جمہوریت کا انتقام، کیا لڑائی واقعی بیانیے کی ہے؟

عاطف توقیر

گزشتہ دنوں پنجاب میں ہوئے ضمنی انتخابات کے بعد روایتی میڈیا اور سوشل میڈیا پر آپ کو رنگ بہ رنگے تجزیے دکھائی دے رہے ہوں گے۔

کہیں یہ نعرہ کہ پی ٹی آئی سویپ کر گئی۔ کہیں یہ فلسفہ کہ یہ ساری سیٹیں تو تھیں ہی پی ٹی آئی کی حقیقت میں تو ان میں سے چار ن لیگ جیت گئی ہے۔

کہیں یہ جملہ کہ ن لیگ نے پی ٹی آئی کے ساڑھے تین سالوں کا کچرہ اپنے سر لے لیا۔ کہیں یہ بیان کہ ن لیگ نے مہنگائی کر دی۔ کہیں یہ تصور کہ عوام پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں۔ کہیں عمران خان کے بیانیے کے چرچے اور کہیں ن لیگ کے ووٹ کو عزت دو سے پیچھے ہٹ کر بوٹ کو عزت دو کی مفاہمت کے خیالات۔

ایسے تمام افراد جو ان تجزیوں سےخوش ہیں اور ان کو درست سمجھتے ہیں۔ ان سے درخواست کہ آپ کو اس مضمون میں کوئی کام کی بات نہیں ملے گی، اس لیے آپ اپنی رائے کے ساتھ خوش و خرم رہیے، کیوں کہ اس مضمون میں ہم نہایت ناقدانہ انداز سے اس پوری صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔

دائرے کا سفر دیکھیے کہ یوسف رضا گیلانی کی حکومت آئی تو کبھی میمو گیٹ اسکینڈل تھا تو کبھی سوئٹرز لینڈ کو خط لکھنے کا معاملے، ایسے میں ن لیگ جمہوری حکومت کو کم زور کرنے کے لیے استعمال ہوئی۔ ایسے میں خود نواز شریف کالا کوٹ پہن کر فوج کی ایما پر حکومت گراتے نظر آ رہے تھے جب کہ ان دنوں شہباز شریف زرداری کو لاہور کی سڑکوں پر گھسییٹ رہے تھے۔

پھر ان کی حکومت آ گئی تو عمران خان موجود تھے۔ فوج کی پشت پناہی میں سن 2014 سے دھرنوں کے ذریعے ن لیگ کی حکومت کو غیرمستحکم کرنا اور عمران خان کو اسپانسر کر کے ملکی عدالتوں، ملکی میڈیا، ملکی الیکشن  کمیشن اور ملکی نظام کو مفلوج کر کے پی ٹی آئی کو حکومت میں لانا۔ اور اس کے لیے نواز شریف حکومت کو گرانا ایک ایسا عمل تھا، جس نے نہ صرف پاکستان میں جمہوریت کو شدید نقصان پہنچایا بلکہ ساتھ ہی سیاسی نظام سے سختی سے جڑے معاشی نظام کو بھی برباد کر دیا۔

ن لیگ کے دور میں کبھی عمران خان کو دھاندلی کے نعرے کے ساتھ میدان میں لایا گیا۔ کبھی ڈان لیکس کا چکر پیدا کر دیا گیا، اور پھر آخر میں پاناما لیکس کے ذریعے ایک بار پھر عمران خان کا استعمال کر کے ملک میں جمہوریت کو پٹری سے اتار دیا گیا۔

ایک بار پھر ایک وزیراعظم اپنی مدت پوری کیے بغیر ہی اقتدار سے باہر پھینک دیا گیا۔ نواز شریف کے اقتدار کے خاتمے پر بھی چین نہ پڑا تو حلف نامے میں حلف اٹھاتا ہوں کہ جگہ اقرار کرتا ہوں کیوں لکھا کے نعروں کے ساتھ توہین رسالت ہو گئی کی جھاگ اڑاتے تحریک لبیک والوں کو سڑکوں پر نکال لیا گیا۔ ایسے موقع پر بھی عمران خان کو بھرپور طریقے سے سامنے لایا گیا۔

