بلاعنوان
مہناز اختر
ٹھنڈی عورت، ٹھنڈا گوشت، Hot ، مست، آئٹم، مرچی، پیروں کی جوتی، ناقص العقل وغیرہ وغیرہ میرے خیال سے آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ آج کے مضمون کا موضوع کیا ہے۔ خیر القابات تو ڈھیروں ہیں مگر میں ان کا تذکرہ کر کے قارئین کو شرمندہ نہیں کرنا چاہتی۔ صنف نازک کو دیے جانے والے سارے کریہہ القابات مردوں کی عطا ہیں، جنہیں سن کر یا پڑھ کر ہتک کا شدید احساس غالب آجاتا ہے۔
میں کبھی بھی سعادت حسین منٹو کی مداح نہیں رہی کیونکہ منٹو خواتین کی اقلیت کا نمائندہ ہے حالانکہ منٹو کے افسانوں میں ’’عورت‘‘ کا سچ دکھتا ہے لیکن صرف ایک مخصوص طبقے یا مزاج کی عورتوں کا سچ ۔ منٹو کے افسانے ہوں یا بعض خواتین کا تخلیق کردہ ادب ہر جگہ عورتوں کو جنسی طور پر بھوکا یا پسماندہ ہی دکھایا گیا ہے اور نتیجتاً ذہنی طور پر بیمار اشخاص ہر عورت کو ہیجان زدہ اور ہوس کی ماری سمجھتے ہیں۔
آج کل (گوگل سرچ انجن رزلٹ پیج) SERP کے algorithm کا بڑا چرچا ہے۔ میں نے بھی لفظ ’’عورت‘‘ کے حوالے سے اس کے نتائج معلوم کیے اورنتائج کی فہرست دیکھ کر دھچکا لگا کہ جس صنف سے میرا تعلق ہے گوگل اس سے کیا مراد لیتا ہے یا پھر اس معاشرے کے مردوں کی سوچ نے گوگل کو کیسے متاثر کیا ہے۔ میں نے گوگل پر اردو میں “عورت” لکھا اور عکسی نتائج image result کو دیکھا مگرعورت کا لفظ انتہائی شرمناک نتائج کے ساتھ میرے سامنے آیا یہی معاملہ لفظ ’’لڑکی‘‘ کے ساتھ پیش آیا۔ البتہ لفظ ’’خاتون‘‘ کے نتائج کافی خوش کن تھے اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ لفظ ’’خاتون‘‘ تھوڑا پرتکلف ہے اور عام مرد گوگل سرچ میں اس کا استعمال کم کرتے ہوں گے۔ لفظ “woman ” کے نتائج بھی مناسب تھے۔
میرا مشورہ ہے کہ آ پ بھی یہ چھوٹی سی تحقیقی مشق کرکے دیکھیں یقین مانیں گوگل کے یہ نتائج آپ کو مردوں کی شخصیت کا وہ مکروہ رخ دکھائیں گے جہاں آپ عورت کو گوشت کا ٹکرا ہی سمجھتے ہیں، جس سے بھوک مٹائی جاتی ہے۔ کبھی تنہائی میں بیٹھ کر مراقبہ کی حالت میں لفظ “عورت” کا تصور ذہن میں لائیں اور دیکھیں کے آپ کا دماغ کیا نتائج سامنے لاتا ہے۔ آپ کی بہن کا معصوم اور سادہ چہرہ یا بیٹی کی شرارتی سی مسکراہٹ، ماں کا ممتا سے بھرپور مقدس چہرہ، بیوی کی دلربائی یا محبوبہ کی شوخی یا پھر دعوت دیتی ہیجان انگیز بے لباس حسینہ ؟ اس تلاش کا نتیجہ آپ کو آپ کے اندر چھپے انسان سے ملاقات کرادے گا۔
معاشی مسابقت کے اس دور میں طبقہ چاہے مذہبی ہو یا لبرل دونوں کے لیئے عورت ایک مصنوع ہے جس کی قدر کا دارومدار اس کی پیداواری افادیت اور محنت کی صلاحیت پر ہوتا ہے۔ معاملہ چاہے شادی بیاہ کا ہو یا ملازمت کا خوبصورت، گوری چٹی اور کم عمر عورتوں کی معاشی و معاشرتی منڈی میں زیادہ طلب ہوتی ہے۔
