’’جنسی تعلیم و تربیت، قوت ارادی اور مارش میلو کا تجربہ‘‘( دوسرا حصّہ)
مہناز اختر
پھانسی کے پھندے پر جھولتی گیارہ سالہ بچے کی لاش اور میرا گزشتہ مضمون
ارشاد نبوی ہے: ’’جو مجھے اپنی زبان اور شرمگاہ کی حفاظت کی ضمانت دے میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔‘‘
یہ حدیث نبوی اپنے معنیٰ میں انتہائی آسان اور سماجی اصلاح کے مفہوم میں انتہائی مؤثر ہے۔ اس حدیث میں تربیت کے لیے delayed gratification یا ترغیب کا طریقہ استعمال کیا گیا ہے۔ کسی مسلمان کے لیے رسول اللہ کی دی گئی ضمانت سے بڑی کوئی ضمانت نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح دنیا کے تمام مذاہب میں اعمال و کردار کی پاکیزگی بنیاد پر جنت،نجات، نروان یا موکش کی ضمانت دی گئی ہے۔
منو سمرتی سے لے کرکر تمام ادیانِ ابراہیمی جنسی جرائم کے لیے سخت سزائیں تجویز کرتے ہیں۔ اس میں رتّی برابر شک نہیں کہ قتل اور جنسی جبرو زیادتی انسانیت کے خلاف بدترین جرائم ہیں۔ لیکن اگر کسی معاشرے میں سخت ریاستی قوانین اور دنیا وآخرت کی سخت مذہبی وعیدوں کی موجودگی میں بھی کچھ مخصوص قسم کے جرائم کی شرح میں اضافہ ہونے لگے تو پھر ہمیں ان اسباب کا اندازہ لگانے کی کوشش کرنا چاہیے، جن کی بناء پر ایسے جرائم کی شرح میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔
میں نے گزشتہ مضمون میں کائنات نامی بچی کا ذکر کیا تھا، جسے کراچی میں جنسی درندگی کا نشانہ بنا کر بے رحمی سے قتل کر دیا گیا تھا۔ اس ہفتے بھی ایک مولوی کو بچے کے ساتھ زیادتی کی کوشش کرتے ہوئے رنگے ہاتھ پکڑا گیا، مردان کی سات سالہ بچی کی لاش کھیتوں سے ملی، جسے زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا تھا، چولستان سے ملنے والی تین بچیوں کی لاشوں کے پوسٹ مارٹم کے بعد اس بات کی تصدیق ہو گئی ہے کہ بچیوں کو زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کیا گیا ہے، ٹیکسلا میں گیارہ سالہ بچے کو تین افراد نے زیادتی کا نشانی بنایا، کراچی سے ادھ مری حالت میں ملنے والی اٹھارہ سالہ لڑکی جسے اس کے ہی ہم جماعتوں نے نشہ آور ادویات کھلا کر درندگی کا نشانہ بنایا اور سکھر اور سیالکوٹ سے بھی بچوں سے زیادتی کے ملزمان کو گرفتار کیا گیا۔
ریاستیں دو طریقوں سے عوام کی تربیت کر کے امن وامان اور نظم و ضبط قائم کرتی ہیں۔ پہلا طریقہ عوام کی تعلیم و تربیت ہے اور دوسرا طریقہ سخت قوانین اور انکے تحت دی جانے والی سزائیں ہیں۔ بد قسمتی سے پاکستان میں جنسی تعلیم و تربیت اور جرائم کے حوالے سے عوامی سطح پر آگہی کے لیے کوئی ادارہ موجود نہیں ہے اور نہ یہاں عدل و انصاف کے معاملات درست ہیں۔
پڑوسی ملک ہندوستان کی منسٹری آف وومینز اینڈ چائلڈ ڈیولپمنٹ کی اسٹڈی کے مطابق ہندوستان میں 22.53 فیصد بچوں کے ساتھ ایک یا ایک سے زائد مرتبہ جنسی بد سلوکی یا زیادتی کی گئی ہے۔ واضح رہے کہ یہ وہ کیسز ہیں جہاں بچوں کا قتل نہیں ہوا بلکہ انہیں ڈرا دھمکا کر یا کسی چیز کا لالچ دے کر چپ کرادیا گیا تھا۔ ماہرین کے مطابق جنسی درندگی کے واقعات میں اضافے کا ایک بہت بڑا سبب ہندوستان میں عریاں فلموں تک آسان رسائی ہے ۔ ہمسایہ ملک کی اس رپورٹ کے تناظر میں اگر پاکستان کے حالات کا جائزہ لیں تو معاملات یہاں بھی مختلف نہیں ہیں۔ پاکستان میں بچوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیم Sahil کی 2017 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اوسطاً روزانہ گیارہ بچے جنسی زیادتی یا جنسی بدسلوکی کا شکار ہوتے ہیں ۔ یہ رپورٹ پورے پاکستان میں تھانوں میں درج کرائے گئے مقدمات کی بنیاد پر تیار کی گئی تھی۔ اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس پاکستان میں بچوں سے زیادتی کے 4،139 مقدمات تھانوں میں درج کرائے گئے ،جسمیں سے 62 فیصد مقدمات پنجاب سے تعلق رکھتے تھے۔
