خواتین کے حقوق اور مذہبی غنڈہ گردی
مہناز اختر
مائی باڈی مائی چوائس، میرا جسم میری مرضی یا یوں کہہ لیں کہ ”ساڈا حق ایتھے رکھ“ فیمن ازم کا نعرہ ہے۔ یہ نعرہ خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیئے لگایا گیا تھا۔ اس کا بنیادی مقصد خواتین کے ذاتی اختیارات کے حوالے سے مرد جتنی خودمختاری کا حصول تھا اور ہے۔ یہ نعرہ امریکہ اور مغربی ممالک سے سفر کرتا ہوا پاکستان پہنچ گیا ہے۔ اسی نعرے کی بدولت پاکستان میں کئی سالوں سے عالمی یوم خواتین دھوم دھام سے سرکاری طور پر ٹی وی اور مختلف سیمیناروں میں منایا جاتا ہے۔ میں کئی سالوں سے پاکستانی خبرنامہ میں اس دن کے حوالے سے محترمہ فاطمہ جناح یا بے نظیر بھٹو کو خراج تحسین پیش ہوتا دیکھتی آئی ہوں۔ بات آئی اور گئی، اللہ اللّٰہ خیر صلی یا کبھی کبھی مزدور خواتین کے مسائل پر کوئی رپورٹ پیش کردی جاتی یا یہ دکھایا جاتا کہ پاکستانی خواتین ہر شعبہ زندگی میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کررہی ہیں۔ یوں یہ دن بڑے ہی پرامن طریقے سے گزر جایا کرتا تھا۔
وہ تو ”خدا غارت کرے“ عورت مارچ والیوں کو کہ جنہوں نے 2018 سے پاکستان میں بروز 8 مارچ عورت مارچ کا انعقاد کرنا شروع کیا۔ اس مارچ میں پہلی بار خواتین کے حوالے سے اختیار کیئے جانے والے شرمناک روئیے اور روایات کی مخالفت بڑے بے باکانہ انداز میں کی گئی اور بس پھر کیا تھا۔ روایات اور مذہبی بھنگ کا مارا لاشعور طبقہ لٹھ لے کر خواتین کے حقوق پر بات کرنے والوں پر چڑھ دوڑا۔ بہتر تویہ ہوتا کہ ان نعروں اور احتجاج کو سنجیدگی سے لیا جاتا لیکن اس معاملے میں نفیس مردوں کی اکثریتی چپ نے غلیظ مردوں کو شہہ دی اور وہ خواتین کو ”ڈک پک بھیجنا “ اپنا ادھیکار سمجھنے لگے۔ ہر جدت پسند اور جمہوریت پر یقین رکھنے والی خاتون بدکردار قرار دی گئی اور ہر بدکردار مرد معصوم قرار پایا۔
خیر یہ تو بس تمہید تھی بتانا یہ مقصود تھا کہ مائی باڈی مائی چوائس کا مطلب ہر جگہ یہی تھا کہ خواتین کو ان کے ذاتی معاملات میں خود اختیار بنایا جائے۔ خواتین کے جنسی معاملات، ازدواجی زندگی اور بچہ پیدا کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ خود خواتین کریں یا خواتین کی مساویانہ مشاورت سے کیا جائے۔ یہ بات تو ماننی پڑے گی کہ پاکستانی خواتین فی الحال انفرادی جمہوری حقوق نہیں رکھتیں حتی کہ ان کا مطالبہ بھی جرم ٹہرا دیا گیا ہے۔ جب جب خواتین اپنے انفرادی جمہوری حقوق کا مطالبہ کرتی ہیں اسلام کا نام لے کر انہیں شرم دلائی جاتی ہے اور معاشرے میں بدنام کیا جاتا ہے۔ آزادی کو بے حیائی کے معنی پہنا کر عوام کی برین واشنگ کی جاتی ہے۔ یوں گلی نکڑ کا ہر آوارہ لونڈا ”الرجال قوامون علی النساء“ کے تحت خود کو تمام خواتین کا چوکیدار اور ٹھیکے دار سمجھتا ہے۔
سوال یہ ہے ”اسلام نے چودہ سو سال پہلے ہی خواتین کو تمام حقوق دے دئیے ہیں“ کا کلمہ پڑھنے والی اکثریت کیا خود خواتین کو ان کے انفرادی جمہوری حقوق دیتی ہے؟ ہوسکتا ہے کہ آپ یہ کہیں کہ یہاں مردوں کو کون سے حقوق مل رہے ہیں جو آپ صرف خواتین کی بات کرتیں ہیں۔ یقین مانیے کہ میں آپ کے جواب سے صد فیصد متفق ہوں لیکن مرد اور ان کے حقوق کے درمیان صرف ریاست اور معاشی مافیاز حائل ہیں مگر خواتین اور ان کے حقوق کے درمیان تو ریاست، معاشی مافیاز اور خود معاشرہ حائل ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ بنیادی انسانی حقوق اور انفرادی حقوق دو علیحدہ موضوعات ہیں۔
