حالات، آزادی کے بعد سے
صہیب حسن
حالات کچھ زیادہ مختلف نہیں۔
“ہمیں پاکستان کو قائم رکھنے کے لئے ابھی مزید قربانیاں دینی ہیں”
کسی کا یہ پیغام میرے کانوں میں گونجنے لگا، اسی دوران کئی سوال میرے ذہن میں اٹھنے لگے۔ سوچنے لگا کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ ابھی ہمارے لوگوں کو مزید شہادتیں دینا ہیں، یا ہمارا ملک ابھی بھی قائم نہیں ہوا ہے، یا ابھی بھی ہمیں دشمن سے خطرہ لاحق ہے۔ انہی سوالوں کے درمیان وقت گزرنے لگا اور مجھے اپنے جوابات آہستہ آہستہ ملنے لگے۔
قربانیوں کا سلسلہ تو اسی دن سے شروع ہوگیا تھا جب ملک کے پہلے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کو جلسہِ عام سے خطاب کے دوران شہید کر دیا، لیکن افسوس قاتل کی آج بھی کوئی خبر نہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ دہشتگردی میں اضافہ ہوتا گیا اور قوم کو ایک کے بعد ایک سانحے سے دوچار ہونا پڑا۔ کبھی اے۔ پی۔ ایس، تو کبھی بلدیہ ٹاؤن، کبھی ہزارہ کمیونٹی کا قتل، تو کبھی اقلیتوں پہ ظلم و بربریت کے پہاڑ۔ اسی دہشت گردی کی فضا نے دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک کو لپیٹ میں لے لیا، عوام آئے روز کے دھماکوں کا شکار بنتے اور وزیر محض مزمّت کر کے اپنی زمہ داری پوری کر دیتے۔ آج تک پاکستان اسی دہشت گردی کا شکار ہے، لیکن بلا تعصب رنگ و نسل ابھی تک آپریشن نہ ہوا، شاید یہی وجہ ہے کے ابھی بھی دہشت گرد عناصر اس ملک میں آزادانہ زندگی گزار رہے ہیں۔
آج میرے اس وطنِ عزیز کو 70 سال ہوگئے ہیں، لیکن میں جب نظر دوڑاتا ہوں تو لگتا ہے جیسےآزادی کو کچھ ہی ماہ گزرے ہیں۔ وہی غربت و مفلسی کے ہولناک نمونے نظر آتے ہیں۔ کبھی میرے دیس کا کوئی قبائلی روتا ہے کہ رات گئے طالبان اسکے باپ کو مار گئے، کبھی ماں روتی ہے کہ ڈرون اٹیک میں اسکا چاند سا بیٹا شہید ہوگیا، کبھی بہن اپنے بھائی کو روتی ہے تو کبھی باپ اپنے بیٹے کو، کبھی عورت اپنے سہاگ تو کبھی بھائی اپنی بہنوں کو۔ غربت کا یہ عالم ہے کے گاؤں دیہات میں کسان خودکشی کرنے پہ مجبور ہیں، اندرونِ سندھ و پنجاب کے لوگ تو اس قدر خستہ حال زندگی گزارنے پہ مجبور ہیں کے ان کے زیبِ تن لباس سے ہی انکی مفلسی کی تصویر کشی ہو جاتی ہے۔ نہ تعلیم، نہ کھانا، نہ سہولیات، نہ ملازمتیں۔ محض جھوٹے وعدے، دلاسے اور امیدیں۔
پھر میری نظر ملک کے ان علاقوں پہ پڑی جہاں آزادی محض ایک خیال ہی ہے، جہاں لوگ رات کو اس خوف میں سوتے ہیں کے کہیں کوئی مزائیل نہ داغ دے، اور دوپہر میں گھروں میں اس خوف سے رہتے ہیں کے کوئی دہشتگرد کہہ کر انہیں اٹھا نہ لے، اگر آزادی کے بعد بھی انہیں فرق پڑا تو وہ اتنا کہ پہلے انگریز برسرِ اقتدار تھے اور اب نام نہاد “عوامی نمائندے”۔
اسی بدحواسی کے عالم میں افسردہ ہوکر میں نے شہر کا رخ کیا، اس امید کے ساتھ کے شاید یہاں حالات کچھ الگ ہوں گے، لیکن اس ملکِ خداداد کی ایسی بدقسمتی کے شہر میں بھی عجیب قسم کی فضا قائم تھی۔ نظر دوڑائی تو کہیں شاہزیب خان ملا، تو کہیں مشعال خان، کہیں ننھی زینب ملی، تو کہیں سردار چرنجیت جیسے عظیم لوگ اور کہیں مظلوم باپ کورٹ کچھری کے چکّر کھاتا دکھائی دیا، انصاف تو تھا مگر صرف وزیر، سفیر، امیر کے لئے، سزائیں بھی تھی وہ غریب اور عام آدمی کے لئے۔
خیال آیا، کیا اس پاکستان کا اقبال نے خواب دیکھا تھا؟ کیا جناح نے اس پاکستان کے لئے اپنی زندگی وقف کی تھی؟ ضمیر پکار اٹھا، “نہیں”۔ قائد نے تو ایک ایسی ریاست کا قیام چاہا تھا جہاں کے سیاستدان اور عوام میں فرق نہ ہو، جہاں انصاف کا اصول پہلے ہو، جہاں امیر و غریب قانون کی نظر میں ایک ہو، جہاں قوموں میں تفریق نہ ہو، جہاں لوگوں میں تقسیم نہ ہو، لیکن افسوس ہم نے یہ مقاصد بھلا دیے، اور مفادات کی جنگ میں پس کر رہ گئے، یہ جو سیاستدان ہمارے سروں پر بیٹھا دیے گئے ہیں، انہوں نے اس ملک میں حشر برپا کردیا، نفرتیں بو دی، قومیتوں کی بنیاد پہ ہمیں ایک دوسرے کا دشمن بنا دیا ۔
حالات اب بھی بہتر ہو سکتے ہیں، ہم ابھی بھی ترقی کی راہ پہ گامزن ہو سکتے ہیں، ہم ابھی بھی تعلیم یافتہ ہو سکتے ہیں، شرط یہ ہے کہ ہم مفادات کی جنگ سے بہار نکلیں، ملک و قوم کے لیے کام کریں، ان حکمرانوں سے خیر کی امید رکھنا فضول ہے۔ اس ملک کا یہ المیہ ہے کے لوگ یہاں اپنے پیاروں کو روتے ہیں، غریب روٹی کو روتا ہے، بھوکے کھانے کو روتے ہیں اور سیاستدان محض کرسی کو روتے ہیں۔