توہین

وقاص احمد

خاصی شرمندگی والی صورتحال تھی۔ چوہدری صاحب کو بیچ پنچایت اپنی پگ اتار کر معافی مانگنی پڑی اور وہ بھی میراثیوں کی لڑکی سے۔ گاؤں کے بڑوں اور سیانوں نے ایک دوسرے سے نظریں چراتے ہوئے گردنیں نیچی کر لیں جبکہ لڑکوں کھلنڈروں نے خوب ٹھٹھے لگائے۔ لیکن نوبت یہاں تک کیوں پہنچی اس کے لیے ہمیں واقعے کا پس منظر جاننا ہوگا۔

چوہدری صاحب کے اکلوتے ولایت پلٹ بیٹے کا دل مراثیوں کی لڑکی پر آ گیا۔ لڑکی تھی بھی خوبصورت۔ دو طرفہ عشق پروان چڑھا تو چھوٹے چوہدری نے اپنے ابا کو کہہ دیا کہ یہیں شادی کرے گا۔ چوہدری صاحب کوئی روایتی چوہدری تھے نہیں، نا ہی ذات برادری رنگ و نسل کے قائل تھے البتہ چوہدرائن نے بیٹے کو کہا کہ بیٹا تعلیم شخصیت بناتی اور سنوارتی ہے, مراثیوں کی لڑکی بالکل جاہل ہے تمہارا نباہ نہیں ہوسکے گا۔ لڑکی کا اپنے خاندانی پس منظر کی وجہ سے اٹھنا بیٹھنا، تمیز، تہذیب، برتاؤ تمہیں مشکل میں ڈال دیں گے پر لڑکا نا مانا اور شادی ہوگئی۔

مگر جو چیز لڑکے سمیت اسکے ماں باپ کو معلوم نہیں تھی وہ یہ تھی کہ لڑکی جاہل ہونے کے علاوہ منہ پھٹ، بدتمیز اور دماغی لحاظ سے کچھ کھسکی ہوئی تھی۔ شادی ہوگئی اور لڑکی کے گن بھی سامنے آنے لگے۔ لڑکا تو شادی کے بعد ولایت چلا گیا اور چوہدرائن کو لڑکی کے مسئلے مسائل سے واسطہ پڑا۔ تنگ آکر چوہدرائن نے خاندان کے ایک بزرگ چوہدری رحمت علی کو مسئلہ بتا کر حل پوچھا۔ لڑکی کا باپ چوہدری رحمت کے گھر کام کرتا تھا اور وہ اس لڑکی کو بخوبی جانتا تھا۔ اس نے چوہدرائن کو کہا، “بیٹا! اس لڑکی کا دماغی توازن درست نہیں، اسکے گھر والے بھی ڈر کے مارے اس کو کچھ نہیں کہتے تھے، اگر تم نے کوئی بھی سخت سچی جھوٹی بات اس کو کہہ دی جو اس کو اپنی توہین لگی تو یہ پاگلوں کی طرح کاٹ کھانے کو دوڑتی ہے۔ اوپر سے تمہاری مجبوری یہ ہے کہ تمہارا بیٹا اسکا عاشق ہے، اس لیے تم اس کو کوئی ایسی بات نا کہہ بیٹھنا جس سے اس کی شان میں گستاخی ہو جائے اور تمہارا ہنستا بستا گھر اجڑ جائے۔”

چوہدرائن ایک نرم دل عورت تھی، وہ گھبرا گئی مگر شومئی قسمت یہ گفتگو مراثیوں کی لڑکی نے بھی سن لی۔ بدتمیز، منہ پھٹ اور جاہل تو وہ پہلے سے ہی تھی لیکن جب اسے احساس ہوا کہ اس کی ہر بدتمیزی اور خودسری کو حویلی میں ایک طرح سے “آئینی تحفظ” حاصل ہے تو کردار کا چھوٹا برتن زیادہ اختیارات کی وجہ سے چھلک گیا اور وہ بالکل ہی آپے سے باہر ہوگئی۔

کھانے میں کیا بن رہا ہے سے لیکر، کپڑے کس درزی سے سلیں گے۔ حویلی کے چوکیدار سے لیکر مالی، خانساماں، کپڑے دھونے والی ماسی، صفائی کرنے والی مہترانی، اصطبل کا سائیس “کون ہوگا اور کتنی تنخواہ پر رکھا جائے گا” کے معاملات میں بھی اس کی دخل اندازی شروع ہوگئی۔ پرانے ملازمین فارغ کردیے۔ اپنے میکے سے نئے ملازمین کا انتخاب کر لیا۔ گھر میں جس کو چاہا بلایا اور ذلیل کر دیا۔ نسلوں کے نمک خوار ملازمین دل برداشتہ ہونے لگے، چند ایک نے چوہدرائن سے شکایت بھی کی مگر چوہدرائن نے سختی سے منع کر دیا کہ اس کو کچھ نا کہنا۔ بیشتر ملازمین اس لڑکی کی اصل اوقات جانتے تھے، غصہ ان کے سینوں میں کھولتا، مگر چوہدری رحمت علی کے دیے گئے “آئینی تحفظ” نے ان کی زبانوں پر قفل لگا دیے تھے۔ جو مجبور تھے وہ خاموشی سے اسکو برداشت کرتے رہے اور جو برداشت نہیں کر سکے وہ حویلی چھوڑ گئے۔

