج کا احساس پروگرام ہے۔ غریب کو ہزار روپے ماہانہ دینے کےلیئے تین تین لاکھ کی روپےتنخواہوں پر افسر بھرتی کیئے ہوئے ہیں۔ سرکاری اداروں میں  معذوری کے شکار افراد کو بے چارگی، بے بسی اور لاچاری کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ عزت، وقار اور انسانی قدر کے بجائے ترس کھانے والے انداز میں سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ معذوری کے شکار افراد کو یکساں مواقع حاصل نہیں ہیں۔ بلکہ یوں کہنا مناسب ہے کہ مواقع ہی نہیں ہیں۔ آگے بڑھنے، پڑھنے  اور حصول ملازمت کے لیئے بے شمار جتن کرنا پڑتے ہیں۔ گزشتہ چھ ماہ کے دوران کئی  افراد باہم معذوری کے انٹرویو کیئے ہیں ۔جس میں یہ بات کھل کر سامنے آئی ہے کہ دوران تعلیم انہیں شدید ترین مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ٹرانسپورٹ سے لے کر کلاس روم تک انہیں مشکلات ہی مشکلات رہتی ہیں۔ حصول جاب میں بھی شدید رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دو فیصد کوٹہ تو مختص ہے مگر جو ملازمتیں مشتہر کی جاتی ہیں، وہاں مختص کوٹہ صرف درجہ چہارم کی ملازمتوں میں دیا جاتا ہے۔مجموعی طور پر ہمت اور جدوجہد سے کامیاب ہونے والے خواتین و حضرات میں سے ہر فرد یہ سوچ کر ایک این جی او بناتا ہے کہ جو سفر مجھے کرنا پڑا ہے،  اس سفر سے دیگر افراد باہم معذوری کو بچا سکوں۔ مگر معاملہ کسی اور طرف چل نکلتا ہے۔ غیرملکی فنڈز پر چلنے اور پلنے والی این جی اوز کے کردار سے بھی تمام لوگ آگاہ ہوچکے ہیں۔ اب کوئی امر پوشیدہ نہیں ہے کہ این جی اوز کا کردار کیا ہے؟

حقیقت یہی ہے کہ خیراتی ادارے اور این جی اوز کے ذریعے حالات بدلے ہیں اور نہ بدل سکتے ہیں۔ ہاں مگر این جی اوز کے کرتا دھرتا کے حالات ضرور بدل جاتے ہیں۔ اسلام آباد، لاہور، کراچی اور پشاور کی کچھ این جی اوز نے افراد باہم معذوری کے نام پر کاروبار کیا ہے اور ڈالر کمائے ہیں۔ سارے این جی اوز کا بنیادی مقصد یہی ہوتا ہے کہ گرانٹ حاصل کی جائے۔ افراد باہم معذوری تو محض ہتھیار کے طور پر استعمال کیئے جاتے ہیں۔ مطلب افراد باہم معذوری ہی معذوری کا شکار افراد کا استحصال کرتے ہیں۔ معذوری کے شکار افراد میں ہرقسم کی اہلیت اورصلاحیت موجود ہے۔ تعلیم ہے، ہنر ہے، جذبہ ہے، ہمت ہے، اپنی خداداد صلاحیتیوں کو کام میں لائیں۔ سیاسی دھارے  میں شامل ہوکر اپنی تقدیر اپنے ہاتھ میں لیں۔ افراد باہم معذوری کو ہوش مندی سے کام کی اشد ضرورت ہے کہ استحصالی مافیاز سے بچیں اور خود کو بے توقیر مت ہونے دیں۔ مساوات پارٹی کا جھنڈا تھام لیں۔ مساوات پارٹی محروم طبقات، خواجہ سرا، غیرمسلم کمیونٹی سمیت ہر قسم کی معذوری کا شکار افراد کی نمائندہ سیاسی جماعت ہے۔ جس کا مشن اقتدار نہیں بلکہ مساوات، آزادی، انسانی حقوق کا حصول اور تحفظ ہے۔