پاکستانی آئین کی بات نہ کرتے ہوئے بتاتی چلوں کہ فی الحال ہندوستان کا سیکولر آئین شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق اور انفرادی حقوق دونوں کا احترام کرتا ہے اور اسے تحفظ دیتا ہے اسی تحفظ کے احساس کے تحت کرناٹک کی مسکان بھگوا رنگ مفلر پہن کر غنڈہ گردی کرنے والوں کے سامنے ڈٹ گئی تھی اور اسی تحفظ کے تحت مسکان سے پہلے کرناٹک کی چھ حجابی طالبات نے عدالت میں یونی فارم کوڈ کے تحت تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی عائد کیئے جانے کے ممکنہ ریاستی اقدام کے خلاف پٹیشن دائر کی تھی۔ آپ کو شرم آئی ہو یا نہ آئی ہو لیکن مجھے تو ضرور آئی جب جنوبی ہندوستان کے نامور سیاسی رہنما اور قانون دان اسد الدین اویسی نے پاکستان کو ملالہ کا نام لے کر شرم دلائی اور خود مسکان نے بھی پاکستان کو اس کے معاملے میں ٹانگ اڑانے سے منع کیا۔ ہم مانیں یا نا مانیں لیکن ہندوستان کے بیس کروڑ مسلمان سیکولر ہندوستان کے آئیڈیا پر یقین رکھتے ہیں اور مولانا آزاد کو اپنا آئیڈیل مانتے ہیں۔ یقین مانیئے کہ پوری دنیا کے مسلمان اب ”پاکستانی اسلام“ سے برأت فرما چکے ہیں بس ہم پاکستانیوں کو ہی لگتا ہے کہ جنت کا راستہ پاکستان سے ہوکر گزرتا ہے۔
میں کرناٹک کی مسکان یا دوسری بھارتی حجابی طالبات سے زبردستی حجاب چھیننے کہ اتنے ہی خلاف ہوں جتنا پاکستان یا افغانستان میں تعلیمی اداروں میں زبردستی حجاب پہننانے کے۔ آج کل ہندوستان میں ایک غیر سرکاری لیکن آفیشل مؤقف سامنے آرہا ہے کہ حجاب، برقع یا دیگر اسلامی روایات کے نام پر مسلمان خواتین کا استحصال کیا جاتا ہے اور نتیجتاً ترقی کی دوڑ میں وہ دیگر آزاد خواتین سے پیچھے رہ جاتی ہیں، پردے کے نام پر مسلمان خواتین سے ان کی شناخت اور شخصی آزادی چھین لی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم مسلمان پاکستان یا افغانستان میں اسی قسم کا مذکورہ استحصال نہیں کرتے یا اس کی حمایت نہیں کرتے؟
پاکستان میں خواتین کے حقوق غصب کرنے والے اور خواتین کو زبردستی حجاب یا پردے پر مجبور کرنے والے اکثر مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والی اور اسلام قبول کرنے والی خواتین کی مثالیں دیتے نظر آتے ہیں۔ ایسے حضرات سے سوال ہے کہ کیا آپ نے اپنی خواتین کو یہ حق دیا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے جو چاہیں مذہب اختیار کریں اور جس سے چاہیں شادی کریں؟ ہاں لیکن مغربی ممالک یہ حقوق اپنی خواتین کو دیتے ہیں اور ہندوستان کا سیکولر آئین بھی، تبھی مسکان نے ڈنکے کی چوٹ پر مذہبی غنڈوں کے سامنے اپنی شناخت پر اصرار کیا۔ مسکان کا معاملہ ریاستی اور آئینی ہے اسے بلاوجہ امت کا مسئلہ بنانے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ بیس کروڑ سے زائد ہندوستانی مسلمان سیکولر ہندوستان کی سیکولر روایات کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں کیونکہ بغل میں پاکستان نامی تجربہ گاہ کا حشر ان کے سامنے ہے۔ وہ یہ جانتے ہیں کہ ہندوستانی آئین ہر شہری کو، برابری، آزادی، مذہبی آزادی، روایت اور کلچر پر عمل کرنے کی آزادی، مذہب کی تبدیلی یا اختیار کرنے یا نا کرنے کی آزادی، اور اپنی مرضی سے شادی کی آزادی، بلا امتیاز نسل، جنس اور مذہب دیتا ہے پھر چاہے بھگوا روپ دھارے مذہبی غنڈے اقتدار پر قابض ہی کیوں نہ ہوں۔
واضح رہے کہ میں مسکان کی حمایت اس کے حجاب یا ”اللہ اکبر“ کے نعرے کی بنیاد پر نہیں کررہی بلکہ میں تو اس بات پر اسے داد دیتی ہوں کہ اسے اپنے جمہوری حقوق کا ادراک ہے۔ جس طرح چند سال پہلے کیرالہ کی چوبیس سالہ اکھیلا اشوکن نے اپنی مرضی کا استعمال کرتے ہوئے اسلام قبول کیا، مسلمان نوجوان سے شادی کی اور خاندان اور معاشرے کی بے انتہا مخالفت کے باوجود اپنا حق ریاست سے وصول کیا مجھے پوری امید ہے کہ مسکان سمیت ہندوستان کی تمام حجابی خواتین ریاست سے اپنا حق وصول کر لیں گی۔
آپ کہتے ہیں کہ دین میں جبر نہیں تو پھر کیوں اپنے ملک میں خواتین کو زبردستی حجاب پہنانے کی حمایت کرتے ہیں، سوال تو یہ ہے اور سوال تو یہ بھی ہے کہ مذہب چاہے جو بھی لیکن اس کا پیروکار مرد خواتین کو اس بات کی آزادی کیوں نہیں دیتا کہ وہ کون سا لباس پہننا چاہتی ہیں اور کس کے ساتھ شادی کرنا چاہتی ہیں۔
میرے پاس ان سارے سوالوں کے جواب ہیں، کیا آپ کے پاس ہیں؟