بونے مارکسی
شہزاد فرید
گذشتہ چند سالوں سے سُرخ فلسفے کی مارکیٹ میں رَٹے رٹائے مارکسی فلاسفروں کا مجوعہ کافی بڑھ چکا ہے میرا ایسے سینکڑوں مارکسیوں سے واسطہ پڑ ا ہے جن کا علمی ذخیرہ اِدھر اُدھر سے سُنی سُنائی بے ترتیب مارکسی اختراعوں کا مجموعہ ہے ایسے اصحابِ مارکس بڑے ہی وثوق سے انقلابی سعی کو مسائلِ زیست کے حل کی قلیدی دلیل گردانتے ہیں حالانکہ ہم اس انقلابی سعی کے نتائج بھُگت چکے ہیں جیسا کہ ماؤکی انڈسٹریلازیشن اور حسود انقلاب کو کُچلنے کی حکمتِ عملی کم از کم بیس لاکھ چائنی باشندوں کو کھا گئی، روس کی بالشویک تراکیب، کسان دوستی اور عہد ہائے ترقی ایک کروڑپچاس لاکھ افراد کے قتل کی ذمہ دار ہیں۔سرُخ انقلاب سُرخ دہشت میں ڈھل گیا تھا۔میرا من چاہتا ہے میں اس مضمون کو ایک طویل علمی و معاشرتی بحث میں ڈھال دوں لیکن اس فورم کے قارئین شاید دقیق علمی بحث میں دلچسپی نہ لیے ہوں اس لیے میں نے ایک دو واقعات اور گذاریشات پر ہی اکتفا کیا ہے۔
کچھ عرصہ قبل میرا ا یسے ہی نومولود مارکسی سے پالا پڑا، صاحب کلف لگے کپڑوں میں سر تا پاء سردار تھے اور اپنی نشت پر براجماں ہوتے ہی مارکسی فلسفہ استحصال کی تقریر شروع کردی ، ایک گھنٹہ تقریر سننے کے بعد جب میں نے دریافت کیا کہ آپ کا تعرف؟ تو حضرت نے اپنی زمینوں کے طول وعرض روایت فرمائے، خاندانی سرداری کے تاج کو فخر کُن حرفوں سے کندہ کیا، سیاسی اثرو رسوخ کی شطرنج میں خود کو ملکہ کے عہدے سے نوازا، نسلی نوکروں ، عورتوں اور کُتوں کا شوق بلا امتیازایک امتیازی تمغہ کے طور پر مونچھوں کے تاؤ پہ سجایا ۔لیکن اس کے باوجود گھر کی روٹی پوری نہیں ہوتی تھی! ایسامفلس شوقین مارکسی میں نے اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ دیکھا تھا۔ اُس وقت میں نے ایک قطعہ کہا تھا جو مجھے آج بھی یاد ہے۔
پادشاہِ شہرِ مسکیں رویا را دید
ہرکہ مکاں شد بہ شکمِ سیر دید
ولی یک اشرفئ محلِ اعلیٰ خرچ نشد
گراں تاج و زمیں ہم صرف نشد
(ترجمہ – بادشاہ نے خواب دیکھا کہ اس کی زبوں حال قوم کو گھر ملیں گے اور سب پیٹ بھر کے کھانا کھائیں گے لیکن محل کی دولت یہاں تک کہ ایک پائی بھی اس کام کے لیئے صرف نہیں کی جائے گی)
پاکستان کی جامعات میں آپ کو ایسے مارکسیوں کی ریل پیل ملے گی جو چائے کے کپ کے ہمراہ مارکس کو ٹھنڈا کرنے کی گرم صلاحیت رکھتے ہیں اور لگے ہاتھ بانوقدسیہ ، اشفاق، شہاب ،اقبال وغیرہ کو مارکسی ثابت کرکے ہی دم لیتے ہیں اقبال کے ساتھ وہ اس طرح پیش آتے ہیں جیسے ملّانصیر کے گدھے کے ساتھ بچے شوق فرمایا کرتے تھے لیکن اگر آپ نے اُن کے دلائل کے برعکس ہلکی سی آہ بھرنے کی بھی جرأت فرمائی تو ناک وغیرہ کو بند کردیں گے۔
