خادم رضوی کے ٹوئٹر اکاؤنٹ کی بندش، ’گول وچوں کج ہور اے‘

عاطف توقیر

مولوی خادم رضوی کا ٹوئٹر اکاؤنٹ بند کر دیا گیا۔ اس کے کچھ ہی دیر بعد وزیراطلاعات و نشریات فواد چوہدری صاحب کا یہ ٹوئٹر بیان سامنے آیا کہ حکومت سوشل میڈیا کی کڑی نگرانی کرے گی۔ گو کہ عمومی حالات میں یہ دو خبریں الگ الگ ہوتیں، تاہم اس مخصوص صورت میں ان کا بہت گہرا تعلق ہے۔

پاکستان میں سوشل میڈیا میں ایسے اکاؤنٹس کی تعداد ہزاروں بلکہ لاکھوں میں ہے، جو فرقہ واریت، قومیت اور دیگر تعصبات کی بنا پر کھلے عام شرانگیزی، نفرت انگیزی اور تشدد پسندی کو ہوا دے رہے ہیں۔ ایسے متعدد فیس بک صفحات ہیں، جہاں کھلے عام عسکریت پسندی کی دعوت دی جاتی ہے۔ ایسے کئی فیس بک اور ٹوئٹر اکاؤنٹس ہیں، جو بغیر کسی آفیشل حیثیت کے عسکری اداروں کی توصیف و تعریف میں مصروف رہتے ہیں اور کئی خبریں جو میڈیا یا صحافیوں تک کو دستیاب نہیں ہوتیں، ان صفحات پر نظر آتی ہیں۔

مولوی خادم رضوی ہو یا کوئی بھی دوسرا شخص، آزادیء اظہار رائے پر قدغن یقیناﹰ ایک نہایت خوف ناک عمل ہے۔ نفرت انگیزی کی صورت میں کسی شخص کے خلاف قانونی کارروائی بے حد ضروری ہے، تاہم سوال یہ ہے کہ تحریک لبیک اور مولوی خادم رضوی سے جڑے ان کے ہزاروں حامیوں کے اکاؤنٹس جب چل رہے ہیں، تو مولوی خادم رضوی کے اکاؤنٹ کی بندش سے کیا فرق پڑ سکتا ہے؟

ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ کیا حکومت کی جانب مساجد کے اسپیکروں سے پیدا ہونے والی نفرت انگیزی کے خاتمے کے لیے کوئی سنجیدہ اقدام نظر آ رہا ہے؟

چند روز قبل آسیہ بی بی کی رہائی سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد تحریک لبیک پاکستان اور اس کے اہم رہنماؤں کی جانب سے جس انداز کی زبان استعمال کی گئی۔ ججوں کو کھلے عام قتل کی دھمکیاں دی گئیں، فوج کو بغاوت پر اکسایا گیا اور حکومت کا تختہ الٹنے تک کا اعلان کیا گیا، اس کے بعد ملکی قانون کو حرکت میں آنا چاہیے تھا اور ایسے سنگین جرائم کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں ہونا چاہیے تھے، تاہم نتیجہ ان قانون توڑنے والوں کے ساتھ ’این آر او‘ کی صورت میں نکلا، یعنی ایسے سنگین جرائم کی معافی دے دی گئی۔

معاہدہ میں یہ شق تک شامل کر لی گئی کہ اس احتجاج کے آغاز سے تحریک لبیک سے وابستہ تمام گرفتار شدگان کو رہا کر دیا جائے گا۔ یعنی ایک طرف خادم رضوی صاحب نے فرمایا کہ شرپسندی میں ملوث افراد کا ان کی تنظیم کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور ساتھ ہی شرپسندی کرتے ہوئے پکڑے جانے والوں کے بابت انہوں نے کہا کہ انہیں رہا کر دیا جائے۔

بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں اب نئی روایت یہ پڑ چکی ہے کہ مرض کوئی بھی ہو، اس مرض کا علاج کرنے کی بجائے، دردکشا گولیاں کھانا شروع کر دی جائیں۔ یا وہ اقدامات کیے جائیں، جو ہیڈلائنز بن سکیں جب کہ وہ بنیادی اقدامات جن کے تحت ایسے مسائل کو جڑ سے ختم کیا جا سکتا ہے، ان کو سرے سے خاطر ہی میں نہ لایا جائے۔

