بلوچستان کے تحفظات
عابد حسین
چند خواتین نے ہاتھوں میں اپنے پیاروں کی تصویریں اٹھا رکھی ہیں۔ کسی بہن کے ہاتھ بھائی کی تصویر ہے، کسی ماں کے ہاتھ بیٹے کی تصویر۔ اس احتجاجی کیمپ میں کم سن بچیوں نے اپنے باپ کی فوٹو کو بھی سینے سے لگا رکھا ہے۔
اگر کوئی ان سے اِس احتجاج کے بارے میں پوچھ لے تو بے بسی سے آنکھوں میں آنسو امڈ آتے ہیں بوڑھی مائیں تو جواب دینے کی ہمت سے بھی عاجز نظر آتی ہیں۔ یقیناّ کسی گہرے اضطراب اور کرب کا سامنا ہے۔
صورتحال پریشان کن ضرور ہے مگر سمجھ نہ آنے والی ہرگز نہیں ہے۔ دل اور دماغ پر خوف و خدشات کے بادل بھی گرجے ہیں مگر حقیقت اور سچائی نے بھی ضمیر کو لرزا کے رکھ دیا ہے اور بھیانک اندیشوں سے دامن چُھڑانے پر مجبور کر دیا ہے۔ ذہن میں کئی سوال ابھرتے ہیں پھر نہاںِ متکلم سے ان کے جواب پوچھنے لگتا ہوں۔
سوچتا ہوں کہ اگر ان خواتین کی زمین پر کسی علاقے کے سردار کسی وڈیرے نے قبضہ کر لیا ہوتا یا گھر چھین لیا ہوتا اور یہ احتجاج اُس ظلم و زیادتی کے خلاف ہوتا تو کیا ہوتا؟
جواب یہی ملا کہ خوف کے بادل نہ چھائے ہوتے۔ یہ وحشیانہ چپ ہرگز نہ ہوتی ان کے آنسوں ضمیروں پر اثر انداز ہو چکے ہوتے اور اس کا ازالہ بھی ہو چکا ہوتا۔ اگر بلوچستان کی یہ معصوم بچی کسی جرگے کے فیصلے کے خلاف آواز اٹھا رہی ہوتی تو کیا ہوتا؟
ریاست میں سخت علیل انصاف اپنی صحت یابی کے یقین دلانے کی پوری کوشش کر رہا ہوتا۔ سوموٹو کی قیامت صغریٰ برپا ہو چکی ہوتی، فوری طور پہ کمیٹی بن گئی ہوتی، شاید رپورٹ بھی پیش با ملاحظہ ہو چکی ہوتی۔ خدا نہ کرے اگر یہ احتجاج کسی وحشی درندے کی درندگی کے خلاف ہوتا تو؟
تبصرہ نگاروں کی طبیعت جوش کے مارے پروگراموں میں بارہا بار بگڑ چکی ہوتی اور سردی میں بیٹھی ان بے بس اور مجبور بہنوں کے لیے بات ہو رہی ہوتی اور اب تک ماتھے پر غیرت کا پسینہ بھی کئی بار آ چکا ہوتا۔ پھر سوچ آتی ہے کہ کیا بلوچستان کی عوام کو بنیادی حقوق مہیا کرنا اور ان کی حفاظت کرنا ریاست کی ذمہ داری میں شامل نہیں ہے؟ کیا یہ خواتین اپنے، باپ، شوہر، بھائی یا بیٹے کو عدالتوں میں پیش کرنے کا جو مطالبہ کر رہی ہیں یہ کوئی غیر آئینی اور ناقابلِ عمل مطالبہ ہے؟
سالوں سے یہ جبری گم شدہ افراد اگر مجرم ہیں تو کیا جرم بتانے اور ثبوت پیش کرنے میں وطن عزیز میں کوئی خطرناک مصیبت پیش آ سکتی ہے؟ اور کیا ایسی صورتحال کسی تشویش ناک نتیجے کا پیش خیمہ بھی ہو سکتی ہے؟ کہ جب عوام کی ریاست سے ناامیدی بڑھتی جا رہی ہو۔ عوام خود کو اپنے ہی ریاستی اداروں سے غیر محفوظ سمجھ رہے ہوں اور ان سے خوف زدہ ہوں۔
اور کیا یہ ذمہ داران کی غیرت اور انسانیت پر بھی سوالیہ نشان ہے یا نہیں؟ کہ جب قوم کی عزتیں بے آسرا سڑکوں پہ رو رہی ہوں اور کسی تسلی اور مہربان لہجے کی منتظر ہوں مگر کسی کے پاس ہمدردی جتانے کا وقت/جرآت نہ ہو۔ کیا سبق سیکھنے اور نتائج سمجھنے کیلئے ہم اپنا ماضی بھول چکے ہیں؟ یا تاریخ سے ناواقف ہیں؟ یا ایک اور شرمساری کے باب میں اضافہ کی خواہش جاگی ہے؟
فراست یہی ہے کہ حالات ابھی ہاتھ سے نہیں نکلے تو ان آنسوؤں کو اپنے دامن سے پونچھ لیجیے اگر یہ آنسو یونہی بہتے رہے تو ضرور ایک دن سیلاب بن جائیں گے۔
(متبادل مختلف موضوعات پر متنوع خیالات اور نکتہ ہائے نگاہ سے ماخوذ ہے۔ کسی مصنف کی رائے سے متبادل کا متفق یا نا متفق ہونا ضروری نہیں۔)