بھیانک چہرہ
عاطف توقیر
دادی ہر روز صبح سویرے باورچی خانے کے پہلو سے لگے اپنے کمرے کے دائیں جانب رکھی پرانی الماری کے بائیں بازو پر دھرے آئینے میں چہرے پر گئے دن کی دھری خراشوں پر کوئی روغن ملتی مِلتی تھیں۔ میں اسکول جاتے ہوئے ڈیہوڑی (دہلیز) سے بائیں ہاتھ کو دادی کو سلام کرتے گزرتا تو وہ اپنے انہیں روغنی ہاتھوں سے بالوں کو چھو لیتیں اور ماتھے پر ایک گہرا بوسہ جما کر رخصت کرتیں، میں سارا دن مہکتا رہتا۔
مگر سال میں چند روز ایسے بھی ہوتے جب وہ مجھے اس پرانے مگر زندہ آئینے کے سامنے نہ ملتیں بلکہ کھلے ویہڑھے (آنگن) کے ایک طرف اپنی چارپائی پر یا تو درود پڑھتی نظر آتیں یا ویہڑھے ہی میں آخری سرے پر بنے کھُرے(نہانے کی جگہ) پر اپنے واحد سیاہ لباس کو دھوتی نظر آتیں تو معلوم ہو جاتا کہ محرم چڑھ آیا ہے۔ ان کے چہرے سے سارا روغن ڈھل کر کھُرے میں گر جاتا اور چہرے کی ساری خراشیں زندہ ہو جاتیں۔ جلد ساتھ لے کر گرتی خراشیں، جیسے وقت نے اپنے تیز ناخنوں سے سارا بدن چھیل کر رکھ دیا ہو اور حرکت ایسی کوتاہ ہو کہ خبر تک نہ ملے۔
کم علمی کا خلا کوئی پر کر سکتا ہے تو وہ تجسس اور سوالات ہیں، سو اس کچی عمر میں، دادی سے چہرے پر روغن نہ ملنے کی وجہ پوچھنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ بچا۔
میں اسکول جاتے ہوئے بھاری بستے کو ایک ہاتھ سے اپنے گلے پر اوڑھتے ہوئے اچانک دادی کے پاس بوسہ لینے پہنچا تو نگاہ ان کے چہرے پر کسی گہری کھائی میں ڈھ گئی۔
دادی کے چہرے پر ہمیشہ کی طرح فقط شفقت تھی یا دعائیں اور یا وہ سلوٹیں، جن پر آج روغن نہیں تھا۔ میں نے اسکول میں تازہ تازہ سیکھا تھا کہ شیعہ لوگ محرم کا دکھ کرتے ہیں، مگر ہم تو شیعہ نہیں تھے۔ پھر دادی کے چہرے سے روغن محرم نے کیوں چھین لیا۔
میں نے کہا دادی آپ کیوں محرم میں چہرے پر روغن نہیں لگاتیں، آئینہ نہیں دیکھتیں، چہرہ تک نہیں دھوتیں۔
دادی کو شاید اس سوال کا علم تھا، اس سوال سے پہلے ہی میرے اپنے ماتھے پر ابل پڑنے والی وقت کی خراشیں اور سلوٹیں ہی انہیں میرا تذبذب بتاتے کے لئے شاید کافی تھیں۔
آج ان کا بوسہ بہت طویل تھا۔ بہت طویل۔
میرے ماتھا مجھے واپس کر دینے کے بعد بھی وہ گم آنکھوں سے مجھے دیکھتی رہیں اور پھر بولیں۔
محرم میں ہم مسلمانوں کو اپنا چہرہ نہیں دیکھنا چاہیے۔ کیوں کہ اگر عاشور کے وقت بھی کسی کو اپنا چہرہ ٹھیک دکھائی دے اور کچھ بدلا نہ ملے، تو سمجھو وہ سچا مسلمان نہیں، وہ منافق ہے۔
آج کے دن ہمارے پیمبر کا پورا خاندان خود ہمارے ہاتھوں سے کٹ گیا تھا۔ ہمارے آقا کے چھوٹے چھوٹے سے بچے پیاس اور بھوک سے جان دے رہے تھے۔ ہمارے مولا کا لاڈلا ہمارے ہی نیزوں کی انی پر کلمہ ء طیبہ پڑھ رہا تھا اور ہم آقائے رحمتِ دو عالم کے گھر کی عورتوں کے سروں سے چادریں اتارتے ہوئے نعرہ ء تکبیر بلند کر رہے تھے۔ ہم کس منہ سے آئینہ دیکھیں؟
آج کے دن فقط خود سے یہ سوال پوچھنے کا دن ہے کہ اس لمحے ہم وہاں ہوتے تو کس طرف ہوتے۔ یزید کے بھیجے ہوئے اس لشکر کے ساتھ یا اپنے مولا کے خاندان کے ساتھ۔
آج کا دن آئینوں میں جھانکنے کا نہیں اپنے اندر جھانکنے کا دن ہے۔