یوں جمہوریت کا نقصان تو ہوا ہے مگر ساتھ ہی ساتھ ملکی اسٹاک مارکیٹ، ملکی معیشت، سرمایہ کاری اور ترقی سبھی کو اپنی پٹری سے اتار دیا گیا۔

انتخابات سے قبل میڈیا اور عدالتوں کا استعمال کیا گیا اور انتخابات کے دن الیکشن کمیشن اور آر ٹی ایس کے ذریعے عوامی رائے عامہ کچھ سے کچھ کر کے بلآخر عمران خان کو وزیراعظم بنا دیا گیا۔

ان دنوں فوجی جرنیل نجی بات چیت میں سب کو بتاتے پھر رہے تھے کہ عمران خان کے ذریعے قوم کی قسمت تبدیل کی جا رہی ہے

پھر ہوا یوں کہ عمران خان کی حکومت آئی۔ ملکی قانون کی دھجیاں اڑائی گئیں، ہر تنقید کرنے والے صحافی کو نوکری سے نکالا گیا مزے کی بات ہے کہ ان کو طعنہ بھی دیا جاتا تھا کہ یہ صحافی نہیں یہ تو اب صرف یوٹیوب کرتے ہیں۔ کئی لوگوں کو اغوا کیا گیا، کئیوں کو گھر میں گھس کا مارا گیا اور ملکی اقتصادیات کا مزید جنازہ نکالا گیا۔ عمران  خان دور کی کارکردگی تو جو تھی وہ سب کے سامنے ہی ہے، مگر عمران خان حکومت بھی چلنے نہیں دی گئی۔

ایک بار پھر سیاست دانوں کو بتایا گیا پس پردہ بتایا گیا کہ عمران خان والا تجربہ غلط ہو گیا تھا۔ اب سیاست نہیں ریاست بچانے کا وقت آ گیا ہے۔ پہلے کالا کوٹ پہن کر استعمال ہوئے، اس بار شیروانی نے استعمال کروا دیا۔

ن لیگ جو ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگا رہی تھی، اسے بتایا گیا کہ عمران خان فیض حمید کو فوجی سربراہ بنانے والا ہے۔ اگلے انتخابات بھی عمران خان کو جتوا دیے جائیں گے اور یوں دو ہزار ستائیس اٹھائیس تک کہانی ختم ہو جائے گی۔ سب جیلوں میں ہوں گے اور ملک تباہ ہو چکا ہو گا اس لیے اب لوگ بے شک گالیاں کھائیں لیکن فوراﹰ اقتدار میں آئیں۔

جس طرح ہم عمران خان دور میں لوگوں کو پکڑ پکڑ ووٹ دلوایا کرتے تھے۔ اسی طرح لوٹوں کے ذریعے عمران خان کے خلاف بھی ووٹ ڈلوا دیں گے۔

ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ ترک کر کے اپوزیشن خصوصاﹰ ن لیگ ان چکروں میں آ گئی۔ ووٹ کو تو عزت کیا ملنا تھی، بوٹ کو عزت مل گئی۔

یہاں کچھ سوال پیدا ہوتے ہیں، جو اپوزیشن کو خود سے کرنا چاہئیں۔

سوال یہ ہے کہ اگر عمران خان کو حکومت میں جعلی طریقے سے لایا گیا تھا تو آپ نے پارلیمان کا حلف کیوں اٹھایا تھا؟

سوال یہ ہے کہ عمران خان کی حکومت کو کیوں پانچ برس مکمل نہیں کرنے دیے گئے؟

سوال یہ ہے کہ عمران خان کی حکومت گرانے کے لیے پھر سے اسٹیبلشمنٹ کی کہانی پر کان کیوں دھرے گئے؟

