دہشت گردی!

صہیب حسن

ملکِ خداد کی ازل سے یہ بدقسمتی رہی ہے کہ ایک بحران سے نکلتا نہیں کہ دوسرا بحران منہ کھولے انتظار میں کھڑا ہوتا ہے، انہی مسائل کی فہرست میں ایک مسئلہ جو ایک عرصہِ دراز سے اس ملک کی سرحدوں کے اندر گھر کر گیا ہے وہ “دہشتگردی” ہے، پاکستان کی تاریخ کا پہلا دہشتگرد واقعہ 16 اکتوبر سن 1951 کو کمپنی باغ (راولپنڈی) میں پیش آیا جب ملک کے پہلے وزیرِ اعظم کو قتل کر دیا گیا، اس واقعے کے بعد دہشتگردوں کی ان گنت کاروایاں ہوئیں اور وطنِ عزیز آج تک ڈٹ کے ان کا مقابلہ کر رہا ہے۔

سوال اٹھتا ہے کے آخر کب تک پاکستان اس کا مقابلہ کرتا رہے گا، آخر کب ایک مکمّل حل تلاش کیا جائیگا، آخر کب تک عوام کفن اٹھاتی رہے گی، آخر کب تک نوجوان شہید ہوتے رہیں گے، انہی سوالوں کے جواب میں سن 2000 کے بعد آنے والی بدترین دہشتگردی کی فضا کو مدِنظر رکھتے ہوئے ملک میں خصوصاً بلوچستان میں 15 جون 2014 کو آپریشن کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس کے تحت ملک میں چھپی دہشتگرد تنظیموں کو ختم کرنا تھا، اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے “آپریشن ضربِ عضب” کے نام سے آپریشن شروع کیا اور دہشتگردوں کے محفوظ ٹھکانوں کو ختم کیا جس میں تحریکِ طالبان اور لشکرِ جھنگوی جیسی جماعتیں تھیں (یاد رہے لشکرِ جھنگوی کو عام انتخابات 2018 کے لیے الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی گئی ہے) ملک میں امن و امان کافی حد تک برقرار رہنے لگا۔

پھر 16 دسمبر 2014 کا وہ علمناک دن آیا جب پشاور کے اے-پی-ایس اسکول میں صبح 8:30 بجے 150 سے زائد نونہالوں کو چند درندوں نے لمحے بھر میں موت کے گھاٹ اتار دیا، ملک میں افراتفری اور سوگ کا عالم تھا گویا والدین نے قیامت سے پہلے قیامت کے منظر محسوس کر لیے تھے، (بہت ممکن ہے کہ یہ کاروائی ضربِ عضب کے ردِ عمل کا نتیجہ تھی) 6 گھنٹے کے سر توڑ آپریشن کے بعد سارے دہشت گرد کو مار دیا گیا، یہ وہی وقت تھا جب سزاِ موت سے پاکستان میں پابندی اٹھا لی گئی، اور پھر باقاعدہ فوجی عدالتوں کے تحت مجرمان کو سزاِ موت دی گئی اور اس پہ عمل درآمد اب بھی جاری ہے۔ اس واقعے کے بعد بھی بہت سی دہشت گرد کاروایاں ہوئیں جو آپریشن ضربِ عضب کا ردِ عمل سمجھی جاتی رہیں لیکن یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب آپریشن پورے زور و شور سے جاری تھا تو یہ دہشت گرد کاروایاں کیسے ہو رہیں تھی، گمان تھا کہ سرحد پار سے کاروایاں کنٹرول کی جا رہی ہیں، خیر عوام نے صبر سے کام لیا۔

