خواتین سے خوفزدہ معاشرہ
مہناز اختر
”اَشْہَدُ اَنْ لَّاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ “، ”میں حلفیہ کہتی ہوں کہ میں سنی عقیدہ جدت پسند مسلمان ہوں، خوشحال و خوش باش خاتون خانہ ہوں، آٹھ مارچ بروز ”عورت مارچ“ اپنے گھر پر خاوند اور ساس کے ساتھ موجود تھی اور روزانہ کی طرح امور خانہ داری میں مصروف تھی، میں خواتین کے مساوی حقوق اور عورت مارچ کی حمایت کرتی ہوں، میں جنسی اور صنفی جبروہراسانی کی شدید مخالفت کرتی ہوں، لکھنا میرا پیشہ نہیں بلکہ جہاد ہے، میں اپنے دور کے سماجی حالات کی ڈائری لکھتی ہوں، مجھے لکھنے کے پیسے نہیں ملتے اور نا کہیں سے فارن فنڈنگ ہوئی ہے، مجھے کلمہ بھی آتا ہے اور نماز کا طریقہ بھی“۔ میری شہادت مکمل ہوئی، یقین کرنا یا نا کرنا آپ کا فعل۔ اب آتے ہیں مدعے کی جانب! سنہ دو ہزار اٹھارہ سے عالمی یوم خواتین کے دن ”عورت مارچ“ کا انعقاد کیا جارہا ہے۔ میں گزشتہ دو سالوں سے ”عورت مارچ“ پر کچھ لکھنے کے لیئے اس کے گزرنے کا انتظار کرتی ہوں تاکہ اس آندھی کے نتیجے میں جو گرد اڑی ہے وہ بیٹھ جائے اور فریقین بھی کچھ شانت ہوجائیں۔
اس بار ”عورت مارچ“ کے لیئے نکلنے والی خواتین نے جو بے حیائی پھیلائی اور جس حساب سے اہل ایماں نے ان پر لعنت ملامت کی اور غم اسلام میں اخلاص کے آنسو بہائے۔ میں تو اس خوف میں مبتلا تھی کہ کراچی، لاہور، اسلام آباد اور ان کے مضافات میں عنقریب زلزلہ آیا ہی آیا۔ خیر زلزلے کو نا آنا تھا نا آیا۔ ویسے بھی زلزلہ کون سا ہم مسلمانوں کا دوست ہے۔ یہ بھی اب یہود نصاری کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بن چکا ہے اور ضرورت کے وقت پتا نہیں کون سی مسلم دشمن لابی کی گود میں جا بیٹھتا ہے کہ ایمان والوں کی حجت تمام نہیں ہوپاتی۔
میں اب بھی اس بات پر یقین کرتی ہوں کہ پاکستانی مردوں کی اکثریت معقول اور انسان دوست قسم کے مردوں پر مشتمل ہے جو نا تو متشدد ہیں اور نا مذہبی انتہا پسند مگر رونا اس بات کا ہے کہ نامعقول سوچ والے مرد و خواتین نے مذہب اور روایات کی آڑ میں سماج کو کچھ اس طرح جکڑ کر رکھا ہے کہ معقول افراد بھی حقوق اور جدت پسندی کے حق میں اٹھنے والی آواز کی حمایت میں ہچکچاتے ہیں اور اسے سنے اور سمجھے بغیر رد کردیتے ہیں یا جانبدار سی چپ سادھ لیتے ہیں۔