اسی طرح ایک نوکر شاہی سے ملاقات کا شرف حاصل ہواموصوف نے اقبال کے کپڑے پھاڑتے ہوئے نعرۂ انقلاب بلند کیا۔جنوبی پنجاب کی ایک سرکاری جامعہ کے طالب علم سے میں غلطی سے دریافت کربیٹھا کہ آپ کو کیا پڑھایا جارہا ہے تو آپ صاحب نے اپنے تن بدن میں انقلابی روح اُبھاری، کنگفو پانڈا کی طرح پورا منہ پھُلا یا اور ایک لاوے کی طرح پھٹتے ہوئے بولے’کارال میکس‘! اور وائے کہ ساتھ یہ بھی بتا ڈالا کہ عمرانیات کے فلاں ماہرے جنسیات انہیں کارال میکس کا تصادم پڑھا رہے ہیں، میرے دل میں آئی کہ کچھ نیا سیکھنے کو ملے گا تو میں نے اپنی تشنگی بیان کردی ، حضرت طالب علم رحمتہ علیہ نے ابن خلدون اور مارکس کو ایک ہی باپ کی اولاد ثابت کرتے ہوئے مارکسی فلسفے کی جڑ مسلمانوں کو ثابت کردیا! مجھے تو مارکس کے والد صاحب پر شک ہوگیا، ہوسکتا ہے اپنے پہلے جنم میں بھی کسی جرمن جبرئیت سے تنگ آکر صاحب نے تیونس میں کوئی داستاں چھوڑی ہو یا پھر موصوف ڈریکولا واقع ہوئے ہوں جنہیں ۱۳۳۲ء سے ۱۸۱۸ء تک دو ہونہار بچے پیدا کرنے کی سزا سنائی گئی ہو۔
ان اقسام میں سوشل میڈیا کے مارکسی بھی پائے جاتے ہیں جو ایڈم سمتھ، رکارڈو، علیؓ اور احادیث پر مارکس کی مہر ثبت کرکے تشہیر کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ان تمام اعلیٰ نسلی مارکسیوں میں سے ایک قسم بونے مارکیسوں کی بھی ہے جو جن کے ماتھے پہ “نہیں” کندہ ہے۔ آپ ان سے کہیں ، یہ حکومت پہلی سے بہتر ہوگی ، جواب آئے گا ، “نہیں”، مزید جراّت کا مظاہرہ کریں اور کہیں، مذہب آخر کار اس معاشرے میں موجود تو ہے نہ ، جواب نازل ہوگا، “نہیں”، زرا سی درایت کا اظہار کریں ، روایت کریں گے “نہیں ابن النہیں”،حتیٰ کہ اگر آپ یہ بھی کہ دیں کہ مارکس کے بیشتر مقالات ، اینگلز نے لکھے ہیں تو بھی وحی نہیں کی صورت ہی نازل ہوگی ، انقلا ب ، انقلاب ، انقلاب ، ساتھ ایک محبت بھرا چرس کا سوٹا اور مارکس بقول مولانا ظفر علی ، دم مست قلندر دھر رگڑا۔
دراصل اس سارے معمہ کی وجہ مارکس نے خود بیان کردی ہے یعنی ’معاشرتی ساخت انسانی شعور کا تعین کرتی ہے‘۔ہم اس معاشرتی ساخت کے وہ معصوم بونے ہیں جو جامعات کے طلبہ کو تحقیق و تخلیق سکھانے پر ’ٹی سی‘ سکھانے کو ترجیح دیتے ہیں، جہاں اختلافِ رائے رکھنے والی کتابوں پر پابندی لگا دی جاتی ہے، جہاں عورت کی عصمت دری ہونے پر ایس ایچ او غیرت کا تعنہ مارتے ہو پوچھتا ہے کہ تم مجرم کی چھوڑو ، یہ بتاؤ کہ گھر سے آم لینے نکلی تھی!ہم وہ بونے ہیں جو پولیو کے قطرے پلانے پر تیس کروڑ مزدوری دیتے ہیں(تمہیں یاد ہوکے نہ یاد ہو)، جو جمہوری بادشاہت بیٹی کو سونپ دیتے ہیں، جن کا میکائیل انگلینڈ سے بوری بنواتا رہاہے، جن کا اسلام بن بلائے مہمان کی طرح کینڈا سے بُلٹ پروف کنٹینرپر نازل ہوتا ہے،جہاں کے شاہینوں کو شاہیں شاعروں ، عظیم ادبی مفکروں اور خطاطی کے فنکاروں نے سائنس و ٹیکنالوجی کی بجائے تصوف کا درس دیا، جہاں ستر سال میں صرف دو سیاسی خاندانوں نے ہی لیڈر پیدا کئے باقی سب نے تو غلطیوں کو ہی جنم دیا ہے ، ہم اُس معاشرے کے معصوم بونے ہیں جہاں ایدھی مر گیاہے اور بھٹو زندہ ہے۔ ایسے معاشرے میں بونے مارکسیوں کا وجود اُن کے اختیار میں نہیں۔