جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں، میں اپنے شہر کا سب سے بڑا فسادی ہوں

 عابد حسین

صبح دوست کے والد کی فوتگی پر تعزیت کے لیئے جانا پڑا واپسی پر مزید کچھ کام کرنے تھے۔ خیر تقریباً گیارہ بجے بہنوئی کا فون آیا، انہوں نے پوچھا  ”کدھر ہو؟“، میں نے کہا ”کچھ کام ہے دو تین گھنٹے میں واپسی ھوگی“،  وہ بولے ”آرمی والے حجرے پر آئے ہیں تمہارا پوچھ رہے ہیں“،  میں نے کہا کہ چائے پانی کا پوچھ لیں۔ اگر میرے آنے تک انتظار کرتے ہیں تو ٹھیک ہے ورنہ رخصت کریں۔ فون نمبر پر بھی مجھ سے بات کرسکتے ہیں۔ خیر وہ میرے پہنچنے سے پہلے ہی واپس  چلے گئے۔ 

یہ پہلی بار نہیں ہے۔ اول پشتون تحفظ مومنٹ کے پشاور اور پھر سوات جلسے میں شرکت کے بعد بھی پہلے سپیشل برانچ والے آئے تھے کہ بائیو ڈیٹا لینا ہے، اس کے بعد خڑکمر کے واقعے کے بعد رمضان کے مہینے میں  سی ٹی ڈی کا بندہ کئی روز تک آتا جاتا رہا۔ پھر کچھ فون کالز بھی آتے رہے۔ پچھلے سال بنوں جلسے کے بعد ای میلز ، فون کالز اور آئی ڈی اور ای میل بلاک ہونے کے بعد مالاکنڈ آرمی فورٹ انٹیلجنس سیل میں بھی بلایا گیا۔ ظاہر ہے ان سب فون کالز , ای میلز اور بلاووں کی وجہ پی ٹی ایم کو سپورٹ کرنا تھا۔ اس کے بعد پچھلے سال فروری کے مہینے میں درگئی بازار میں کچھ عجیب و غریب قسم کی ریکی ہوتی رہی، جیسے میں کوئی بڑا دہشت گرد ہوں۔ ابھی تقریباً چھ مہینے پہلے درگئی آرمی فورٹ بھی جانا پڑا، جہاں میرا موبائل فون رکھ لیا گیا اور کچھ دنوں بعد دیا گیا۔ پی ٹی ایم کے جلسوں میں شرکت، سوشل میڈیا پر پی ٹی ایم کے لیئے سوشل ایکٹیوازم اور چند ایک مقدس محکموں پر تنقید کی وجہ سے مجھے ان چیزوں کا سامنا کرنا پڑا۔ 

مگر اب تو یاروں نے کمال ہی کردیا۔ پہلے فون طلب کرتے تھے، ای میل کرتے تھے، ملک دشمنی کے طعنے ملتے تھے، پی ٹی ایم کو ملک دشمن اور غدار کہنے والوں کو سننا پڑتا تھا اور قلعے پر بلایا جاتا تھا۔ تو اب بھی فون کیا جاسکتا تھا، بلایا جاسکتا تھا لیکن نہیں اب تو مقدس گروہ نے خاندان پر دباؤ ڈالنا اور انہیں ڈرانا دھمکانا  شروع کردیا ہے۔ انہیں کسی طرح سے یہ باور کروایا جارہا ہے کہ آپ کا بیٹا بھائی ملک دشمنوں اور غداروں کا ساتھی ہے۔ یہاں تک کہا گیا کہ اگر اسی طرح غلط لوگوں، ملک دشمنوں اور غداروں کا ساتھ دینے لگا تو جیل جاسکتا ہے، قید ہوسکتا ہے، خیر یہاں تک بھی ٹھیک تھا لیکن جب کوئی کسی کے فیملی ممبرز خصوصاً ماں کے سامنے ایسی باتیں کرے کہ اور کہیں کہ آپ کے بیٹے کو کوئی ماردے گا تو اس کو سمجھائیں۔ تو اس سے تو ایک طرف خاندان پر دباؤ ڈالا جاتا ہے اور ذہنی اذیت میں مبتلا کیا جاتا ہے تو دوسری جانب یہ کہنا کہ اگر اسی طرح ملک دشمنوں کا ساتھ دیتا رہا تو کوئی مار دے گ۔  مطلب ہے کہ بلواسطہ طور پر قتل کی دھمکی دی جارہی ہے۔ خیر موت اور زندگی خدا کے ہاتھ میں ہے۔

