جنگ کبھی نہیں ہو گی

ولید بابر ایڈووکیٹ

پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات کے درمیان اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے۔ کبھی “امن کی آشا” کے نغمے گونجتے ہیں توکبھی “دشمن پر ہیبت طاری ہے “کا طبل بج رہا ہوتا ہے۔دونوں ممالک کے درمیان اب تک تین لڑائیاں اور ایک جنگ ہو چکی ہے( 1947،1962،1999 میں لڑائی جبکہ 1971 میں جنگ ہوئی ہے)۔دونوں ممالک کے درمیان تناؤ کی صورتحال کا دورانیہ حالت امن سے اکثر ذیادہ رہا ہے۔اندرونی انتخابات ہوں یا دفاعی بجٹ میں اضافے کا مسلۂ،بڑھتی ہوئی غربت، مہنگائی اور عوام کے مسائل سے توجہ ہٹانا مقصود ہو یا عوامی ابھار میں کمی کی تدابیر،عالمی طاقتوں کی توجہ مرکوز کرنی ہو یا پھر کسی بحران سے توجہ ہٹانا’ “جنگ اور جنگی ماحول” ہمیشہ سے دونوں ممالک کا موثر ہتھیار رہا ہے۔حالات جتنے بھی دگرگوں ہوں مگر وطن سے محبت ایسا جذباتی تعلق ہے جس کے گھات میں زہر باآسانی پلایا جا سکتا ہے اور دونوں ممالک کے سول و فوجی حکومتوں نے اس “پتے” کو بطریق احسن استعمال کیا اور کر رہے ہیں ۔
حالیہ دنوں میں دونوں ممالک کے تعلقات میں پھر تناؤ پیدا ہو گیا ہے اور عوامی ہیجان کے باعث صورتحال کافی گھمبیر رخ اختیار کر چکی ہے۔بالخصوص ذرائع ابلاغ نے عوام کو ڈرانے دھمکانے کی طرف خصوصی توجہ دی ہے۔ممکنہ جنگ اور اس کی ہولناک تباہی کے بارے میں تجزیے،تبصرے اور نقصانات کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔مگر جنگ’اس کے محرکات اور پس پردہ حالات واسباب کی طرف توجہ نہیں دی گئی ۔ درحقیقت ذرائع ابلاغ کے متمع نظر دیوار سے پردہ ہٹانا مقصود بھی نہیں ہے کہ ایسی صورتحال سے ہی طے شدہ اہداف حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ویسے بھی موجودہ عہد “ابہام پھیلاؤ اور حکومت کرو” کا ہے۔
ہندوستان میں سرکار کا وقت ختم ہونے کو ہے اور پاکستان میں آئی نئی سرکار پر فوجی اشرافیہ سے ملی بھگت کا الزام زبان زدہ عام ہے۔مالی سال گزر چکا دفاعی اخراجات کے لیے (Re-appropriation of money) دولت کے دوبارہ مختص کیے جانے کے لیے دیگر منصوبوں سے کٹوتی کر کے دفاعی اخراجات کی مد میں فراہمی’آئیندہ مالی سال میں اضافہ’”سی پیک” معاہدے میں ردوبدل اور عالمی طاقتوں کی شرائط اور حصہ داری کو ممکن بنانے کے لیے “جنگ” سے بہتر سازگار ماحول کون سا ہو سکتا ہے؟
چہ جائیکہ دونوں ممالک کے درمیان “جنگ” ایک ڈھکوسلہ ہے مگر آئیے دیکھتے ہیں کہ آیا دونوں ممالک کے اندرونی حالات کسی جنگ کے متحمل ہو سکتےہیں؟
وفاقی ادارے شماریات پاکستان کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں دو کروڑ ساٹھ لاکھ بچے (44 فی صد) کبھی سکول گئے ہی نہیں جبکہ پاکستان کے مالی سال 2018/19 میں تعلیم کے لیے محض 111۰23 بلین روپے(2۰3 فی صد) مختص کیے گئے ہیں۔ہندوستان میں 8 کروڑ 40 لاکھ بچے سکول سے محروم ہیں مگر تعلیم کے لیے صرف 14 بلین ڈالر(3۰1 فی صد) رکھے گئے ہیں۔یاد رہے دونوں ممالک کی سرکاری شرح خواندگی بالترتیب %58 اور %74 ہے مگر ہندوستان کے دنیا کی پہلی تین سو اور پاکستان کی پہلی پانچ سو یونیورسٹیوں میں ایک یونیورسٹی بھی شامل نہیں۔بین الاقوامی معیار کا اندازہ آپ خود لگا لیجئے۔
