زمان بابا کی ڈائری
قاضی نوید اختر
ایک دفعہ کا ذکر ہے افریقہ کے جنگلات میں لگ بھگ چار ہزار سال پہلے زمان بابا رہا کرتا تھا۔ زمان بابا ایک لکڑہارا تھا۔ دن بھر لکڑیاں کاٹا کرتا اور رات ہونے سے پہلے ان لکڑیوں کو بیچ کر اپنے گھر کے لئے راشن خرید کر گھر چلا جاتا۔
غربت اور تنگدستی میں دن یوں ہی کٹ رہے تھے کہ ایک دن لکڑیاں کاٹتے ہوئے اس کی نظر ایک بہت بڑے بیگ پر پڑی، بیگ آدھا زمین میں دھنسا ہوا تھا، زمان بابا کو تجسس ہوا کہ اس میں کیا ہوسکتا ہے، اس نے زمین کو کھود کر بیگ کو باہر نکالا، اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کیونکہ بیگ ہیرے جواہرات اور اشرفیوں سے بھرا ہوا تھا۔ کافی دیر سوچ بچار کرنے کے بعد زمان بابا نے ڈاکوؤں کے ڈر سے اس مال کو گھر لے جانے کے بجائے چھوٹے چھوٹے سینکڑوں حصوں میں تقسیم کر کے جنگل کے مختلف حصوں میں دفنا دیا۔ اور کاغذ کے ٹکڑے اکھٹے کر کے، ہر ٹکڑے پر ان جگہوں کی تفصیل لکھ دی جہاں پر اس نے مختلف حصوں کو دفن کیا تھا۔ پھر اس نے کاغذ کے ان مختلف ٹکڑوں کو سلائی کر کے ڈائری کی شکل دے دی اور ڈائری کو جیب میں ڈال کر گھر چلا گیا۔
پھر اسے جب کبھی مال کی ضرورت پڑتی اس ڈائری کے ذریعے مال کے ایک حصے کو تلاش کرتا اس میں سے تھوڑا سا مال نکالتا اور اپنی ضرورت پوری کر لیتا۔
اس خیال سے کہ اس کے بیوی بچے اس مال کو ضائع نہ کر دیں، اس نے یہ راز ان سے بھی چھپا کے رکھا۔
پھر یوں ہوا کہ ایک دن اچانک اس کے سینے میں شدید درد سا اٹھا کچھ ہی دیر میں اس کی موت واقع ہو گئی، اس کے بیوی بچے کچھ دن تو اس صدمے سے نڈھال ہو کر گھر میں ہی پڑے رہے، لیکن پھر انہوں نے رزق کمانے کے لئے شہر جانے کا فیصلہ کیا۔ اپنے گھر کا سامان اور ضرورت کی چیزیں اٹھائیں اور شہر کی طرف چل پڑے،
شہر چونکہ بہت دور تھا، لہذا یہ سفر کئی دنوں پر محیط تھا، سارا دن چلتے اور رات کو کہیں تھک کر آرام کر لیتے ۔ ایک رات ڈاکوؤں کے ایک گروہ کا وہاں سے گزر ہوا اور انہوں نے ان کا سارا سامان لوٹ لیا اور زمان بابا کے بیوی بچوں کو مار دیا اور اپنے گھوڑوں کو دوڑاتے ہوئے آگے روانہ ہوگئے ۔
راستے میں ایک قبرستان میں رک کر لوٹے ہوئے مال کا جائزہ لیتے ہوئے ان کی نظر اس بوسیدہ ڈائری پر پڑی، تو انہوں نے اس ڈائری کو پرانی کتاب سمجھ کر پھینک دیا.
