“خیبرپختونخواہ ایکشن ان ایڈ آف سول پاور آرڈیننس” بے لگام اختیارات و خدشات

عابد حسین

فروری سنہ 2008 میں اس وقت کی عسکری قیادت کے اصرار پر وفاقی حکومت کی جانب سے (ایکشن ان ایڈ آف سول پاور 2011 آرڈیننس) کا ایکٹ لایا گیا۔ آصف علی زرداری نے ستمبر  2008 میں پاکستان کے گیارویں صدر کی حثیت سے حلف لیا۔ آصف علی زرداری کی صدارت کے اوائل میں ملک کی اندرونی سکیورٹی صورتحال بگاڑ کا شکار تھی۔ اب کی طرح ایک طرف تو افغانستان کے حالات کی وجہ سے جبکہ دوسری طرف سوات سمیت قبائلی علاقاجات میں بھی امن کے حوالے سے دگرگوں حالات کا سامنا تھا۔  مالاکنڈ ڈویژن میں بلعموم اور سوات و دیر میں بلخصوص امن و امان کےحوالے سے صورتحال بری تھی۔ ملک کی سکیورٹی صورتحال کے پیش نظر صدر مملکت نے آئین کے آرٹیکل 247 کی شق 4 کے تحت ایک (ایکشن ان ایڈ آف سول پاور ایکٹ 2011 ) کے قانون کی منظوری دی۔ یہ قانون خیبر پختونخواہ اور وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقاجات، پاٹا اور فاٹا  میں نافذ کیا گیا۔ اس قانون کی رو سے مسلح افواج اور سول سکیورٹی اداروں کو یہ اختیارات تفویض کیئے گئے تھے کہ ملک کے اندر دہشت گردوں کی معاونت کرنے والوں یا دہشت گردی میں ملوث افراد کی جائیداد ضبطگی, مکانات کو مسمار کرنے, علاقہ بدر کرنے یا گرفتار کرنے کے مجاز ہونگے اور ان کو قانون کے مطابق سزا دلائی جائے گی۔

مذکورہ قانون کے باب 6 کے مطابق عسکری اور سول سکیورٹی اداروں کو اس بات کا پابند بنایا گیا ہے کہ کسی بھی بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہ ہو اور نہ کسی بے گناہ کو کسی قسم کا نقصان یا تکلیف پہنچے۔  کسی کو بھی دہشت گردی یا ریاست کے خلاف کام کرنے, دہشت گردوں کی مدد کرنے پر اس کو خبردار کیا جائے- اور سول انتظامیہ کی مدد سے انکے خلاف کاروائی کی جائے اور اگر مسلح افواج اور سول سکیورٹی اداروں کی جانب سے کسی بھی قسم کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو متعلقہ اہلکار یا ادارے کے  خلاف کاروائی کی جائے گی۔ اب بات کرتے ہیں مذکورہ بالا قانون کے خیبر پختونخواہ میں نفاذ پر، 5 اگست 2019 کو خیبر پختونخواہ حکومت کی جانب سے (ایکشن ان ایڈ آف سول پاور آرڈیننس 2019) کے قانون کی پورے خیبر پختونخواہ میں نفاذ کی منظوری دے گئی۔ یہ حکم گورنر خیبر پختونخواہ کی جانب سے جاری کیا گیا جو کہ سال 2008 میں صدر کی جانب سے صرف فاٹا اور پاٹا کے لیئے منظور کیا گیا تھا۔ اس قانون کی رو سے فوج اور سول اداروں کو اختیارات دئے گئے کہ وہ تمام خیبرپختونخواہ میں کسی بھی جگہ بغیر اجازت لئے، بغیر کسی وارنٹ کے کسی بھی گھر میں داخل ہوسکتی ہے، بغیر اجازت کسی بھی جگہ کی تلاشی لے سکتی ہے، کسی کو بھی بغیر وجہ بتائے  حراست میں لے سکتے ہیں اور 120 دنوں تک انہیں حبس بے جا میں رکھا جاسکتا ہے۔ کسی بھی الزام پر کسی کے گھر، مکان یا جائیداد کو ضبط یا مسمار کرسکتی ہے۔ بلکہ انہیں علاقہ بدر بھی کرسکتی ہے۔

اب جب کہ فاٹا خیبر پختونخواہ میں ضم ہوچکا ہے اور قبائلی علاقاجات قانونی طور پر خیبر پختونخواہ کا حصہ ہیں تو بجائے مذکورہ بالا قانون کو واپس لینے کے اسکو پورے صوبے میں نافذ کرنے سے مسائل مزید بڑھیں گے۔ خیبر پختونخواہ کے عوام کو عمومی اور قبائلی اضلاع کی عوام کو خصوصی طور پر شکوہ ہے کہ سکیورٹی فورسز اپنے حد سے تجاوز کرتی ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ فوج عوام کی نظروں میں اپنا وقار کھورہی ہے تو بے جا نہ ہوگا  کیونکہ حالات و واقعات بتاتے ہیں کہ فوج سے لوگ متنفر ہیں۔ پہلے فاٹا میں فوجی آپریشنز کی وجہ سے وہاں کا انفراسٹرکچر تباہ ہوگیا، کاروبار ختم ہوگئےاور لوگ بے گھر ہوگئے تھے اور بنیادی انسانی حقوق کی بھی خلاف ورزیاں کی گئیں تھیں۔ آپریشن کے نام پر بے گناہ لوگوں کے گھروں کو بھی مسمار کردیا گیا تھا۔ ماورائے عدالت قتل اور جبری گم شدگیوں کا مسئلہ بھی جوں کا توں ہے۔ پشتون تحفظ موومنٹ میں جوش اگرچہ نقیب محسود کے ماورائے عدالت قتل کی وجہ سے آیا تھا لیکن اگر دیکھا جائے تو اب اس تحریک کی توجہ کا مرکز سابق فاٹا اور خیبر پختونخواہ میں فوج کے ہاتھوں بے گناہ لوگوں کے ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیوں، غیراعلانیہ کرفیوں اور فوج کا اپنے حقوق مانگنے والوں کے ساتھ نفرت آمیز رویہ  ہے۔ 

