حسین کون تھے؟

عاطف توقیر

دادی نے چولہے سے کوئلے کے چند ٹکڑے حقّے پر رکھے اور اپنی ہتھیلیوں پر سوکھے تمباکو کو مسل کر چلم تازہ کی۔ چھوٹی سی پیڑی (زمین سے لگی کوتاہ قد کرسی نما روایتی نشست) کو کھینچ کر میرے پاس آ بیٹھیں۔ میں آنگن میں لگی دریک (پوٹھوہار میں نیم کے پیٹر جیسا ایک درخت جس پر کڑوے نمولی (ترکنوں) اگتے ہیں) کی چھاؤں میں بیٹھ کر یا تو کچی مٹی سے کھیلا کرتا تھا یا زمین پر انگلی سے آڑی ترچھی لکیریں کھینچ کر کتاب میں لکھے لفظ جیسے لفظ زمین کی سطح پر رکھتا یا کبھی کبھی کوئی کتاب مل جاتی، تو پڑھنا نہ آنے کے باوجود اس کی سطروں پر انگلیاں پھیرتا رہتا۔ دادی اکثر پاس آ بیٹھتیں، کتاب سے کوئی سطر پڑھ لیتیں، تو میں فوراﹰ اسے یاد کر لیتا کہ اگلی بار اس سطر پر انگلیں پھیرتے ہوئے لفظ ہونٹوں پر اگ آئیں اور تاثر یہی ہو کہ مجھے پڑھنا آ گیا۔ میری عمر اس وقت کوئی تین یا ساڑھے تین برس کے لگ بھگ تھی۔

سخت دھوپ میں دریک کا وہ پیڑ ساری حدت اپنے سر پر رکھ کر دھوپ کی کچھ کرچیں زمین پر سکوں کی طرح پھینک دیتا تھا، جو میری انگلیوں سے مٹی پر دھرے لفظوں میں گم ہو جاتی تھی اور کئی بار یہی معلوم نہیں ہوتا تھا کہ دھوپ کے ہندسے کون سے ہیں اور میری انگلیوں سے جنے گئے حرف کون سے۔

دادی پاس آ بیٹھیں، تو تب میرے ہاتھ میں باجی کی اردو کی کتاب تھی، جس کے شاعری والے حصے میں میر انیس کا نوحہ تھا۔ دادی پاس آئیں تو اس وقت میں میر انیس ہی کے اس نوحے کے مصرعوں پر پڑھنا نہ آنے کے باوجود بس انگلیاں دوڑا رہا تھا۔ دادی نے اس نظم کا پہلا بند پڑھا اور میں نے فوراﹰ یاد کر لیا۔
چلتے تھے چار سمت سے بھالے حسین پر
ٹوٹے ہوئے تھے برچھیوں والے حسین پر
قاتل تھے خنجروں کو نکالے حسین پر
یہ دکھ نبی کی گود کے پالے حسین پر
تیر ستم نکالنے والا کوئی نہیں
گرتے تھے اور سنبھالنے والا کوئی نہیں

دادی یہ حسین کون تھے؟ اور انہیں کس نے مارا؟

دادی نے حقّے کی نال منہ سے ہٹائی اور ایک لمحے کو بس میری طرف دیکھنے لگیں۔ انہیں جواب دینے میں تو شاید کوئی مشکل پیش نہ آتی، مگر اس ایک لمحے کی خاموشی کی وجہ شاید یہ ہو کہ اتنے چھوٹے سے بچے کو ایسا کیا بتایا جائے کہ یہ سمجھ بھی پائے۔ پھر ان کے جھریوں والے نرم ہاتھوں نے میرے چھوٹے سے ہاتھ کو تھام لیا۔

کہنے لگیں، جیسے تم میرے بیٹے ہو نا، ویسے ہی ہمارے پیغمبر کے بیٹے حسین تھے۔ تم میرے بیٹے کے بیٹے اور حسین ہمارے آقا کی بیٹی کے بیٹے تھے۔ جتنا پیار میں تم سے کرتی ہوں نا، اس سے بھی زیادہ پیار ہمارے پیمبر اپنے حسین سے کرتے تھے۔ ایک لمحے کو میرے ہاتھ کی گرفت اپنی دادی کے ہاتھ پر بڑھتی چلی گئی۔

ہمارے پیمبر اور حسین کے نانا نے کہا تھا کہ ناانصافی کو کسی صورت تسلیم نہ کرنا اور ظالم کے ساتھی مت بننا۔ حسین نے وہی کیا، جو ان کے نانا نے کہا تھا۔ ایک ظالم بادشاہ یزید کا ساتھی بننے سے بہتر اس کے سامنے کھڑے ہو جانے کو سمجھا۔ کوئی فوج بھی نہیں تھی، مگر پھر بھی لڑے اور یزید کی فوج نے انہیں شہید کر دیا۔

وہ جان دے کر یہ بتا گئے کہ حالات کچھ بھی ہوں، ساری کائنات کی فوجیں بھی تمہارے خلاف ہو جائیں، ظالم کے پاس کتنی ہی طاقت کیوں نہ ہو، مگر حق کی راہ سے مت ہٹنا اور ظالم کا ساتھی مت بننا، پھر تمہیں مارنے والے خود مر جائیں گے، مگر تم ہمیشہ زندہ رہو گے۔

دادی کے الفاظ اسی طرز کے تھے کچھ شاید۔ میں انہیں اس وقت یاد نہیں کر پایا تھا۔ مگر حسین کی شہادت کا ذکر کرتے ہوئے بیک وقت دکھ اور یقین کی آواز کیسی ہوتی ہے، وہ دادی نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے بتا دی تھی اور اس کی گمگ حسین کا نام سنتے ہی، اب بھی سنائی دینے لگتی ہے۔