جوانی سے بڑھاپے تک
عفاف اظہر
کینیڈا ائے لگ بھگ تیس برس ہوگئے۔ اپنی جوانی یہیں گزاری اور بچوں پر جوانی بھی یہیں آئی۔ نہ مجھے کبھی فحاشی و عریانی سے کبھی کہیں کوئی شکایت محسوس ہوئی اور نہ ہی اپنے بچوں کی طرف سے جنسی معاملات پر کوئی تشویش۔ یہاں موجود تقریباً سبھی پاکستانیوں کو اسکول میں دی جانے والی جنسی تعلیم پر ہمیشہ اعتراض رہا۔ وہ پہلے بھی اور آج بھی بچوں کو اسکول بھیجنے کی بجائے مسجد لے جاتے ہیں۔ مگر میں نے خود بھی جنسی تعلیم لی اور بچوں کو بھی دلائی۔ گھروں میں والدین نے بچوں کے لیئے انٹرنیٹ پر پیرنٹل لاک لگوا رکھے ہیں۔ تاکہ بچے کسی غیر اخلاقی سائٹ پر جا ہی نہ سکیں۔ مگر میں نے ورکنگ پرسن ہوتے ہوئے بھی کبھی پیرنٹل لاک کا استعمال نہیں کیا، اس کی کبھی نوبت بھی نہیں ائی۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے؟
چلیں! میں بتاتی ہوں، ہر گلی میں ایک پارک، سرسبز و شاداب فطری مناظر سے بھرپور ہر وقت موجود قدرتی مناظر و تفریحی مقامات، جسمانی سرگرمیوں کے بے پناہ ذرائع، تعلیمی سرگرمیوں کے دوران ذہنی و تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے نت نئے مواقع، اور پھر بھی اگر وقت موجود ہو تو خودمختارانہ صلاحیت ابھارنے کے لیئے گریڈ نائن سے ہی طلبا کے لیئے موجود اسٹوڈنٹس جابز۔ میں سولہ برس کی عمر میں یہاں آئی۔ طالب علمی کا زمانہ تھا۔ اسکول کے بعد مجھے مختلف غیر نصابی سرگرمیاں مہیا تھیں۔ جن میں اسٹوڈنٹس کاؤنسل کا منتخب ممبر ہونے کی حیثیت سے کمیونٹی ورک سرفہرست تھا۔ دوسری بڑی ایکٹیویٹی اسپورٹس رہا۔ اس میں والی بال، بیڈ منٹن، اسکواش، سوئمنگ، ٹیبل ٹینس وغیرہ شامل تھے۔ وہاں سے وقت مل جاتا تو پھر ہارس رائیڈنگ، بوٹنگ، پیرا شوٹنگ، اسکائی ڈائیونگ بھی جوانی کا ایک ایڈوینچر، ایک نشہ تھا۔ گویا ایک ایک پل زندگی سے بھرپور تھا۔ ہر ایک لمحہ جیسے جینے پر مصر تھا۔ ویک اینڈ کے دو دن مہیا تھے اس میں ہمیشہ بارہ بارہ گھنٹے اسٹوڈنٹ جاب کی۔
آپ کیا سمجھتے ہیں کہ بارہ گھنٹے پرمشقت کام کرنے کے بعد بھی کبھی کسی کو کوئی دوسرا خیال لبھائے گا؟ جوانی چیز ہی ایسی ہے جب ذہن اور جسم میں موجود ہرطاقت، ہراحساس، ہرجذبہ اور ہرصلاحیت اپنا بر وقت اظہار مانگتی ہے۔ اس کو اگر مناسب ذرائع مہیا کر دئیے جائیں تو وہ اپنا مقام خود بنا لیتی ہے۔ ورنہ پھر وہی برباد ہوئی جوانیاں بوسیدہ معاشرے کو گھن کی طرح کھا بھی جاتی ہیں۔ جس طرز پر اپنی جوانی گزاری وہی طرز اپنے بچوں پر آزمایا۔ ہر لمحہ انہیں بھی ویسے ہی جینے کو دیا جیسے میں نے جیا اور فراغت کے وقت ان کو کام پر بھی لگوایا۔ بچوں کے شوق بھانپے اور اسی میں ان کی حوصلہ افزائی بھی کی۔ دوستانہ رویہ ایسا رکھا کہ کبھی انہیں کسی بھی معاملے پر اظہار میں کوئی ہچکچاہٹ نہ ہو۔ غلطیوں پر ایسا رویہ رکھا کہ وہ اپنی غلطی سے سیکھ کر آگے بڑھیں، خوفزدہ ہوکر کبھی دوسری غلطی نہ کریں۔
یہ زندگی بہت انمول ہے۔ ہر عمر کی اپنی ایک الگ ضرورت ہے۔ ہم جس عمر سے گزرجائیں پھر فرض بنتا ہے کہ اس موڑ کے داؤ پیچ سمجھ کر آنے والوں کے لیئے راہیں ہموار کریں۔ فحاشی کے رونے، جنس پر تماشے، عریانیت کے ڈرامے، اب بہت ہوئے۔ بھری جوانی پونڈی کرتے محلے بھر کی لڑکیوں کے گرد منڈلانے والے ہر مرد کو معاشرے کی فحاشی ستا رہی ہے۔ وہ کہ جن کی اپنی جوانی میں ان کی ایکسرے نما نگاہوں سے راہ چلتی برقعہ پوش خواتین کے جسمانی خدوخال اور اعضائے نسوانی کے سائز تک بھی نہ چھپ سکے، ان کو بڑھاپا آتے ہی نوجوانوں کی جوانیاں جیسے کاٹنے لگتی ہیں۔ یہ سب ہمارے وہ نابالغ رویے ہیں، جس نے ہماری نئی نسل کو ہم سے دور کر رکھا ہے۔ اپنی ہی نسل سے یہ ذہنی فاصلہ کبھی کسی کا بھلا نہیں کرتا۔ ہاں البتہ، یہ رویہ معاشرہ ضرور تباہ کر دیتا ہے۔