تن کے رکھو خان صاحب
وقاص احمد
آج کل سوشل میڈیا پر اہل انصاف اور اہل پٹوار کے درمیان بہت ہی مزاحیہ گفتگو چل رہی ہے۔ مزاحیہ اس لیے کہ پٹواری تو ہر روز کوئی نئی سے نئی خبر کوئی نیا طنز کوئی نیا نشتر چھبوتے ہیں لیکن انصافیوں کی جیسے کیسٹ ہی ایک دو جملوں پر پھنس سی گئی ہے۔ وہ گفتگو جو آپ عموماً دیکھیں گے
پٹواری: سرمایہ کار پاکستان سے بھاگ رہے ہیں
انصافی: خان صاحب چھوڑنا نہیں انہیں، تن کے رکھو
پٹواری: ڈالر کی قیمت تاریخی بلند سطح پر پہنچ گئی
انصافی: خان صاحب چھوڑنا نہیں انہیں، تن کے رکھو
پٹواری: سٹاک مارکیٹ اوندھے منہ نیچے گر رہی ہے
انصافی: خان صاحب چھوڑنا نہیں انہیں، تن کے رکھو
پٹواری: 17 ارب ڈالر کا خزانہ 8 سے بھی کم رہ گیا ہے
انصافی: ابھی تو اور بھی چیخیں نکلیں گی تمہاری، آسمان تک جائیں گی چیخیں۔
پٹواری: دو مہینے ہوگئے، بھینسیں گاڑیاں بیچنے کے علاوہ بھی کچھ کر لو
انصافی: ابھی تو اور بھی چیخیں نکلیں گی تمہاری، آسمان تک جائیں گی چیخیں
پٹواری: پھر خودکشی آئی ایم ایف جانے سے پہلے کرنی ہے یا بعد میں؟
انصافی: ابھی تو اور بھی چیخیں نکلیں گی تمہاری، آسمان تک جائیں گی چیخیں۔
اس یکطرفہ گفتگو کے بعد پٹواری بیچارہ حیران پریشان سا ہو کر چپ ہو جاتا ہے کہ وہ تو اپنی طرف سے سنگین ترین صورتحال بتا رہا ہے اور آگے سے جیسے “خودکار جواب دینے والی مشین” لگی ہوئی ہے۔ جو مرضی کہہ لو آگے سے حلق پھاڑ کر اور منہ سے جھاگ اڑا کر صرف “چیخیں، چیخیں اور برنال برنال” کی ہسٹیریائی آوازیں سنائی دیتی ہے۔
خیر یہ تو تفنن طبع کے لیے میں نے سوشل میڈیا کی موجودہ صورتحال کا جائزہ پیش کر دیا مگر صورتحال کافی سے بہت زیادہ گھمبیر ہے۔ یہ تو خیر کوئی ذی شعور نہیں کہتا کہ ن لیگ کے دور میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی تھیں کیونکہ ظاہر ہے کہ کچھ سیاسی، سماجی، معاشی اور بالخصوص فوجی مسائل تو ہمارے لیے لازم و ملزوم ہیں لیکن یہ تو باآسانی دیکھا جا سکتا ہے کہ معاشی اشاریے، کاروباری صورتحال، انوسٹمنٹ کے مواقع، انوسٹرز کی دلچسپی، ترقیاتی منصوبے، توانائی بحران کا قریباً خاتمہ اور ڈالر کے مقابلے روپے کی مستحکم قیمت کے ساتھ ساتھ ایک لمبے عرصہ تک مہنگائی پر ایک مناسب کنٹرول پچھلے دور حکومت میں ممکن بنا دیا گیا تھا۔ میرے کہنے نا کہنے یا آپ کے ماننے یا نا ماننے سے فرق نہیں پڑتا کہ یہ کوئی ہوائی باتیں نہیں بلکہ اعداد و شمار سے ثابت شدہ ہیں۔
اب خاں صاحب وزیراعظم کس لیے بنائے گئے ہیں اس بارے میں جملہ پاکستانیوں کی دو رائے ہیں۔
پہلی رائے کے مطابق خاں صاحب وزیراعظم اس لیے بنائے گئے ہیں کہ پچھلے 5 سال میں کیے بلند و بانگ دعوؤں کو اپنی مشہور زمانہ 200 چوٹی کے دماغوں کی ٹیم کی مدد سے ثابت کر کے دکھائیں