مجھے تو اب ہر سال ایمان والوں کے دودھ میں سے پانی الگ کرنے کے لیئے عورت مارچ کا انتظار رہے گا، کہ کیسے یہ محب وطن پاکستانی مومنین اسلام کو سچا دین ثابت کرنے کے لیئے جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں۔ جب ”ان خواتین کو رنڈیاں٫ فاحشہ، بے حیا، کفار کی ایجنٹس “ ٹہرانے سے دال گلتی محسوس نہ ہوئی تو ان پر توہین مذہب و رسالت کا الزام لگانے کے لیئے خود بڑی ڈھٹائی سے توہین مذہب و رسالت کرتے رہے۔ جیسے کے سرخ کپڑے پر درج ایک نو سال کی لڑکی کے ساتھ مسجد کے پچاس سالہ مولوی کی زیادتی کو زبردستی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے منسوب کردیا۔ وومن ڈیموکریٹک فرنٹ کے جھنڈے کو فرانس کا جھنڈا قرار دے کر ان پر توہین رسالت کے فتوے داغتے رہے۔ پھر”ملا بھی سن لے آزادی“ کو ”اللّٰہ“ سمجھا کر ان مومنین نے یقیناً ڈھیروں ثواب کمالیا ہوگا۔
حیرت کی بات ہے ناں! یہ کہتے ہیں اسلام ہی سچا دین ہے پھر اس دین کی حقانیت کو اپنے بدصورت جھوٹ سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ اسلام نے ”عورت کو 14سو سال پہلے ہی سارے حقوق دے دئیے تھے“ لیکن جیسے ہی خواتین پدرسری سماج یا مردوں کے جنسی جبر کے خلاف آواز اٹھاتی ہیں تو منہ سے یوں جھاگ نکالتے ہیں کہ جیسے اسلام کوئی قید خانہ ہو اور یہ اس کے داروغہ کہ جس میں انہوں نے مسلمان خواتین کو قید کررکھا ہے۔ یہ درحقیقت اسلام اور جبر پر مبنی پدرسری نظام کو ہم معنی قرار دیتے ہیں۔ انتہا پسندانہ ذہنیت رکھنے والے یہ مسلمان مرد، خواتین اور خدا کے درمیان حائل ہوگئے ہیں۔ ان کے خیال میں خواتین عقل شعور سے عاری اور ہوس کی ماری مخلوق ہیں کہ اگر مردوں نے اپنی رسیاں ذرا بھی ڈھیلی کیں تو یہ روایت، مذہب اور حیا کی دھجیاں اڑا کر رکھ دیں گی۔
عورت مارچ پاکستان کے بہرے اور منجمد معاشرے میں ایک چیخ ثابت ہوا ہے۔ آپ اس کے حق میں ہیں یا مخالف مگر آپ کو ماننا پڑے گا کہ اس مارچ نے آپ کو سوچنے کے لیئے کئی سوالات دئیے ہیں۔ ایسے سوالات جس نے ”صم بکم عم“ سماج کے گلیشیر کو پگھلانے کی ابتداء کردی ہے۔ یہ ہذیان بکتے، منہ سے جھاگ اڑاتے چہرے بتا رہے ہیں کہ نشانہ ٹھیک جگہ پر لگا ہے۔ اس بار ایک اچھی بات ہوئی کہ عورت مارچ کے دباؤ نے جماعت اسلامی کراچی کی خواتین کو باہر نکالا۔ عورت مارچ کی مخالفت میں ہی سہی پر نکلیں تو۔ جماعت اسلامی کی اس ریلی کو بھی قومی اور بین الاقوامی خبررساں اداروں نے کوریج دی لیکن میرے خیال سے یہ ایک ناکام ریلی ثابت ہوئی کیونکہ جماعت اسلامی کی یہ خواتین اپنے ساتھ گمشدہ بلوچ افراد کے لیئے احتجاج کرنے والی خواتین، تیزاب گردی کا شکار خواتین، گھریلو تشدد کا شکار خواتین، صنفی اور جنسی تشدد کا شکار اور کئی مسائل سے نبرد آزما مزدور طبقے اور ملازمت پیشہ خواتین کو اپنے ساتھ کھڑا کرنے میں ناکام رہیں یا پھر جماعت اسلامی کو خواتین کے ان حقیقی مسائل سے کوئی دلچسپی ہی نہیں۔ البتہ عورت مارچ کی انتظامیہ نے نا صرف فہرست میں شامل مذکورہ خواتین کی بات کی بلکہ انہیں گھروں سے نکال کر اپنے ساتھ کھڑا کیا اور ان خواتین کی بات کی جو اپنے گھروں میں محبوس و مقید ہیں۔ اسی لیئے میں کہتی ہوں کہ ایکٹیوازم کو سپورٹ کیجیے یہ مشکل موضوعات پر مکالمت کی راہ ہموار کرتا ہے۔ جب ہر طبقہ فکر کی خواتین ایک دن اپنے اپنے حقوق اور نظریات کے پرچار کی بات کرنے پبلک اسپیس پر نکلیں گی تو رفتہ رفتہ مکالمت اور مفاہمت دونوں کی راہ ہموار ہوگی اور سماج کی نصف اپنی اخلاقیات خود متعین کرلیں گی۔
آپ عورت مارچ یا فیمین ازم سے سو بار اختلاف کیجیے، جو بات درست نہ لگے اسے معقول طریقے سے رد کردیجیے مگر اپنی ہچکچاہٹ سے اس غاصب سوچ کو طاقتور مت کیجیے جو فیمن ازم کی اصل تعریف کو عوام تک پہنچنے نہیں دیتا، جو یہ نہیں بتاتا کہ فیمن ازم انسانی مساوات کا نظریہ ہے۔ یہ معاشی، ثقافتی اور سماجی میدانوں میں صنفی مساوات کی بات کرتا ہے اور جنسی بنیادوں پر ہونے والی زیادتیوں کو یکسر رد کرتا ہے۔ مذہبی انتہا پسندانہ غاصب سوچ آپ کو ہر بار یہ جھوٹ بتاتی ہے کہ عورت مارچ کی حمایتی خواتین ”ننگی ہونا چاہتی ہیں“ اور اس کے حامی مرد ”بے غیرت اور اپنی بہنوں کے دلال ہیں“ یا ”اپنی ہی بہن بیٹیوں سے ہی جنسی اختلاط کی آزادی چاہتے ہیں“ ایسا نہیں ہے بالکل نہیں ہے۔ عورت مارچ کی حمایت کرنے والے مرد اپنی بہن اور بیٹیوں کے لیئے بس ایک محفوظ و مامون معاشرہ چاہتے ہیں۔
پرفارمنگ آرٹ اور سینیما مزاحمتی تحاریک میں سب سے طاقتور ہتھیار کے طور پر کام کرتا ہے۔ یہ جابرانہ نظام کو پوری قوت سے چیلنج کرنے اور جھنجھوڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اگر آپ کو پدرسری سماج میں خواتین کے استحصال والی بات سمجھ نہیں آتی تو بھارتی سینما کی چند فلمیں ضرور دیکھیں جیسے کہ مادھوری ڈکشت کی ”لجا“، رادھیکا آپٹے کی ”پریچد“ اور حال ہی میں بھارتی سماج میں ہلچل مچانے والی ملیالم زبان کی فلم ”دی گریٹ انڈین کچن“ دیکھیں۔ آپ سمجھ جائیں گے کہ کیسے یہ پدرسری سماج ایک بچے کی بطور ولن پرورش کرتا ہے اور آخر کار وہ بچہ ایک متشدد قسم کا مرد بن کر سامنے آتا ہے۔ اس حوالے سے دنیا بھر میں مذہبی انتہا پسندی پر مبنی فلمیں بھی بنائی گئی ہیں۔ مرد و خاتون سماج اور خاندان کی بنیادی اکائیاں ہیں۔ پاکستان کی کل آبادی کا نصف خواتین ہیں۔ ایسی صورتحال میں اگر خواتین آپ کے سامنے اپنے حقوق اور مسائل کی باتیں رکھتیں ہیں تو انہیں یکسر رد کرنے کے بجائے یا ان پر متعصبانہ رائے دینے کے بجائے انہیں غور سے سنیں۔