سوال یہ ہے کہ اگر عمران خان فیض حمید کو فوجی سربراہ بنانا چاہتے تھے تو بہ طور وزیراعظم یہ ان کا استحقاق تھا، وزیراعظم کے اس استحقاق کو کیسے چھینا جا سکتا ہے؟

اگر آئندہ کا فوجی سربراہ ووٹ چوری کرنے کی کوشش کرتا، تو آپ کو روکنے کے لیے فوج سے ہاتھ ملانا چاہیے تھے یا عوامی سطح پر قوم کو مطلع کرتے ہوئے سامنے آنا چاہیے تھا؟

سوال یہ بنتا ہے کہ آپ کا ووٹ کو عزت دو سے پہلے والا دور تھا تو بھی لوگ اغوا ہو رہے تھے، عمران خان دور آیا تو بھی لوگ لاپتا ہوتے رہے، آپ آج پھر اقتدار میں ہیں اور لوگ اغوا ہو رہے ہیں، تو فرق کیا ہے؟

سوال یہ بنتا ہے کہ مہنگائی کا جو جن عمران خان کے دور میں باہر نکلا تھا وہ آپ کے دور میں عفریت بن کر عوام کو نگل رہا ہے، اگر آپ کو اس بلا کا علم تھا تو کیوں اس بلا پر اپنا نام لکھوایا؟

ن لیگ نے یہ راستہ چن کر نہ صرف اپنے ووٹر کو دھوکا دیا بلکہ خود اپنے آپ کو بھی دھوکا دیا۔جمہوری اصول یہ کہتے ہیں کہ ملک میں دستوری بالادستی، انسانی حقوق کی تکریم اور مکمل جمہوریت صرف اس وقت ممکن ہے جب سیاسی جماعتیں غیرجمہوری قوتوں کے خلاف حتمی لڑائی لڑیں۔

نواز شریف کا ووٹ کا عزت دو کا بیانیہ پنجاب میں پہنچ چکا تھا اور اس پر عوامی سطح پر بحث ہو رہی تھی، ایسے میں اپنے اس راستے سے ہٹ جانا، وہ خلا تھا جس کا عمران خان نے بھرپور انداز سے استعمال کیا۔ اس سے یہ اندازہ بھی لگانا چاہیے کہ ملک میں فوج کی سیاسی مداخلت کے خلاف رائے عامہ ہم وار ہو چکی ہے۔

بیس سال پہلے جب مجھ جیسے لوگ فوج کی سیاسی سرگرمیوں پر بات کرتے تھے تو لوگوں کو بات سمجھ نہیں آتی تھی، لیکن اب یہ بات سب پر واضح ہو رہی ہے۔ عمران خان نے سیاسی اعتبار سے اپنے تمام پتے درست انداز سے کھیلے ہیں۔ انہیں نکالا گیا تو انہوں نے عوامی رابطہ مہم شروع کی۔ ایسے موقع پر اگر مگر خلائی مخلوق اور محکمہ ذراعت کی بجائے انہوں نے دھیرے دھیرے بہت محتاط انداز میں اپنا کام کیا اور اپنے کارکنوں کو اعتماد میں لیا۔ اس وقت عمران خان اپنی تمام تر خراب حکمرانی اور خراب کارکردگی کے ساتھ عوام میں مقبول ہیں۔ قوم کی میموری شارٹ ٹرم ہے۔ دو سال پہلے کیا ہوا تھا، اس سے کسی کو کوئی سروکار نہیں۔

سیاسی انتقام اور سیاسی شہید بنانے کا سلسلہ جب تک جاری رہے گا، اس وقت تک ملک میں نہ سیاسی استحکام پیدا ہو سکتا ہے اور نہ ملکی معیشت کسی کنارے لگ سکتی ہے۔