رواں سال مارچ کے مہینے میں کراچی کے علاقے برنس روڈ میں چوکیدار نے تین نوعمر لڑکوں کو ایک پانچ سالہ بچی کے ساتھ زیادتی کی کوشش کرتے ہوئے پکڑا اور پھر پولیس کے حوالے کیا۔ لڑکوں کی عمر گیارہ سے تیرہ سال کے درمیان تھی۔ لڑکوں کے مطابق وہ بچی کو دوسرے محلے سے ٹافیاں دلانے کا لالچ دے کر اپنے ساتھ لائے تھے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ وہ بچے گھر سے بھاگے ہوئے نہیں تھے بلکہ وہ اسی علاقے کے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے اور اسکول جانے والے بچے تھے ۔ علاقہ مکینوں نے علاقے میں چلنے والے انٹرنیٹ کیفے اور اطراف کے غیر قانونی چھوٹے چھوٹے سینما ہالز اور انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کو بچوں کی اس اخلاقی تباہی کا ذمہ دار قرار دیا ۔ کیونکہ انکی وجہ سے بچوں کی رسائی عریاں فلموں تک آسانی سے ہوجاتی ہے۔
یہاں سوال یہ ہے کہ اس کم عمری میں یہ لڑکے جنسی شکاری کیسے بنے ، یہ بچی انکا پہلا شکار تھی یا وہ اس سے پہلے بھی ایسا کھیل کھیل چکے تھے ،آیا اس حرکت کی ترغیب انہیں عریاں فلموں سے ملی تھی یا اس عمل کے پس پشت معاشی اور معاشرتی محرکات بھی شامل تھے ؟
اس سوال کا جواب ہمیں نعیم کی کہانی میں مل سکتا ہے۔
سن 2014 میں پاکستانی ڈائریکٹر محمد نقوی نے ایک برٹش پروڈیوسر جیمی ڈورن کے ساتھ مل کر ” Pakistan’s Hidden Shame” نامی ڈاکیومینٹری فلم بنائی ۔ اس فلم کا مرکزی کردار پشاور سے تعلق رکھنے والا تیرہ سالہ لڑکا نعیم ہے۔ اس فلم کا موضوع پشاور میں بس ڈرائیوروں کے ہاتھوں نوعمر غریب لڑکوں کا جنسی استحصال ہے ۔ یہ کہانی ان بچوں کی ہے جو غربت کے ہاتھوں مجبور ہوکر صرف چند روپے یا ایک وقت کی روٹی یا نشہ کی لت کو پورا کرنے کے لیے اپنا سودا کرتے ہیں اور پھر ان لڑکوں پر ایسا وقت بھی آتا ہے کہ یہ جنسی لذت حاصل کرنے کے لیے اپنے جیسے ہی دوسرے بچوں کے ساتھ یہ فعلِ بد انجام دیتے ہیں۔ کبھی یہ عمل باہمی رضامندی سے کیا جاتا ہے اور کبھی یہ بچے دوسرے بچوں کو زبردستی زیادتی کا نشانہ بناتے ہیں۔ یعنی شکار خود بھی شکاری بن جاتا ہے۔ ماہرین نفسیات کا بھی یہی کہنا ہے کہ بچوں سے زیادتی کے مرتکب افراد میں سے زیادہ تر افراد ایسے ہوتے ہیں جو خود بھی کم عمری میں جنسی زیادتی کا شکار ہوچکے ہیں۔
برصغیر پاک و ہند میں بچوں کے ساتھ کیا جانے والا جنسی استحصال ہماری ریاست اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ دوسری طرف ان واقعات سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے سماجی اور مذہبی ادارے عوام کی تربیت میں ناکامی کا شکار ہیں۔ ورنہ ہم تو ایسی روایتوں کے امین تھے جہاں تقویٰ، تیاگ اور تپسّیا کے ذریعے تزکیہ نفس اور تربیت کی لاتعداد مثالیں موجود ہیں ۔ سماجی تربیت کے لیے سزا کے خوف کے ساتھ ساتھ delayed gratification کی ترغیب ہمیشہ سے کارگر رہی ہے اور دنیا کے تمام مذاہب نے انسانوں کی تربیت کے لیے یہی حکمت عملی اپنائی ہے۔
میں نے کراچی کی معصوم کائنات کے بے رحمانہ قتل کے بعد اس مضمون کا پہلا حصّہ لکھا تھا اور کیسا اذیت ناک اتفاق ہے کہ آج 13 اگست کی رات جب میں نے اس مضمون کے دوسرے حصّے کو مکمل کرنے کا فیصلہ کیا تو ایک اور تصویر میری آنکھوں کے سامنے آگئی ۔ زیادتی کے ایک اور انسانیت سوز واقعے نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا جب میں نے اپنی ٹائم لائن پر ایک دلخراش تصویر دیکھی، ٹائر مرمت کرنیوالی دکان کے اندر پھندے سے جھولتی ایک گیارہ سالہ بچے کی لاش جسے زیادتی کے بعد قتل کیا گیا ہے۔ یہ بچہ اسی دکان میں کام کرتاتھا۔ یہ اندوہناک واقعہ سندھ کے ضلع خیر پور کے علاقے گمبٹ میں پیش آیا۔
تو کہنا یہ ہے کہ ہماری غفلت اور بے راہ روی کی وجہ سے انسانیت ایک بار پھر شرمسار ہوگئی اور پھر سے ایک ننھا جگنو کچل دیا گیا۔ افسوس بے حد افسوس۔