حتیٰ کہ عورت کے جسم پر کتنا گوشت اور کتنی چربی ہونی چاہیے اس کا فیصلہ بھی مردوں کی نگاہ اور ضروت کے مطابق کیا جاتا ہے۔ نسوانیت کے طے شدہ معیارِ حسن بھی مردوں کے بنائے ہوئے ہیں. ظلم کی انتہا یہ ہے کہ برقعہ پوش خواتین کے نقاب میں سانس آنے کی جگہ ہونی چاہیے یا نہیں، نقاب سے دکھنے والی آنکھوں کو بے نقاب رہنے دیا جائے یا اس کو بھی ڈھک دیا جائے یہ ساری فیصلے بھی مرد ہی کرتا ہے۔
انسانی تخلیق سے لے کر اب تک مرد عورت کو دریافت کرتا آیا ہے مگر اس کی کھوج ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔ ویسے تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ساری عورتیں ایک جیسی ہی ہوتی ہیں جو نسوانی اثاثے کسی کی ماں بہن یا بیٹی کے پاس ہوتے ہیں وہی دوسرے کی بیٹی کے پاس بھی ہیں تو پھر یہ کیسا جنسی ایڈونچر ہے کہ ہر عورت کے جسم کو نظروں سے ٹٹولنا بعض مرد اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں اور جب یہ ایڈونچر حد سے بڑھتا ہے تو ہمیں کچروں کے ڈھیر یا گندی نالی سے کسی چھوٹی سی گڑیا کی بھنبھوڑی ہوئی لاش مل جاتی ہے . عجیب سی بات ہے کہ برصغیر کا معاشرہ سیتا اور مریم کی عفت کی مثالیں دیتے نہیں تھکتا مگر اپنی خواتین کے ساتھ سلوک “دروھ پتی” والا کرتا ہے۔
پدرانہ ادبی حلقے میں کسی حد تک قصور ادب لکھنے والی خواتین کا بھی ہے کہ بہت ساری قلم کار خواتین اپنی ذاتی جنسی گھٹن کو بطور ادب کچھ یوں پیش کرتی ہیں کہ گویا ہر مشرقی عورت جنسی طور پر ہیجان کا شکار ہے اور اس کی سوچ کے دائرے صرف اور صرف اسکی جنسی آسودگی کے گرد گھومتے ہیں۔ حالانکہ آج کی عورت کے مسائل معاشی اور معاشرتی ہیں۔ آج خواتین گھر کی معیشت میں اپنا حصّہ ڈالنا چاہتی ہیں. آج کی خواتین اپنی علمی صلاحیتوں اور فکری استعداد کی بنیاد پر اپنے لیے برابر کے حقوق اور احترام کی خواہاں ہیں۔ آج کی عورت خود کو شئے سے زیادہ کا درجہ دیتی ہے وہ کسی کے بستر یا آغوش میں ڈھے جانے کی آرزو کے بجائے کائنات کے سربستہ رازوں کی کھوج میں مصروف نظر آتی ہے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ آج بھی مذہبی اور لبرل طبقے کی ساری توجہ عورت کے جسم پر ہی ہے۔
مذہبی طبقے کے مطابق سارا فساد عورت کے جسم کی بدولت ہے نا تو بیچارے مردوں کی ان پر نگاہ پڑی گی اور نا ہی انکے جذبات بر انگیختہ ہونگے اس لیئے عورت کو سر سے پاؤں تک ڈھک کر چار دیواری میں قید کردینا چاہیے۔ دوسری جانب عورت کی خود مختاری اور آزادی کی مہم چلانے والی ساری کمپنیاں اور ایک مخصوص لبرل طبقہ بھی خواتین کی ذہنی صلاحیتوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے انہیں نیم برہنہ bold عورت بنانے میں مصروف دکھائی دیتا ہے. ان کی نظروں میں کامیاب، پڑھی لکھی اور بولڈ خاتون کا وہی خاکہ ہے جو ایک مشہور انٹرنیشنل ہئیر ریموونگ کریم کے اشتہار میں مائرہ خان نے پیش کیا ہے۔
اسی تناظر میں میری الجھن فقط یہ ہے کہ ہر جگہ عورت کا جسم ہی موضوع بحث کیوں ہے، کیا عورت روح و شعور، فہم و ادراک سے عاری مردوں کی طفیلی مخلوق ہے؟