ایک طرف حکومت خادم رضوی سے معاہدے کر رہی ہے اور دوسری جانب خادم رضوی کا ٹوئٹر اکاؤنٹ بند ہو رہا ہے۔ اندر کی بات یہ ہے کہ حکومت اس بہانے سے اب سوشل میڈیا پر اپنے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبانے کے لیے بھرپور زور لگائے گی۔ وہ تمام افراد جو حکومت یا ریاستی پالیسیوں کے ناقد ہے، اصل ہدف وہ بن سکتے ہیں۔ عوام کو بنایا یہ جائے گا کہ سوشل میڈیا پر شرپسندی میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے، جب کہ اصل میں شرپسندوں کو کھلا چھوڑ کر ملک میں حقیقی معنوں میں جمہوریت اور اعتدال پسندی کی ترویج کرنے والوں پر عتاب گرے گا۔

مولوی خادم رضوی کے پرتشدد اور مشتعل احتجاج کے آغاز میں سختی کی بڑھکیں مارنے والی حکومت چند ہی گھنٹوں میں گھٹنوں کے بل بیٹھ کر مصالحت کر چکی ہے اور شرپسندوں سے ہاتھ ملا کر ملک میں قانون کی بالادستی کو مزید کم زور کیا جا چکا ہے۔
اسی سلسلے کی ایک کڑی پچھلے برس نومبر میں فیض آباد دھرنے کے وقت ن لیگی حکومت نے کی اور اب اسی معاملے کو بام اوج پر پی ٹی آئی حکومت نے پہنچا دیا۔

اس کا دوسرا اثرا اب ملک میں متحرک حقوق کی تحریکوں پر ہو گا، جو اب تک پرامن انداز سے اپنا احتجاج ریکارڈ کروا رہی تھیں اور جنہیں’غدار‘ اور ’غیرملکی ایجنٹ‘ کے القابات دیے جا رہے تھے۔ انہیں واضح پیغام دیا گیا ہے کہ وہ پرامن راستہ ترک کر کے مولوی خادم رضوی والا طریقہ اپنائیں گے، تو حکومت ان کی بات سنے گی۔

اس سلسلے میں ایک اور اہم بات یہ تھی کہ خادم رضوی معاملے پر میڈیا پر ایک مرتبہ پھر بلیک آؤٹ کر کے اور خبر تک نہ چلا کر ایک بات یہ بھی واضح کر دی گئی ہے کہ میڈیا پاکستان کی تاریخ کے بدترین سینسرشپ کے دور سے گزر رہا ہے اور پاکستانی عوام تک جو جو خبریں پہنچ رہی ہیں، وہ اس ملک پر حاکم طبقے کی مرضی اور منشا کے تحت پہنچ رہی ہیں۔

ہمارے ہاں جرم کے خاتمے کا نعرہ لگانے والے اس سے بڑے جرم کا ارتکاب کرتے نظر آتے ہیں۔ کسی ڈاکو کو ماورائے عدالت قتل کیا ہو سکتا ہے؟ یعنی ایک شخص نے ڈاکا مارا اور اس کے جواب میں ریاست نے اس سے بڑا جرم یعنی قتل کیا۔ حالت اب یہ ہے کہ حقوق کے لیے آواز اٹھانے والے لاپتا ہو رہے ہیں، یعنی اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے کے ’جرم‘ کے جواب میں ریاست ’اغوا‘ جیسا سنگین جرم کرنے کو درست تصور کر رہی ہے۔

آزادیء اظہار رائے ایک بنیادی حق ہے۔ وہ چھیننے کر ریاست ایک اور سنگین جرم کرنے کی بجائے جرائم کی روک تھام کے لیے قانون کا راستہ اپنائے۔ سوشل میڈیا پر بھی قدغن لگ گئی اور لوگوں سے رائے کا یہ حق بھی چھین لیا گیا، تو سمجھ لیجیے ہم ’شمالی کوریا‘ جیسے معاشرے میں تبدیل ہو جائیں گے۔