دوکہانیاں
عبدالرؤف خاں
آج میں آپکو دو کہانیاں سُنانے جا رہا ہوں ان کہانیوں سے کسی بھی قومی سیاست دان کی مماثلت محض اتفاقیہ ہوگی۔
پہلی کہانی:
کسی گاؤں میں ایک کمہار رہتا تھا جس کے ہاتھوں کی کاریگری کی پورے مُلک میں میں بہت شہرت تھی، اُس کے بنائے گئے برتن خوبصورتی کا مُجسم تھے اور فن وآرٹ کا بہترین نمونہ۔ جب بھی وہ نئے برتن بناتا فوری طور پر وہ بک جاتے۔ گاہکوں کی لمبی لائن ہر وقت لگی رہتی۔ ایک دن ایک بزرگ اُس کمہار کے پاس گئے اور کہا کہ آپکے کاریگر ہاتھوں کی بہت شہرت سُنی ہے مجھے کوئی علم کی بات بتائیں کہ اس میں ایسا کونسا راز پوشیدہ ہے۔ کونسی ایسی خاص بات ہے کہ جس نے آپ جیسے ایک عام انسان کو شہرت کی بُلندیوں تک پہنچا دیا ہے۔ کمہار کہنے لگا کہ اللہ نے مجھے خوبصورت آنکھ دی ہے میں دُور دُور کا سفر کرتا ہوں اور بہت اچھی قسم کی مٹی تلاش کرتا ہوں، اُسے سلیقے سے گوندھتا ہوں۔ مٹی کو اُس وقت تک نرم کرتا ہوں جب تک کہ وہ اچھی طرح سے گندھ نہ جائے۔ اللہ نےمجھے خوبصورت ہاتھ دئیے ہیں جن سے میں برتنوں کو تراشتا ہوں۔ اپنی خوبصورت نظر کی بدولت میں اِن برتنوں میں کسی قسم کی ٹیڑھ اور نقص پیدا نہیں ہونے دیتا۔
بُزرگ کہنے لگے پھر اصلی کمال تو اُس اچھی اور خاص قسم کی مٹی کا ہے جو آپ بہت دُور سے تلاش کرکے لاتے ہیں ۔ اگر مٹی ہی خراب ہو تو اُس کے بنائے گئے برتن کیسے اچھے ہوسکتے ہیں؟ ہمارے مُلک کے ایک سیاست دان گندی قسم کی مٹی سے نئے پاکستان کی بُنیاد رکھنے جا رہے ہیں وہ یہ بات بھول رہے ہیں کہ گندی مٹی سے سے کبھی بھی نفیس برتن نہیں بن سکتے۔ پچھلے چالیس سال میں پاکستان کی ہر حکومت کا حصہ بننے والے، جن کی آنکھوں کے سامنے اس وطن کی پائی پائی لوٹ لی گئی اور وہ اپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھتے رہے اور اُسی کرپشن کا حصہ بنے رہے۔ میرے یہ محترم سیاست دان یہ بات کیوں نہیں سمجھ رہے کہ گندی مٹی سے نیا پاکستان بنا کر کسے دھوکہ دینے جارہے ہیں؟
دُوسری کہانی:
اس کہانی کا تعلق بھی ایک کمہار سے ہے۔ کمہار اپنی بیوی اور بیٹی کے ہمراہ رہتا تھا۔ کمہار کے پاس ایک چھوٹا سا بچہ شاگرد کی صورت میں آگیا جوسارا دن کمہار کے ساتھ برتن بنانا سیکھتا اور مدد کرتا پھر رات کو باہر احاطے میں سوجاتا تھا۔ کمہار کی بیوی ہر روز صبح کو چار چھتر مار کر کمہار کو جگاتی اور سارا دن اُسے کوستی رہتی۔ کمہارکی ایک ہی بیٹی تھی کمہار نے ایک دن اپنی بیوی سے کہا کہ یہ جو میرا شاگرد ہے اچھا اور شریف لڑکا ہے اب ہماری بیٹی جوان ہوچکی ہے کیوں نہ اسکے ساتھ ہی اپنی بیٹی کی شادی کردیں۔ کمہار کی بیوی نے اتفاق کیا۔ کمہار نے لڑکے کو بُلایا اور کہا کہ میں تمہیں ایک عرصے سے جانتا ہوں اور تمہاری شرافت اور سعادت مندی کا دلی طور پر قائل ہوں۔ میری ایک ہی بیٹی ہے چاہتا ہوں کہ تم اُس سے شادی کرلو۔ شاگرد نے نظریں جھکا کر کہا کہ اس سے بڑی خوش نصیبی کی کیا بات ہوسکتی ہے۔ میں راضی بہ رضا ہوں۔ لیکن میری ایک شرط ہے۔ کمہار پوچھنے لگا کیسی شرط؟
شاگرد کہنے لگا کہ مجھے جہیز میں ایک تلوار، ایک گدھا، ایک بکری اور ایک مُرغی چاہیے۔ اور میں دوسرے گاؤں میں رہوں گا اور وہیں پر کام کروں گا۔ کمہار اس شرط پر بہت خوش ہوا اور فوری راضی ہوگیا۔
آخر شادی کا دن آن پہنچا، شاگرد نے ساتھ والے گاؤں میں ایک مکان لیا اور اپنی بیوی کو اُس کے جہیز سمیت گھر کی جانب روانہ ہوا۔ راستے میں بکری نے ادھر اُدھر منہ مارنا شروع کردیا۔ شاگرد نے غصے سے تلوار ہاتھ میں پکڑ کر دو دفعہ بکری کو منع کیا کہ آرام سے سیدھی چلو اور ادھر اُدھر منہ مت مارو۔ لیکن بکری نے ایک نہ سُنی، آخر تیسری دفعہ تلوارکے ایک وار سے بکری کا سر تن سے جدا کردیا اور کہا کہ جو میری بات نہیں مانےگا اُس کا حال ایسا ہی ہوگا۔ پھر یہی کچھ مرغی کے ساتھ ہوا اور مرغی کو بھی اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ بیوی یہ سب دیکھ کر سہم گئی۔ اور یوں دونوں ہنسی خوشی رہنے لگے۔
کمہار کئی دفعہ ارادہ کرتا کہ جاؤں اور دیکھوں کہ اُسکی بیٹی اور داماد کیسے ہیں لیکن یہ سوچ کر خود کو روک لیتا کہ میری بیٹی کی ساری تربیت میری بیوی نے کی ہے، جو سُلوک اس گھر میں میرے ساتھ ہورہا ہے وُہی سُلوک میرے داماد کے ساتھ میری بیٹی کررہی ہوگی۔ نہ جانے میری بیٹی اُس شریف آدمی کے ساتھ کیسا سُلوک کررہی ہو؟ کیا جانا ہے ایسے ہی شرمندگی اُٹھانا پڑے گی۔ کمہار ہر دفعہ ارادہ کرتا اور شرمندگی کے ڈر سے جانے کا ارادہ ترک کردیتا۔
آخر ایک دن جی کڑا کر کے کمہارساتھ والے گاؤں کی طرف چل دیا اور سیدھا اپنی بیٹی کے گھر جا پہنچا۔ گھر میں پیار محبت کے فروغ اور میاں بیوی کے آپس میں حُسن سُلوک کو دیکھ کر کمہار کی آنکھوں میں پانی بھر آیا۔ اپنے داماد کو باہر لے گیا اور پوچھنے لگا کہ اے اللہ کے نیک بندے یہ تمہارے گھر میں پیار، محبت اور تمہاری بیوی کی فرمانبرداری کا راز کیا ہے؟ شاگرد نے پہلے دن کی ساری کارگزاری سُنا دی۔ کمہار کہنے لگا کہ اب مجھے بھی تو بتاؤ میں اپنی بیوی کے ساتھ کیا کروں؟ کہ وہ بھی میری فرمانبردار بن جائے۔ شاگرد کہنے لگا کہ اب اُسے سدھارنا بہت مشکل ہے۔ کمہار بضد ہوگیا کہ نہیں کچھ تو حل سوچو۔