دوسری رائے جو ابھی حال ہی میں نمودار ہوئی ہے وہ کچھ یوں ہے کہ “ہم نے خان کو ووٹ ٹماٹر پیاز سستے کرنے کے لیے نہیں بلکہ چوروں کو الٹا لٹکانے کے لیے دیا تھا”۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ لالی پاپ نما رائے سوشل میڈیا کے انہی پیجز سے لانچ کی گئی ہے جن کو اہل انصاف ہی چلا رہے ہیں اور حکومت کی موجودہ حالت اور منہ پھاڑے سنگین مسائل دیکھ کر انہیں یقین ہوگیا ہے کہ یہ ہمارے بس کی بات نہیں۔ سو جملہ اہل انصاف کو ٹرک کی دوسری بتی کے پیچھے روانہ کیا جا چکا ہے اور آخری اطلاع کے مطابق انہیں “برنال برنال” چیختے ہوئے zombies کی طرح اس بتی کے پیچھے اندھا دھن بھاگتے دیکھا گیا ہے۔
میں چونکہ ایک فقیر، مسکین، غریب بندہ ہوں اس لیے میری رائے نا تین میں ہے نا تیرہ میں اس لیے اس کو شمار مت کریں کیونکہ میرے خیال میں تو خاں صاحب وزیراعظم صرف اسی لئے بنائے گئے ہیں کہ وہ ان کی چاکری کریں جنہوں نے انہیں وزیراعظم بنایا۔
لوگ بہت دردمندی سے پوچھتے ہیں کہ کیا یہ جائز ہے کہ دو مہینے کی حکومت سے آپ اس کی پرفارمینس پر سوال کریں؟ اور میرا جواب بالکل سادہ سا ہوتا ہے کہ بھائی آپ سے کسی نے “رزلٹ” نہیں مانگا صرف پالیسی ڈائریکشن مانگی ہے۔ مسلم لیگ کی حکومت نے 7 جون کو حلف اٹھایا تھا اور اسحاق ڈار نے 12 جون کو بجٹ پیش کر دیا تھا۔ اور بجٹ پیش کرنا بچوں کا کھیل نہیں ہوتا۔ آپ کے دعوے تو ہمیں بتاتے تھے کہ 200 عالی دماغوں کی دیگ انقلابی چولہے پر چڑھی ہوئی ہے اور جیسے ہی ہمیں اقتدار ملا، حلوہ ملنا شروع ہو جائے گا مگر اصل میں آپ کے اوسان ایسے خطا ہوئے پھرتے ہیں کہ روز آپ کے بیانات پچھلے دن کے اقدامات کی نفی کرتے ہیں۔ گاڑیاں بیچ لیں، بھینسیں بھی بیچ لی، کتوں کو سرکاری پروٹوکول بھی دے دیا، گورنر ہاؤس کے بخینے بھی ادھیڑ لیے، وجاہت خان نے پرائم منسٹر ہاؤس کے باتھ روم میں لیٹ کر فوٹو سیشن بھی کروا لیا، درختوں کا پرچار کیا، ڈیم فول فنڈ چیپ جسٹس سے چھین لیا، ٹوائلٹ صفائی کا پروگرام چلا لیا لیکن عالمی اعتماد سازی، ناک کے بل گرتی سٹاک مارکیٹ، معیشت کی بحالی، انوسٹرز کی حوصلہ افزائی، بجلی کے بحران، امن و امان اور خارجہ پالیسی کے لیے آپ نے کیا کیا؟ مجال ہے کہ کوئی ایک پالیسی بیان نئی حکومت کے منہ سے نکلا ہو، مجال ہے کہ کسی مسئلے حل ہی بتایا ہو۔ ہمارا وزیراعظم ابتدائی تقریر میں کم افزائش شدہ دماغ کی تصویریں اٹھا کر بچوں میں خوراک کی کمی اور گندے ٹوائلٹس کے مسئلے پر بات کرکے اہنے ہی حواریوں سے واہ واہ تو سمیٹتا ہے مگر اس کے دماغ میں یہ نہیں آتا کہ اس کا کام ٹوائلٹس کی صفائی نہیں ہے بلکہ پالیسی سازی کی ڈائریکشن دینا ہے۔