اتنی بڑی تعداد میں بچے سکول نہیں جائیں گئے تو پھر کیا کریں گے؟ وہ پڑھ لیں۔
وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق پاکستان میں 40 میں سے 19 ملین بچے چائلڈ لیبر کے طور پر کام کر رہے ہیں جبکہ ہندوستان میں 12666377(%65) بچے چائلڈ لبیر ہیں۔ ان پڑھ’ غیر ہنرمند’غریب بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے کیس روزانہ آپ کی سماعتوں سے ٹکراتےہیں۔”ساحل”(ایک پاکستانی این جی او) کے مطابق سال 2017 میں 3445 بچے جنسی ذیادتی کا شکار ہوئے جن میں 2077 لڑکیاں اور 1368 لڑکے شامل ہیں۔( آدھے سے زیادہ کیس رجسٹرڈ نہیں ہوتے اور گاؤں کی سطح پر تصفیہ ہو جاتا ہے)۔ ہندوستان کی صورتحال تو انگشت بدندان ہے۔ بی بی سی کے مطابق ہر 15 منٹ میں ایک بچہ ذیادتی کا شکار ہوتا/ہوتی ہے۔خود ہندوستانی وزیر داخلہ کے مطابق سال 2016 میں صرف دہلی میں اس نوعیت کے 106958 کیس رجسٹرڈ ہوئے۔ جب کہ غیر رجسٹرڈ کیسز کا کوئی حساب نہیں۔
واٹر ایڈ (Water Aid) کے مطابق پاکستان میں 22 ملین افراد “گندہ” پانی پی رہے ہیں۔5 سال سے کم عمر 19500 بچے ہر سال صرف اسہال/دست کی بیماری کے سبب موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔ UNICEF کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں 45 کروڑ افراد کو گھروں میں پینے کے پانی کی رسائی نہیں جبکہ %48 متوازن غذائی قلت کا شکار ہیں۔
پاکستان کی فی کس آمدن 1222۰5ڈالر سالانہ(تاریخ کی بلند ترین) ہے جبکہ ماہانہ آمدن 15000 (سرکاری ریٹ)۔ہنر مند افراد 500 سے 1500 روپے فی دیہاڑی کام کرتے ہیں جبکہ چائلڈ لیبر 30 سے 50 روپے یومیہ پر کام کر رہے ہیں( ذیادہ تر بچے دفاتر’ ورکشاپ’ صفائی’پیٹرول پمپ’ہوٹل وغیرہ پر کام کر رہے ہیں)۔ ملٹی ڈیمینشنل پوورٹی (Multidimensional Poverty) کے مطابق% 39 افراد شرح غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ہندوستان کی صورتحال بھی ذیادہ حوصلہ افزاء نہیں۔فی کس آمدن 1963۰5 ڈالر (بلند ترین) جبکہ ماہانہ آمدن 3000( کم ترین) روپے ہے جو کہ 18۰75 روپے یعنی 0۰40 ڈالر یومیہ بنتی ہے۔ جبکہ ہندوستانی سرکار کے مطابق 276 ملیں %22 نفوس شرح غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔غیر سرکاری رپورٹس کے مطابق یہ تعداد دگنی ہے۔
اب ذرا ایک اور گھمبیر بلکہ گھمبیر ترین صورتحال بھی ملاحظہ ہو۔آپ نے چیف جسٹس آف پاکستان کے توسط سے لاہور کے ہسپتالوں کے فضلے کا کیس تو سنا ہی ہو گا۔ذرا تصور کیجیے ملک میں کتنا فضلہ ہو گا؟ واٹر ایڈ کے مطابق ہندوستان اور پاکستان دنیا کے 10 سرفہرست ممالک میں سے ہیں جہنیں باتھ روم (لیٹر ین ) تک رسائی نہیں۔41 ملین پاکستانیوں کے پاس لیٹر ین کی سہولت نہیں جبکہ 41 ملین انڈین دیہاتی “کھلے” میں اپنی حاجات ضروریہ پوری کرتے ہیں۔79 ملین ہندوسانیوں کو لیٹرین کی سہولت میسر نہیں۔ اس نازک صورتحال کا اندازہ آپ اس امر سے لگا سکتے ہیں کہ اس فضلے کو ٹھکانے لگانے کے لیے اولمپکس میں تیراکی کے لیے استعمال ہونے والے 8 تالاب درکار ہوں گئے۔ایسے کشمیری جو جموں کشمیر کے پہاڑی علاقوں پر جاری کشیدگی پر معترض ہو کر تنقید کرتے ہیں کہ ہندوستان و پاکستان اپنی 1800 میل لمبی سرحد پر جنگ کیوں نہیں کرتے انہیں سمجھ جانا چاہئے کے یہ قیمتی میدان کن ارفع مقاصد کے لیے پہلے سے زیر استعمال ہیں۔