شاگرد نے چند مٹی کے برتن اُس کے سامنے رکھے اور کہا کہ انہیں توڑو، کمہار نے توڑ دئیے۔ کہا کہ اس مٹی کو دوبارہ گوندھو اور نئے برتن بناؤ۔ کمہار کہنے لگا یہ تو ممکن نہیں ہے۔ شاگرد کہنے لگا کہ اُستاد اسی لیے کہ رہاہوں کہ جو برسوں کے بگڑے ہوئے ہوں وہ اتنی جلدی ٹھیک نہیں ہوسکتے۔ پرانے سانچے سے نئے مال کی امید بالکل ایسے ہی ہے جیسے گدھے کے ہاں زیبرا کی پیدائش۔
اب برسوں کے بگڑے سیاست دان تبدیلی لانے کے لیے تحریک انصاف میں دھڑا دھڑ شمولیت اختیار کررہے ہیں بھلا برسوں کے بگڑے، کرپشن میں لتھڑے، پچھلے تیس سال میں پاکستان کو تباہی کے دہانےپر پہنچانے میں مکمل حصہ دار یہ سیاست دان کیسے نئے پاکستان کی بُنیاد رکھ سکتے ہیں؟
جن سیاست دانوں پر بار بار باریاں لینے کا الزام خان صاحب لگا رہے ہیں اب وہ سارے تحریک انصاف میں شامل ہیں، اُن پارٹیاں بدلنے والوں کی موجودگی کا کیا اخلاقی جواز ہے؟ خان صاحب بھی سیاسی یتیموں اور لوٹوں کی ٹیم سے نئے پاکستان کی بنیاد رکھنے کے دعوے کر رہے ہیں اور اپنی اس ٹیم کو ایک بہترین ٹیم کی صورت میں قوم کےسامنے پیش بھی کررہے ہیں۔ جو لوگ کل مُسلم لیگ ن، مسلم لیگ ق اور پیپلز پارٹی میں مرکزی حیثیت رکھتے تھے وہ سب آج تحریک انصاف کا حصہ ہیں تو یہ سارے لوگ کس قسم کی تبدیلی لا سکتے ہیں؟ افسوس جو خود کو بدل نہیں سکتے وہ چلے ہیں اس ملک کو تبدیل کرنے۔ حقیقت یہی ہے کہ تبدیلی ٹرک کی ایک بتی کا نام ہے جس کے پیچھے بے وقوفوں کو لگا رکھا ہے۔
ہماری آنکھوں کے سامنے اسی اسٹیبلشمینٹ نے ق لیگ کے غبارے میں خوب زور سے ہوا بھری اور ایسے ایسے لوگ ق لیگ کا حصہ بنے جو اپنی سیٹیں ہر صورت جیتتے تھے۔ وہ لوگ کسی بھی پارٹی کا حصہ بن جائیں، اپنے حلقہ میں اُن کا اتنا اثر ہے کہ وہ الیکشن جیتنے کا ہُنر جانتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کی بدولت ق لیگ کی حکومت بنی۔ پھر اس غبارے میں ہوا بھرنے والوں کی نگاہِ انتخاب ق لیگ سے ہٹ کر تحریک انصاف پر جا ٹھہری اور اب وُہی لوگ تحریک انصاف کا حصہ بن چکے ہیں۔ تحریک انصاف کا مطمع نظر عوام نہیں بلکہ خواص ہیں۔ اقتدار کے حُصول کی جدوجہد میں ایسے ایسے غیر جمہوری رویے اختیار کیے جارہے ہیں کہ جس کی اُۘمید ملک کی تیسری یا دوسری بڑی پارٹی سے قطعی طور پر نہیں رکھی جاسکتی۔ تحریک انصاف کی جهولی جب تک دوسری پارٹیوں کے ہمیشہ الیکٹ ایبلز اُمیدواروں کی سمت منہ کر کے پهیلی رہے گی اور وقتاً فوقتاً اس میں بوسیده پهل پهول گرتے رہیں گے۔ تو خود تحریک انصاف کبهی بهی ایک سایہ دار درخت کی شکل اختیار نہیں کر پائے گی کہ جس سے اس ملک کو یا اس میں بسنے والے لوگوں کو راحت نصیب ہو۔