حویلی میں بہت ڈیرہ داری تھی۔  چوہدری صاحب کا دسترخوان بھی بہت وسیع تھا۔ میل ملاپ والے لوگ بہت آتے تھے مگر وہ تمام کام جو چوہدرائن اپنی انتظامی صلاحیتوں سے سنبھال لیتی تھی وہ میراثیوں کے لڑکی کے تماشوں کی وجہ سے درہم برہم ہوگئے۔

معاملات یہیں تک رہتے تو شاید چلتے رہتے مگر مراثیوں کی لڑکی نے تو اب شہہ پا کر چوہدری صاحب کی زمینوں کے معاملات، آمدن اخراجات، مقدمے بازی، الیکشن سپورٹ، بنک اکاونٹس اور دیگر معاملات میں بھی دخل اندازی شروع کر دی۔ حالانکہ اس کو ان باتوں کی رتی بھر بھی سوجھ بوجھ نہیں تھی۔ چوہدری صاحب اسے جتنا نظر انداز کرتے وہ اتنا ہی ان کے اعصاب پر سوار ہوتی جاتی اور پھر وہ دن آگیا جس کا اوپر ذکر ہوا۔ گاؤں کی پنچائیت چوہدری صاحب کے مہمان خانے میں سجی تھی، اہم معاملہ تھا اور گاؤں کے سارے قابل ذکر بزرگ موجود تھے۔ گاؤں والے حویلی کے باہر کھڑے فیصلے کا انتظار کر رہے تھے۔ اچانک مہمان خانے کا دروازہ کھلا اور مراثیوں کی لڑکی محفل میں کود پڑی۔ چوہدری صاحب بولے “بیٹی! یہ بزرگوں کی محفل ہے، آپ اندر جاؤ شاید آپ کی آنٹی کو آپ کی مدد کی ضرورت ہے”. مگر وہ کہاں ماننے والی تھی، ڈھیٹوں کی طرح دخل در معقولات کرتی رہی۔

آخر کار چوہدری صاحب کا صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور انہوں نے اس کو جھاڑ پلا دی۔ مراثیوں کی لڑکی کا پہلے تو چوہدری صاحب کا غصہ دیکھ کر خوف کے مارے خون خشک ہوگیا۔ پھر جب اسے یاد آیا کہ اس کو تو اس گھر میں “آئینی تحفظ” حاصل ہے تو اس نے اونچی آواز میں بین ڈالنے شروع کر دیے۔ سر کی چادر نوچ کر زمین پر پھینکی اور بال کھول کر پھپھے کٹنیوں کی طرح اپنا ماتھا پیٹنا شروع کر دیا اور ساتھ ساتھ چیخ چیخ کر چوہدری اور اس کے خاندان کو کوسنے اور بددعائیں دینا شروع کر دیں۔ چوہدری صاحب عزت دار بندے تھے، زندگی بھر کی اور باپ دادا کی کمائی ہوئی عزت مراثیوں کی لڑکی کے ہاتھ مٹی ہوتی دیکھی تو گھبرا گئے اور بہو کو پیار سے منانا شروع کر دیا۔ لڑکی نے جب چوہدری کو نیچے لگتے دیکھا تو اور بپھر گئی اور بولی “میری بے عزتی؟ میری توہین؟ میرے ساتھ پنگے؟ میں تمہیں کہیں کا نہیں چھوڑوں گی”. آواز اونچی ہوئی تو چوہدری کو دھڑکا لگ گیا کہ یہ تو باہر گاؤں والوں تک بات پہنچ جائے گی۔ لڑکی نے چوہدری صاحب کو کہا، “میں پورے گاؤں کو اس ظلم کی کہانی سناؤں گی، میں تمہیں سارے جہان میں ذلیل کرواؤں گی۔ ورنہ ابھی کے ابھی اپنی پگڑی اتارو اور ہاتھ جوڑ کر مجھ سے معافی مانگو”۔ پنچایت میں سبھی بزرگ اور دانا لوگ بیٹھے تھے، ان میں سے ایک نے چوہدری کے کان سرگوشی کی، “چوہدری صاحب، نیچ ذات اور کمینے انسان سے لڑائی میں نقصان صرف عزت دار اور شریف لوگوں کا ہوتا ہے۔ آپ ایک غلطی مراثیوں کی لڑکی کو اپنے گھر لاکر کر چکے، اب دوسری غلطی کر کے اپنا تماشا پورے گاؤں کے سامنے مت لگوا لینا۔ سمجھو یہاں کوئی نہیں بیٹھا اور معافی مانگ لو اس سے”۔

آگے کی کہانی کا ذکر اوپر ہو چکا۔ پورے گاؤں میں بات سرگوشیوں کے ذریعے پھیلی اور پھر کھلے عام جگتیں چلنے لگیں۔ چوہدری کا کیا بنا، اس کے بیٹے نے پھر اس خر دماغ لڑکی کا “آئینی تحفظ” کیسے ختم کیا اور کیسے اس کا دماغ درست کیا یہ ایک الگ داستان ہے۔ آپ حضرات سے صرف دو درخواستیں ہیں۔ ایک یہ کہ بندے  کی عزت اپنے ہاتھ میں ہی ہوتی ہے اور دوم یہ کہ براہ مہربانی اس تحریر کی کوئی سیاسی مماثلت ڈھونڈنے سے پرھیز کریں۔