ایک جمہوری ملک میں اس طرح کے اختیارات کی تفویض آمریت کا تاثر دیتی ہے۔ اگر خداناخواستہ ایسا وقت آتا ہے تو ویسے بھی فوج کو مدد کے لیئے بلایا جاتا ہے۔  فوج کا کام ملکی سرحدوں کو سنبھالنا ہے نہ کہ ملک کے اندرونی معاملات اور اس طرح کے اختیارات کا حصول ہے۔ سپریم کورٹ نے مسنگ پرسنز کے معاملے پر آئی ایس آئی کے سربراہ کو بلایا ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ جلد ازجلد مسنگ پرسنز کا معاملہ حل کیا جائے۔ وزیرستان کے علاقے خڑ کمر  کے واقعے کو دیکھا جائے تو جب وہاں کی عوام فوج کی نا انصافی کے خلاف احتجاج کررہی تھی اور اس علاقے کے منتخب اراکین اسمبلی پشتون تحفظ موومنٹ کے دوسرے کارکنوں کے ساتھ احتجاج میں شرکت کرنے کے لیئے آرہے تھے تو فوج نے ان پر گولی چلائی جس کی وجہ سے 13 افراد شہید ہوئے تھے۔ واقعے کے فوراً بعد محسن داوڑ اور علی وزیر پر دہشت گردی کا پرچہ کاٹ کر جیل بھیج دیا گیا تھا۔ کچھ دن پہلے ہی محسن داوڑ اور علی وزیر بے گناہ ثابت ہوکر باہر آئے ہیں۔ قومی اسمبلی میں محسن داوڑ نے اپنی تقریر کے دوران مطالبہ کیا تھا کہ خڑ کمر واقعے کی غیر جانبدار تحقیقات کی جائے اور جو مجرم ٹہریں انہیں سزا دی جائے لیکن کسی میں بھی ہمت نہیں ہے کہ فوج سے جواب طلبی کرے۔ 


مذکورہ قانون کی وجہ سے ایسے واقعات میں اضافہ ہوگا۔ جب فوج اور سول سکیورٹی اداروں کے اہلکار بغیر وجہ بتائے کسی کو اٹھائیں گے، پوچھ گچھ کے نام پر حبس بے جا میں رکھیں گے، کسی کے گھر میں بغیر اجازت گھس آئیں گے اور یہاں تک کہ اگر کسی کو قتل کرکے دہشت گرد قرار دے دیا جائے بھی تو قانون کے لبادے میں رہ کر وہ کسی کے آگے جواب دہ نہیں ہونگے۔ فاٹا میں اس قانون  کے ثمرات سے ہم سب بخوبی واقف ہیں کہ کس طرح مذکورہ قانون کی دھجیاں اڑائی گئی اور کس طرح دہشت گردوں کے خلاف آپریشن میں بے گناہ قبائلیوں کے گھر مسمار کئے گئے، بمباری کی گئی اور چادر اور چاردیواری کا تقدس پامال کیا گیا۔ ایک طرف دہشت گرد تھے جو بندوق کے زور پر قبائلی عوام کے سروں پر مسلط تھے تو دوسری جانب مسلح افواج نے آپریشن کے دوران یہ تمیز روا نہیں رکھی کہ کون مجرم ہے اور کون بے گناہ۔ اگر چہ(KPK Action in Aid of Civil Power Ordinance 2019) کے نفاذ کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں درخواست بھی دی گئی تھی کہ اس قانون کے نفاذ پر عملدرآمد روک دیا جائے لیکن تاحال پشاور ہائی کورٹ بھی کوئی حتمی فیصلہ نہ کرسکی۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما رضا ربانی، مسلم لیگ نون کے خاقان عباسی نے بھی اس قانون کی مخالفت کی تو دوسری جانب عوامی نیشنل پارٹی کے خیبر پختونخواہ اسمبلی میں منتخب پارلیمانی لیڈر سردار حسین بابک نے بھی اس قانون کو ختم کرنے پر زور دیا ہے۔  

اگر اس آرڈیننس کو سول انتظامیہ کی مدد کے لیئے نافذ کیا گیا ہے تو اسکی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ صوبے کا گورنر یا وزیر اعلی کسی بھی وقت سکیورٹی خدشات کے بناء پر وفاقی حکومت سے مدد مانگ سکتا ہے یا فوج بلاسکتا ہے یا اگر خدا ناخواستہ  کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آتا ہے تب بھی سول انتظامیہ اور پولیس کی مدد کے لیے فوج بلائی جاسکتی ہے۔