وزیراعظم کی کوئی بھی تقریر کسی نیم ان پڑھ اینکر کے اس پروگرام کی مانند ہوتی ہے جو مائیک اٹھائے سڑکوں پر سکینڈلز کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں، جن کے پروگراموں میں مسائل کے بیان ڈرامائی سنسنی خیزی اور دیگر گیدڑ بھبکیاں تو ضرور ہوتی ہیں مگر ایک گھنٹے کے پروگرام میں ایک منٹ بھی ان مسائل کے قابل عمل حل پر کوئی بات نہیں ہوتی۔ خاں صاحب، کنٹینر سے اترو، جن مسائل کو آپ نے اس قوم کے لیے سوہان روح بنا دیا تھا اس کا حل بھی بتاؤ۔ مجھے یہ کہانی مت سناؤ اب کہ آپ 50 لاکھ گھر بناؤ گے۔ مجھے اب یہ بتاؤ کہ 50 لاکھ گھر کیسے بناؤ گے۔ وعدوں کی گولیاں ٹافیاں بہت کھلا دیں، اب روڈ میپ دو ان وعدوں کی تکمیل کا۔ آپ کبھی 3 مہینے مانگتے ہو کبھی 6 مہینے۔ میں آپ کو گارنٹی دیتا ہوں کہ آپ کے مخالف آپ کو دو سال بھی دینے کو مجبور ہو جائیں گے اگر آپ نے اپنے ٹارگٹس واضع کر کے ان کا روڈ میپ دے دیا۔ مگر کچھ بولو تو سہی؟ اب میں کیا مثالیں دوں آپ کے سیاسی مخالفین کی کہ ان کا نام بھی سنتے آپ اور آپ کے حواریوں کے منہ سے جھاگ اور کانوں سے دھواں نکل آتا ہے مگر اسحاق ڈار نے اگر کہا تھا کہ میں ڈالر کو 98 روپے پر لے آؤں گا تو اسی دن سے اس نے اس حوالے سے کام کر کے دنوں میں رزلٹ بھی دے دیا۔
اگر نواز اور شہباز شریف نے کہا تھا ہم بجلی کا بحران ختم کر دیں گے تو پہلے دن سے اس پر ہوتا ہوا کام خبروں کی زینت تھا۔ انہوں نے بھینسیں گاڑیاں بیچنے کی ڈرامہ بازیاں نہیں کیں تھی، کام کیا تھا۔ باقی رہا قرض لینا، تو جناب عالی اب تو آپ کے اپنے پیجز اور آپ کے اپنے پروردہ ٹی وی چینلز پر قرض کی خوبیوں پر لیکچر چل رہے ہیں سو یہ طعنہ تو اب بالکل غیر متعلق ہوگیا ہے۔ 3 ارب ڈالر کے ذخائر ہوتے ہوئے ملک کو ڈیفالٹ کے دھانے سے ایک بندہ کھینچ لایا تھا اور آپ سے 14 ارب ڈالر کے ذخائر سے نہیں چل رہا؟ اس لیے تو سیانے کہتے ہیں کہ بازار سے دھنیا لانے کی صلاحیت ناں ہو تو آسمان سے تارے توڑ لانے کے دعوؤں پر لوگ ہنستے ہی ہیں۔
کچھ کریں خاں صاحب، کچھ کریں۔ یہ عوام فیصلے کے لیے آپ کی طرف دیکھ رہی ہے اور آپ کی فیصلہ سازی کی صلاحیت کی کمی ہی اب تک ہمیں 2800 ارب روپے کا نقصان پہنچا چکی ہے۔ فیصلہ کرنے میں تاخیر اکثر اوقات غلط فیصلہ کرنے سے بھی بھاری پڑتی ہے۔ آپ تیزی سے امید کی کرن سے ایک بھیانک خواب میں تبدیل ہوتے جارہے ہیں۔ جس کی آپ کے مخالفین کو تو بہت خوشی ہوگی لیکن مجھے ڈر یہ لگتا ہے کہ “خان کو ایک چانس” دیتے دیتے کہیں میرا ملک ہی داؤ پر نا لگ جائے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو وزیراعظم بنانے والے مداریوں کو ہدایت دے۔ آمین۔