 افسوس اس بات کا ہے کہ ہم نے نا کبھی جھگڑے لڑائی کی بات کی، نہ مار دھاڑ کی،  نا بندوق کی، غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح لکھا اور کہا۔ بس غلط کام کی مخالفت کی، ظلم کے خلاف لکھتے اور بولتے رہے۔ میں پشتون تحفظ موومنٹ کے آئینی اور قانونی مطالبات اور بیانیئے کا سپورٹر ہوں اور رہوں گا۔ جانی خیل میں لوگ بیٹھے ہیں لیکن کسی نے پوچھا تک نہیں۔ اسی طرح  کسی حکومتی فیصلے یا کسی محکمے کے ماورائے آئین و قانون عمل پر تنقید کرنا بھی آئین و قانون کے مطابق ہر شہری کا بنیادی حق ہے لیکن نہیں جناب مملکت خداداد میں آپ مقدس لوگوں پر تنقید نہیں کرسکتے، مقدس مقتدرا قوتوں کے غیر قانونی عمل و کردار پر تنقید کرنے پر آپ کو قید و جرمانہ ہوسکتا ہے یا ملک دشمنی اور غداری کا سرٹیفکیٹ دے دیا جائے گا۔ حتیٰ کہ آپ کو قتل کرکے نشان عبرت بھی بنایا جاسکتا ہے۔ اس سارے واقعے کے بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ میں اگر کسی تحریک کو سپورٹ کرتا ہوں تو ان کے جائز مطالبے کو سپورٹ کرتا ہوں اور کرتا رہوں گا۔ اگر واقعی پی ٹی ایم ملک دشمنی اور غداری میں ملوث ہے تو بسمہ اللہ کرکے ثبوت فراہم کریں۔ اگر کسی محکمے کے ماورائے آئین و قانون عمل پر تنقید کرنے اور لوگوں کو آگاہ کرنے سے کوئی مجرم بنتا ہے تو یہ جرم مجھ سے سرزد ہوتا رہے گا۔ اگر کسی ظلم اور ناانصافی کے خلاف لکھنے اور بولنے سے کوئی ملک دشمن ٹہرتا ہے تو میں ظلم کے خلاف آواز اٹھاتا رہوں گا۔ اگر حق سچ بات کرنے اور لکھنے سے کوئی غدار ٹہرتا ہے تو مجھے ایسی غداری پر فخر ہے۔ 

مجھے موت سے ڈر نہیں لگتا لیکن خاندان پر دباؤ ڈالنے، ماں،  بھائی، بہنوئی کو ذہنی اذیت میں مبتلا کرنے اور ڈرانے دھمکانے پر دکھ ہوتا ہے۔ صحافت میرا پیشہ اور شوق ہے لیکن کبھی اپنے اصولوں سے روگردانی نہیں کی، کسی ادارے سے منسلک رہنا مجبوری ہوتی ہے۔ ان کے پالیسی کے مطابق رپورٹنگ کرنی پڑتی ہے۔ بعض ادارتی مجبوریوں کی وجہ سے بہت ساری چیزوں کی رپورٹنگ کرنا، پبلش کرنا ممکن نہیں ہوتا لیکن سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر کسی کے حق کے لیئے آواز اٹھانا، ظلم کے خلاف لکھنا، لوگوں کو سچ سے آگاہ کرنا، مظلوموں کا ساتھ دینا فرض سمجھتا ہوں اور  یہ ضروری بھی ہے۔ میں صحافی کی حیثیت سے ہر کسی کے غیر آئینی و قانونی عمل و کردار پر تنقید کرتا رہوں گا اور آگاہی پھیلانے کا فرض بھی سرانجام دیتا رہوں گا۔

ریاستی کردار پر تنقید اس لیئے ہوتی ہے کہ ریاست شہریوں کے حقوق کی محافظ ہے نا کہ شہری ریاست کے حقوق کے تحفظ کے ذمے دار ہیں۔ حکومت پر تنقید اس لیئے ہوتی ہے کہ کیئے گئے وعدے یاد دلائے جاسکیں اور عام آدمی کو سہولیات میسر ہوسکے۔ میں مقدس محکمے کے غیر آئینی کردار پر اس لیئے تنقید کرتا ہوں تاکہ وہ اپنے آئینی دائرے سے باہر نہ ہو لیکن یہاں پر مسئلہ یہ ہے کہ حکومت، سیاست دانوں، وزیر اعظم، وزیروں، عدالتوں پر تنقید کرو، گالیاں دو کچھ نہیں ہوتا لیکن جیسے ہی ایک مقدس محکمے پر تنقید کردو اسی وقت آپ غدار اور ملک دشمن ٹہرا دئیے جاتے ہیں۔ میں جیل، دھمکیوں، دباؤ سے نہ ڈرنے والا ہوں اور نہ ہی مجھے ایسے ہتکھنڈوں سے چپ کرایا جاسکتا ہے۔ اگر مارا بھی گیا تو اس بات کا مجھے کوئی ڈر نہیں ہاں البتہ افسوس ضرور ہوگا کہ سچ لکھنے بولنے کا جرم بہت بڑا ہوتا ہے۔ پشتون تحفظ موومنٹ، پختونخواہ میپ اور اے این پی کے ہم خیال دوستوں، اساتذہ کرام، ہم خیال صحافی دوستوں سے بس یہی درخواست ہے کہ اگر میرے ساتھ کوئی انہونی پیش آئے تو آپ کو پتہ ہونا چاہیے کہ ماجرا کیا ہے اور کس کو مجھ سے تکلیف تھی۔