سانحہِ اے- پی-ایس کے بعد دہشتگردی کی ایک اور لہر اٹھی اور آئے دن خبروں میں دھماکوں کی سرخی چلتی، کبھی پاراچنار کے بازاروں میں دھماکہ ہوجاتا، کبھی کوئٹہ میں وکلاء کے سوگ کے بیچ، کبھی سندھ اس کی لپیٹ میں آجاتا تو کبھی کراچی میں امجد صابری کو دن دہاڑے قتل کر دیا جاتا، کبھی کوئٹہ میں فرنٹیئر کورپس کی گاڑی سے خودکش بمبار ٹکرا جاتا تو کبھی لال شہباز قلندر کے مزار پہ 100 سے زائد لوگ خود کش دھماکے میں شہید ہوجاتے، کبھی باچا خان یونیورسٹی میں دہشتگرد حملہ ہوتا تو کبھی لاہور میں دھماکہ، اسی دوران بلوچستان سے کلبھوشن یادو (ہندوستانی ایجنسی کا نمائندہ) گرفتار کیا گیا جس نے بیشتر مقامات پہ دھماکوں کی زمہ داری قبول بھی کی، گویا ہر ایک دو دن بعد یہی دھماکوں کی خبریں آتی اور عوام کسی لاوارث قوم کی طرح اپنے پیاروں کو مٹی کی آغوش میں دے آتے اور پھر اہلِ خانہ اپنے پیاروں کے قتل کی وکالت کے لیے آئے روز عدالتوں کے چکّر کے درمیان اپنی سسکیوں کو چھپکے سے دبا دیتے۔ لہذا آپریشن ضربِ عضب پہ خرچ ہونے والے 1 عرب سے زائد روپے اور 500 کے قریب شہید ہونے والے فوجی جوانوں کا خون رائیگاں جاتا نظر آرہا تھا۔

فروری 2017 میں قمر باجوہ نے دوسرا آپریشن، “آپریشن رد الفساد” لونچ کیا، جس کے تحت دہشتگرد کے موجود باقی ٹھکانے اور شہری علائقوں میں موجود ٹھکانوں کو ختم کرنا تھا لہذا یہ آپریشن بھی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جاری رہا، اور واپس دہشتگردی کی لہر تھم گئی، اسی دوران کلبھوشن یادو کا کیس بھی چلتا رہا سزاِ موت سنائی اور وہ آج تک جیل میں سڑ رہیں ہیں۔ آپریشن رد الفساد سے لیکر آج تک کے دورانئے میں بھی ان گنت دہشتگرد کاروایاں ہوئیں لیکن ہر سانحے میں کمیشن بنتا، رپورٹ تیار ہوتی لیکن کبھی اصل مجرمان تک قانون کے لمبے ہاتھ نہ پوھنچتے۔

انہی حالات کی کش مکش میں 2018 کے عام انتخابات آگئے، تمام جماعتیں اپنی اپنی الیکشن کمپین میں مصروف تھی امن و امان کا ماحول تھا کہ اچانک اے-این-پی کی کارنر میٹنگ میں دھماکہ کی خبر آئی، اے-این-پی کے سینئر رہنما ہارون بلور شہید ہوگئے، ( ذمہ داری طالبان نے قبول کرلی)، پھر جے-یو-آئی (ف) کے امیدوار اکرم خان درانی کی گاڑی کے قریب دھماکہ ہوا، اسی طرح مستونگ میں بھی دھماکہ ہوا جس میں 150 افراد شہید ہوئے جس میں نوابزادہ سراج رئیسانی بھی شہید ہوئے، مختصراً اکثریت دھماکے الیکشن کمپین میں یا ان کے دوران ہوئے۔

مندرجہ بالا کاروایوں سے ایک سوال ہی اٹھتا کہ جب اربوں روپے اور سیکڑوں جوان شہید ہوگئے تب بھی اس پریشانی سے ملک کو نجات کیوں نہ مل سکی، جب ہر بار دہشتگردی کی کمر توڑ دی جاتی ہے تب ہی کیوں اچانک دہشتگردی واپس سر اٹھاتی ہے، جیسا کہ ابھی الیکشن کمپین میں دھماکے جاری ہیں، شاید اب ضروری ہے کہ احسان اللہ احسان اور کلبھوشن جیسے دہشتگردوں کو لٹکایا جائے، اپنی حکمتِ عملی پہ غور کیا جائے، اور اس مسئلے پہ مستقل قابو پایا جائے، ورنہ ہماری آنے والی نسلیں اس کا شکار ہوں گی۔