جدید نوآبادیاتی دور میں نوآبادیاتی باقیات

ارم شاہین

نوآبادیات اور جدیدنوآبادیات دو مختلف ادوار کے رجحانات ہیں نوآبادیاتی نظام ایک ایسی حکمت عملی ہے جس کے ذریعہ ایک ریاست کسی دوسری ریاست یا ریاستوں کو مقبوضہ بنا کر وہاں کے کلی سیاسی اختیارات کے حصول کو ممکن بناتی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ وسائل پر دسترس حاصل کی جا سکے بلکہ استحصال کیا جا سکے۔

پندرھویں صدی عیسوی سے اس رجحان کا آغاز ہوا جب دنیا کو دریافت کرنے کا شوق تیزی سے سرائیت کر رہا تھا اور ہر طاقت ور ملک اپنی طاقت کو تقویت بخشنے کے لئے کمزور ملکوں پر اپنا تسلط قائم کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہا تھا تاکہ وہاں کے وسائل کو بھر پور طریقے سے لوٹا جا سکے یوں وسائل ہتھیانے کی اس دوڑ میں ان طاقتوں کا ٹکراؤ تضاد بن کر ابھرا (جوکہ یقینی تھا) جو دنیا کی دو عالمی جنگوں کا سبب ٹھرا اور پھر بعدازاں یہی تضاد اتنی شدت اختیار کر گیا کہ دوسری عالمی جنگ میں سامراجی طاقتوں کا انہدام ہوا جس کی وجہ سے نوآبادیات کو سامراج کے تسلط سے چھٹکارہ ملا مگر سامراجی عزائم کو بدلتے وقت سے ہم آہنگ کر نے کے لیے اور ان نو آزاد ریاستوں پر اپنا سامراجی تسلط برقرار رکھنے کیلئے ایک دوسرے طریقہ ہائے واردات کی ضرورت پڑی جو جدید نوآبادیات کہلایا جس میں نوزائیدہ ریاستوں پر جارحیت برقرار رکھنے کیلئے پالیسیاں کنٹرول کی جانے لگیں ۔ اس نظام میں معاشی دباؤ اور سیاسی اور ثقافتی بالادستی جیسے ہتھیار کا استعمال کیا گیا۔

یہ دونوں رجحانات الگ الگ ادوار کی پیداوار ضرور ہیں مگر اپنے مقاصد میں کافی مماثلت رکھتے ہیں انسانی تاریخ کا کوئی بھی دور ہو اس کا ارتقاء پوری دنیا میں یکساں نہیں ہوا کہیں اس کی رفتار سست رہی جبکہ کہیں ارتقائی مراحل تیزی سے اختتام پذیر ہوئے یہی وجہ ہے کہ جدید نوآبادیاتی دور کے اندر بھی نوآبادیاتی تسلط کی باقیات موجود ہیں جیسے عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے اندر جاگیردارانہ باقیات کی موجودگی ایک مسلم حقیقت ہے۔ یہی وہ عنوان ہے جس کو اس تحریر کے موضوع کیطور پر لیا گیا ہے اور اس موضوع کو کشمیر کے تناظر میں دیکھے جانے کی سعی کی گئی ہے۔

اگر برعظیم کو برطانوی نوآبادی کے طور پر پرکھا جائے تو ہمیں وہاں پر سامراجی افواج کا پوری طرح عمل دخل نظر آتا ہے مگر سیاسی طور پر یہاں کے عوام کو فرماں بردار رکھنے کیلئے ایک وائسرائے کے ماتحت اپنے مطیع حکمرانوں کو بھی رکھا گیا بعینہ جموں کشمیر کے دونوں اطراف ایسی ہی صورتحال ہے جہاں غاصب قوتوں نے اپنی جارحیت سے فوجیں بیٹھا رکھی ہیں اور پھر اپنے فرمان بردار حکمرانوں کا انتخاب کیا ہے اگر اس موضوع کو اختصار میں پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر تک محدود کیا جائے تو یہاں پر ایک چیف سیکرٹری کے ماتحت ایک حکومت قائم کی گئی ہے جس میں چیف سیکرٹری کا کردار وہی ہے جو متحدہ ہندوستان میں برطانوی سامراج کے وائسرائے کا تھا۔ چونکہ یہ حکومت ایک کٹھ پتلی دلال حکومت سے زیادہ حثیت نہیں رکھتی اس لئے یہ اپنے آقا کی اطاعت ،فرماںبرداری ، تابعداری یا خوشنودی میں ہر حد تک جا سکتی ہے یہاں تک کہ ریاستی باشندگان کا قتل بھی جس کی مثال حال ہی میں نعیم بٹ کا قتل ہے۔

نوآبادیات کا مقصد حقیقتا وسائل یعنی خام مال کی لوٹ مار ہے جیسے برطانوی سامراج کا ایشیائی اور افریقی کالونیوں کے وسائل کا استحصال ہے۔ کشمیر کو بھی دونوں اطراف سامراج کی کالونی کیطور پر رکھے جانے کی وجہ یہاں کے وسائل یعنی پانی ،جنگلات اور معدنیات کی لوٹ مار ہے مرے خیال سے اس لوٹ مار کی مثالیں دینے کی ضرورت نہیں البتہ اشارتا اگر بجلی ہی کی پیداوار کو لے لیا جائے تو اس وقت بجلی کی پیداوار پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں ضرورت سے ساڑھے تین گنا ذیادہ ہے باوجود اس کے وہاں کے لوگوں کو بجلی کی باقاعدہ فراہمی میسر نہیں جبکہ اس صدی کے دوسرے عشرے کے اختتام پر یہی پیداوار چھ سے ساڑھے چھ گنا تک بڑھ جائی گی

کشمیر کا مسئلہ دراصل اِن گماشتہ سامراجی ملکوں کیلئے حصہ کی تقسیم کا مسئلہ ہے یہ ایسی بندر بانٹ ہے جس میں ایک فریق جب حصہ زیادہ طلب کرتا ہے تو دوسرا بیزار ہوتا ہے اور ردِعمل کے طور پر توپوں کا رخ نہتے کشمیریوں کی طرف کیا جاتا ہے جس کی مثال آئے روز دو طرفہ فوجوں کی گولہ باری ہے اور یوں عالمی سامراجی منصف کو منصفانہ تقسیم کی ثالثی کیلئے متوجہ کیا جاتا یہ وہ سچ ہے جس کو دنوں ملکوں کی عوام سے دور رکھا گیا ہے بلکہ ستم تو یہ ہے کہ خود کشمیری عوام کی ایک اکثریت افراتفری اور الجھن کی کیفیت میں ہے کیونکہ ان کے شعور کا نصاب یہی سامراجی طاقتیں مرتب کرتی ہیں یہی وہ ہتھیار تھا جس کا استعمال نائجیریا کے اندر برطانوی استعمار نے کیا اس لیئے اس حقیقت کو سمجھے بغیر دونوں اطراف کے کشمیریوں کی ہر جدوجہد بے سود ہوگی درست سمت کا ادراک اور معروضی جدوجہد ہی حقیقی آذادی کی ضمانت ہو سکتی ہے بصورت دیگر ہر جدوجہد کسی ایک یا دوسرے قابض ملک کے بیانیے کو تقویت دے گی۔