فاختوں (Dove) کے مقابلے میں شاہینوں (Hawk) کے فلسفہ حیات کی پزیرائی کوئی رومانوی داستان نہیں بلکہ زندہ جاوید زمینی حقیقت ہے۔ کیسے اور کیونکر؟ صبر کر کہ وہ بھی پڑھ لیں۔
پاکستان کی بہادر افواج کی تعداد 653800 ہے مگر 2 فل جنرل’29 لیفٹینٹ جنرل اور 173 میجر جنرل ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالے ہوئے ہیں۔یعنی فوجی و دفاعی پالیسی سازی 200 افراد کے ہاتھوں میں ہے جن کے معاونین بریگیڈیئر اور کرنل سطح کے افسران ہیں۔مگر 20 کروڑ آبادی والے ملک میں 200 جنرلوں اور ساڑھے چھ لاکھ فوج کے لیے کل بجٹ کا %18یعنی 1۰1 ٹریلن روپے مالی سال 2018/19 مختص ہے جبکہ 260 بلین پنشن کے لیے الگ سے رکھے گئے ہیں ۔صرف یہی نہیں بلکہ وزارت دفاع کی جانب سے سینٹ میں پیش کی گئی فہرست کے مطابق 53 ملکی ادارے برائے راست فوج کی ملکیت ہیں جن کی اوسط آمدن بقول ڈاکٹر عائشہ 10 بلین برطانوی پونڈ ہے جبکہ ملک کی %10 زمین فوج کے حاضر سروس و ریٹائرڈ افسران کی ملکیت ہے۔صابن سے رہائشی سوسائٹی اور زراعت سے گولہ بارود تک تمام بڑی صعنتیں فوج کی ملکیت ہیں۔ڈاکٹر لال خان کے مطابق تو پوری معیشت ہی کالے دھن پر چل رہی ہے۔
دوسری جانب ہندوستانی فوج بھی ایسی ہی مراعات سے لطف اندوز ہو رہی ہے۔14 لاکھ فوج میں سے 190 لفیٹنٹ جنرل’600 میجر جنرل اور2000 بریگیڈئیر’135 کروڑ ہندوستانیوں کے کل بجٹ کا %12۰10 ڈکار جاتے ہیں( جبکہ پاکستان کی طرح ہندوستان کے عام سپاہی بھی حب الوطنی اور دیش بھگتی کی لسی پر گزارہ کر رہے ہیں جبکہ بالائی مالائی فوج اور دہی سیاستدانوں و نوکر شاہی ہڑپ کر جاتی ہے)۔بین الاقوامی ادارہ برائے اسٹریجٹک اسڈڈیز کے مطابق ہندوستان 45 بلین ڈالر کے ساتھ دنیا کے 5 بڑے دفاعی اخراجات کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے۔
جنوبی ایشیا کی آبادی 1ارب 90 کروڑ ہے جو کہ دنیا کی کل آبادی کا %24۰78 ہے جبکہ ہندوستان کی آبادی 135 کروڑ (%17۰74) اور پاکستان کی آبادی 20 کروڑ (%2) ہے یوں کہیے کہ دنیا کی %19۰74 آبادی صرف دو ممالک میں آباد ہے اور بھوکی، ننگی، بیمار ولا چاررکھی گئی آبادی چند دن کے بحران میں عوامی اُبھار کی طرف بڑھنے کے امکانات لیے ہوئے ہو گی. یوں ملک یا تو عوامی انقلابات کی طرف مائل ہوں گئے یا پھر بربریت کا ایسا بازار گرم ہو گا کہ اندرون ملک خانہ جنگی ملکی دیوالیہ پن کا سبب بن جائے گی اور دونوں ممالک ٹوٹ (Disintegrate) کر کئی حصوں میں بٹ جائیں گئے( بلوچستان اور انڈیا کی نکسل باڈی تحریک کو ایسا ہلکا سے موقع درکار ہو گا) ویسے بھی جنگ کی ایک چنگاری آدھی دنیا کو تباہ کر کے رکھ سکتی ہے۔ اس لیے علاقائی و بین الاقوامی طاقتیں کسی صورت جنگ کی اجازت نہیں دے سکتی نیز ہندوستان و پاکستان کے جنرل اتنے عقلمند ضرور ہیں کے سونےکے انڈے دینے والی مرغی کو ذبحہ کر کےصرف ایک دو انڈے لیکر روزانہ کے انڈوں سے محروم ہو جائیں۔ ویسے بھی شیر آیا شیر آیا والی کہانی کے برعکس شیر کی ہیبت برقرار رکھنے کے لیے سرحد پر کشیدگی جاری رہے گئی چند غرباء (وہ بھی نو آبادیاتی کشمیر سے) کی جانیں لی جائیں گئی تا کہ ابال ٹھنڈا نہ ہونے پائے مگر جنگ کبھی نہیں ہو گئ.