جنس کا پہاڑ (پہلا حصہ)
عفاف اظہر
پچھلے کئی دنوں سے ندرت اپنی بیٹی عصمت کو گُم سُم اور کھویا ہوا سا محسوس کر رہی تھی۔ وہ اُس سے بات کرنے کی کوشش کرتی تو بھی عصمت جواب دینے کے بجائے کسی گہری سوچ میں ڈوب جاتی۔ ندرت یہ محسوس کر رہی تھی کہ کوئی بات تو ایسی ہے، جو اس کی بیٹی کو اندر ہی اندر خوف زدہ کر رہی ہے۔ لیکن وہ بات اُس کی زبان پر نہیں آ رہی تھی۔ دوسری جانب روزانہ کے معمول کے مطابق آج چھٹی کے بعد عصمت سے نہ کسی سہیلی سے رک کر دن بھر کی کہانی سنی گئی تھی نہ کسی نئی شرارت کا کوئی پروگرام بن پایا تھا۔ ادھر گیٹ پر کھڑے چوکیدار نے چھٹی کا گھنٹہ بجایا ہی تھا کہ میان میں سے نکلے تیر کی تیزی سے وہ گیٹ پار کرتی ہوئی بغیر کسی شارٹ روٹ کے بڑی سڑک سے لمبا راستہ طے کرتی ہوئی تیز تیز قدموں سے گھر کی طرف بھاگی تھی۔ اس کی عجیب سی حالت تھی، اس کا دل ہر من پسند چیز سے اٹھتا چلا جا رہا تھا۔ نہ اب پڑھائی میں من لگ رہا تھا، نہ کوئی شرارت ہی دل لبھا رہی تھی۔ نہ اب گھر میں آ کر بہن بھائی ہم عمر کزنز سے چھیڑ چھاڑ اچھی لگتی تھی اور نہ ہی اب اس سے بات بے بات کھلکھلا کر ہنسا جا رہا تھا۔
ہر وقت من میں ایک انجانا سا خوف تھا اور عجیب سی وحشت سے ذہن بھرا سا رہنے لگا تھا۔ دن یونہی گزرے اور یہ دن ہفتوں میں بدلے مگر طبیعت تھی کہ بہتر ہونے کی بجائے بگڑتی چلی جا رہی تھی۔ اب تو اسکول جانے کا سوچتے اور واپس چھٹی کا خیال آتے ہی انجانا سا خوف اٹھنے لگتا تھا۔
کبھی پیٹ درد کا بہانہ تو کبھی ٹانگوں میں درد، آخر کتنے بہانے کرتی۔ ایک دن آخر ندرت نے پکڑ ہی لیا اور خوب ڈانٹا تو عصمت نے روتے ہوئے بےاختیار ماں کو اپنے ذہن میں چبھی اس پھانس کے بارے میں بتانا پڑا۔
امی آپ کو تو پتا ہے نا کہ مجھے اسکول بہت اچھا لگتا ہے۔ جب نہیں جاتی تو دن بھر افسوس بھی رہتا ہے مگر ۔۔۔مگر ۔۔۔مگر۔۔جب اسکول سے واپسی کا سوچتی ہوں تو اسکول جانے کو ہی دل نہیں چاہتا۔ ”وہ کیوں ؟“ اب ماں بھی حیران تھی پھر سہمے سہمے لہجے میں اس نے ماں کو جواب دینا شروع کیا۔ ”امی وہ اسکول سے واپسی پر بڑی سڑک پربہت رش ہوتا ہے ناں۔ ابو نے کہا تھا واپسی پر چھوٹی گلی لے لیا کرو، لیکن چھوٹی گلی میں جو کیکر کی جھاڑی ہے ناں وہاںوہاں اور اس احساس کے آتے ہی خاموشی سے ایک بار پھر وہ اپنے جسم میں اٹھتی اس سرد سی لہر پر قابو پانے لگی تھی۔ ندرت سے رہا نہ گیا، بیتابی سے بولی،”کیوں وہاں کیا ہے؟“ ماں اب سننے کو بہت بےچین تھی۔ ”امی وہاں اس جھاڑی کے پیچھے روزانہ ایک آدمی کھڑا ہوتا ہے۔ بہت ڈر لگتا ہے اس سے مجھے، جب جھاڑی کے پاس سے گزرتی ہوں تو وہ آدمی عجیب سی لمبی لمبی سانسیں لینے کی آوازیں نکالتا ہے۔“
اور ماں کا ساکت چہرہ اگلے ہی لمحے خوف سے بھر گیا تھا۔ شش۔۔۔ شش ۔۔۔وہ اس کے لبوں پر ہاتھ رکھتی۔۔۔ ادھر ادھر دیکھتی ہوئی فوراً صحن سے اس کا ہاتھ پکڑ کرتقریباﹰ گھسیٹتے ہوئے اسٹور روم میں اپنے ساتھ لے آئی۔ ”شششس آہستہ بولو اور اب مجھے سب تفصیل سے بتاؤ۔“ وہ اسٹور کے دروازے کو آہستگی سے اندر سے بند کرتی ہوئی سرگوشی کے انداز میں اس کے پاس بیٹھ کر مزید پوچھنے لگیں تھیں۔”کیا کہتا ہے وہ آدمی ؟ کیا کرتا ہے وہ آدمی ؟ اور کون ہے وہ ؟“۔
”امی!! امی!! “اس نے بدن میں اٹھتی جھرجھری پر پھر سے قابو پاتے ہوئے کہا، ”امی مجھے نہیں معلوم وہ کون ہے، بس اتنا دیکھا ہے کہ اس کا ایک ہاتھ کھلی ہوئی شلوار میں ہل رہا ہوتا ہے اور دوسرے ہاتھ سے شلوار کو پکڑا ہوا ہوتا ہے۔ ”ماں کی آنکھیں، جیسے سب کچھ سننے کو بیتاب اس پر گڑھی ہوئی تھیں اور ادھر عصمت خود بھی جیسے اب اپنے دل پر رکھے اس اجنبی سے بوجھ تلے دبی نکلنے کو پھڑ پھڑا رہی تھی۔”امی مجھے اسکول میں تمام دن اور واپسی پر تمام راستے اس گلی کے جھاڑ کے پاس سے گزرنے کا سوچ سوچ کر خوف آتا رہتا ہے۔“
کلاس میں ٹیچر کی کوئی بات اب سمجھ نہیں آتی۔ سہیلیوں کے ساتھ اب کھیلا بھی نہیں جاتا، وہ آدمی میرے جھاڑ کے پاس آتے ہی، مجھے عجیب عجیب اشارے کرتا ہے۔ وہاں سے گزرتے ہوئے اس کے سانسوں کی تیز آوازوں سے میرا جسم کانپنے لگتا ہے۔‘‘
اب ماں سب سمجھ چکی تھی اس کو گلے لگا کر سمجھاتے ہوئے کہا، ”کچھ دن تمھارے ابو سے کہوں گی کہ اسکول سے واپسی پر تمہیں خود جا کر لے آیا کریں یا آدھے راستے تک میں خود چلی آؤں گی اور اگر آئندہ خود اکیلی بھی آؤ تو وہ گلی مت لینا بڑی سڑک سے آ جاناہاں مگر ٹریفک سے بہت محتاط رہنا دھیان سے سڑک پار کرنا“ اور پھر آہستگی سے مزید قریب آتے ہوئے کان میں سرگوشی کے انداز سے بولیں، ”ابھی جو کچھ مجھے بتایا ہے نا وہ اور کسی سے مت کہنا۔“