حکومت اوراسٹبلشمنٹ کے نام
محمد خان محوری
دیگر صوبوں کی طرح، گلگت بلتستان کا بھی پاکستان سے رشتہ، رشتہ لاالہ الاللہ ہے لیکن آج تک ہمارے کسی بھی حکمران نے اس حقیقت کو یا تو تسلیم نہیں کیا یا ضروری نہیں سمجھا۔ ضرورت کے وقت انہوں نے گلگت بلتستان سے بیاہ کیے پھر اس کے بعد چھوڑ دئیے۔ یہی وجہ ہے کہ گلگت بلتستان کے نوجوان پر مشتمل آبادی کے دو تہائی اکثریت گلگت بلتستان میں آج وفاق کی کسی بھی طرح کے کردار کو یا تو پسند نہیں کرتے یا دیکھنا ہی نہیں چاہتے۔
اس تحریر کا مقصد چند ایک مسائل کی جانب حکومت وقت اور اداروں کی توجہ مبذول کرانا ہے تاکہ مستقبل بعید میں کوئی سانحہ رونما ہو سکے۔ یہ تحریر پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے نام، جو نیا پاکستان کے نعرے کے ساتھ قائد اعظم کے پاکستان کی تکمیل نو کا خواب لیکر 25جولائی2018 کو وزیر اعظم پاکستان منتخب ہوئے۔ یہ تحریر جمہوریت اور ریاست پاکستان کے اہم مگر بنیادی ستون، عدالت عدلیہ کے سربراہ جسٹس میا ثاقب نثار کے نام جن کے متحرک کردار اور، “ازخودنوٹس”پاکستان کو استحکام کی جانب لے جارہے ہیں ،کرپٹ اور ملک دشمن عناصر قانون کے کٹہرے میں پیش ہورہے ہیں۔ یہ تحریر پاکستان کے دفاع اور سلامتی کی آخری لائن ،”پاکستان آرمی”کے سپہ سالار،جنرل قمر جاوید باجوہ کے نام جنکی بے باک، ماہرانہ، شاہین صفت نظروں اور صلاحیتوں سے پاکستان کے دشمن نا مراد ہیں۔
گلگت بلتستان، “دنیا کی چھت”گزشتہ اکہتر سالوں سے کسی طلاق یافتہ یا بیوہ عورت کی طرح نظر التفات سے محروم ہیں۔ 78971 کلو میٹر پر پھیلی ہوئی یہ سر زمین، آزاد کشمیر سے چھ گنابڑابہشت بریں، گلگت بلتستان ملک عزیز پاکستان کے شمال میں دنیا کے تین بڑے پہاڑی سلسلوں، ہمالیہ، قراقرم اور
ہند و کش پر مشتمل ہیں۔ یہ علاقہ پاکستان اور چائنہ کی ہمالیہ سے اونچی، سمندر سے گہری اور شہد سے میٹھی دوستی کی ضامن ہے کیونکہ فقط یہی علاقہ قراقرم ہائی وے کے ذریعے پاکستان کو چائنہ سے ملاتا ہے۔ اس خطے کی مخصوص جغرافیائی حیثیت و اہمیت کی وجہ سے “پاکستان چائنہ اقتصادی راہداری”دنیا میں اب سڑکوں کا جال بچھا رہاہے جو کہ ابتدائی طور پر دنیا کے اکہتر ممالک کو آپس میں جوڑیں گے “یہ سی پیک مستقبل میں چائنہ کے سر پر سپر پاور کا تاج سجائے گا اور پاکستان کو “ایشین ٹائیگر”بنائے گا جس کے بعد دنیا، پاکستان اور چائنہ کے حضور “جی حضوری”کرے گی۔ ساتھ میں عالمی سیاست کارخ بھی تبدیل ہوگا۔ اس عالمی سیاست میں پاکستان اور چائنہ ایک طرف موجود ہونگے جبکہ باقی دنیا ایک طرف۔ لیکن سیاست کے اس عالمی کھیل میں دشمن کو زیر کرناگلگت بلتستان کے لوگوں کی گزشتہ اکہترسالہ محرومیوں کا ازالہ کئے بغیر ممکن نہیں۔
محرومیوں کا ازالہ کرنے کا آسان فارمولہ یہ ہے کہ گلگت بلتستان کے بارے میں وضع کیے ہوئے گزشتہ تمام پالیسیوں میں ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے اب کے بعدپالیسی سازی میں مقامی باشندوں کی رائے کو اہمیت اور حیثیت دیں یا مسئلہ کشمیر کے کسی نتیجے پر پہنچنے تک گلگت بلتستان کو اقوام متحدہ کے قرداروں کی روشنی میں وہ تمام حقوق اور اختیارات دیئے جائیں جو ایک متنازعہ خطے کے لیے مختص ہیں ۔اقوام متحدہ کی قرادادوں میں میں گلگت بلتستان مسئلہ کشمیر کافریق ہے جس کا اظہار ہمارے ملک کے کئی اراکین اسمبلی نے گزشتہ سالوں میں کئی بار کیا ہے۔ (میڈیا بھی اس بات کی گواہ ہے) مگر افسوس کی بات ہے گلگت بلتستان اور کشمیر ایک ہی فریق ہونے کے باوجود دونوں کے لیے پالیسی الگ الگ بنائے اور اپنائے گے۔ جس کی چند مثالیںیہ ہیں:(اول)1947میں کشمیر میں سٹیٹ آفس بنائے گئے , سردار محمد ابراہیم پہلا صدربنے اور1975میں عبد الحامد خان پہلے وزیراعظم منتخب ہوئے۔ جبکہ 1947سے ساٹھ کی دہائی تک گلگت بلتستان کے لوگ خطر ناک پہاڑی راستوں سے پاکستان کے گوشہ و کنار میں سفر کرتے رہے ۔یہ شاہراہ قراقرم کی مرہون منت ہے جس نے انیس سو ساٹھ کی دہائی میں گلگت بلتستان کے لوگوں کی سفری خطرات کو کم کرنے کے ساتھ یہاں کے لوگوں کے ذہنوں کو بھی کشادہ کیا۔ (دوم)2009 میں پیپلز پارٹی نے جی بی کو صوبے کا درجہ کے کر بظاہر گلگت بلتستان پر احسان کیا لیکن یہی آرڈر ،جی بی آرڈر2018کے لیے بنیاد بن گئے۔ وفاق کے مطابق اس آرڈر کے ذریعے اگرچہ گلگت بلتستان اسمبلی کی اختیارات میں اضافہ کر دیا گیا ہے لیکن ساتھ میں یہ آرڈر اختیارات کا مرکز وزیراعظم پاکستان کو قراد دیتا ہے۔یوں وزیر اعظم پاکستان کو اسمبلی کی کسی بھی پیش کردہ قرارداد اور بنائے گئے اصول و قوانین ختم کرنے کی مجاز حاصل ہے۔ اس لیے اس آرڈر کے ذریعے عوامی منتخب نمائندوں کے اختیارات میں کمی لے آنا اور بعض اختیارات کو ختم کرنا ایک طرف جمہوریت کی منافی ہے تو دوسری طرف عوامی مینڈیڈیٹ کی توہین۔ جب ایک آرڈر کے ذریعے گلگت بلتستان چلایا جاسکتا ہے تو صوبائی اسمبلی کی ضرورت کیا ہے اور جب صوبائی اسمبلی کو وجود میں لے آیا ہے تو آرڈر کے ذریعے کا م چلانا ناانصافی اور غیر منطقی ہے۔
آرڈر کو اردو میں حکم نامہ بھی کہتے ہیں اور حکم نامہ ہر حکومت کے تبدیل ہونے کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتا ہے۔ جسکی مثال پیپلز پارٹی دور میں2009 کا حکم نامہ اور ن لیگ دور میں جی بی آرڈر 2018کے نام سے دوسرا حکم نامہ۔گلگت بلتستان تنازعے کا حل نہ ہی کسی حکم نامے میں ہے اور نہ ہی سپریم کورٹ میں کیس دائر کرنے اور سماعت کرنے سے۔ (سوئم)مسئلہ کشمیر کا دوسرا فریق گلگت بلتستان میں 2002 میں واحد قراقرم یونیورسٹی بنائی گئی اور 2018 میں بلتستان یونیورسٹی، جبکہ کشمیر میں اس وقت چھ سے دس کے قریب گورنمٹ یونیورسٹیز اور اسکی ذیلی شاخیں موجود ہیں جن میں میر پور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، راولکوٹ یونیورسٹی اور اسکی ذیلی شاخیں ، پونچھ یونیورسٹی، یونیورسٹی آف کوٹلی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
کشمیر اور گلگت بلتستان کیلئے اپنائے گئی الگ الگ پالیسیز ہی گلگت بلتستان کی محرومی کی ایک اوراہم وجہ ہے۔ انہی محرومیوں کی وجہ سے عوام سڑکوں پر نکلتی ہے لیکن حکومت اور ادارے عوام کی آوازوں کو دبانے کیلئے کبھی کسی کو گرفتار کرتا ہے تو کسی پہ فورتھ شیڈول لگاتا ہے۔یہ اقدامات عوام کی آواز کو دبانے کیلئے فوری حل تو ہو سکتا ہے لیکن مستقبل حل نہیں ۔ بلکہ اس طرح کے اقدامات مستقبل میں تباہی کا پیش خیمہ بھی ہے۔ لہٰذا حکومت اور قومی اداروں کو چاہیے کہ وہ جل از جلد گلگت بلتستان کے لوگوں کی اکثر سالہ محرومیوں کا خاتمہ کریں تاکہ مزید امتحانات سے بچ سکیں۔
خدا کرے کہ مرے ارضِ پاک پر اُترے
وہ فصلِ گُل جسے اندیشہ زوال نہ