صبح جب گاؤں کے کچھ لوگوں کا قبرستان سے گزر ہوا انہوں نے اپنے ایک بزرگ کی قبر پر یہ کتاب پڑی دیکھی، تو انہوں نے اس کو ایک بابرکت کتاب سمجھ کر اٹھا لیا، چونکہ وہ زیادہ پڑھے لکھے بھی نہیں تھے، اور اس کتاب میں لکھی زبان سے واقف نہیں تھے، لہذا انہوں اس کتاب کو بابرکت کتاب سمجھ کر اسکی پوجا شروع کر دی، رفتا رفتا یہ کتاب گاؤں میں مشہور ہوتی چلی گئی، لوگ جوق درجوق آنا شروع ہوگئے، اس کتاب کو سجدے کرنے لگے، اور اس کتاب پر غلاف چڑھانے لگے. یہ لوگ جو کہ پہلے بتوں کے پجاری تھے اب اس کتاب کے پجاری بن گئے. اس کتاب کی ہزاروں کاپی ہونے لگی. لوگوں نے برکت کی نیت سے اس کتاب کو اپنے گھروں میں رکھنا شروع کردیا, باوجود اس کے کہ وہ اس زبان سے ناواقف تھے انہوں نے اس کتاب میں لکھے الفاظ کو زبانی یاد کر لیا. اس کتاب سے رزق مانگنے لگے اور اسی کتاب کو اپنا مشکل کشا سمجھنے لگے.
اسی طرح دن مہینے سال صدیاں بیتتی چلی گئیں، یہ کتاب بھی غربت اور جہالت کے ساتھ ساتھ نسل در نسل منتقل ہوتی چلی گئی۔ توہم پرستی اس حد تک پھیلی کے مختلف رنگوں میں اس کتاب کی جلدیں فروخت ہونے لگیں۔ اور ان رنگوں کے ماننے والے مختلف قبیلوں اور گروہوں میں بٹ گئے، پھر وہ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لئے ان رنگوں کے فضائل بیان کرنے لگے، اور ایک دوسرے سے بازی لے جانے کے لئے اس کتاب کو بہترین جلد سازی اور بہترین رنگوں میں محفوظ کرنا شروع کردیا، حتیٰ کہ یہ نوبت بھی آئی کہ اسی کتاب کے تقدس کے لیے آپس میں لڑنے لگے, جنگی ہونے لگیں۔ لوگ مرنے لگے۔
آہستہ آہستہ اس کتاب کی شہرت جب افریقہ سے باہر دنیا کے دوسرے علاقوں تک پہنچی، تو کچھ پڑھے لکھے قبیلوں نے اس کتاب کی چند نقول منگوائیں۔ اور اس کا ترجمہ کروانا شروع کردیا۔ اس کتاب کی زبان چونکہ بہت پرانی تھی، اس لئے اس ترجمے میں بہت وقت لگا، لیکن جیسے جیسے مختلف حصوں کا ترجمہ ہوتا گیا، ان قبیلوں کو اس چھپے ہوئے خزانے کے مختلف حصوں کا پتہ چلتا گیا جو زمان بابا نے جنگل کے مختلف حصوں میں چھپا رکھا تھا۔ یہ قبائل چونکہ بہت شاطر تھے, ان لوگوں نے سیر و سیاحت کے بہانے سے افریقہ کے جنگلوں میں جانا شروع کردیا. اور اس خزانے کے چھوٹے چھوٹے حصوں کو آہستہ آہستہ اپنے ملکوں میں منتقل کرنا شروع کر دیا. اس طرح سے یہ قبائل نسل در نسل امیر سے امیر تر ہوتے چلے گئے, اور اپنی عمارت اور طاقت کے زور پر انہوں نے افریقی علاقوں پر قبضہ کر لیا اور ان جنگلوں کے رہنے والوں کو اپنا محکوم بنا لیا.
صدیاں گزر جانے کے بعد، آج بھی یہ کھیل اسی طرح سے جاری ہے، یہ قبائل آج بھی کتاب پر تحقیق کرکے مزید خزانہ حاصل کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں، اور افریقہ کے لوگ آج بھی اس کتاب کی اسی طرح سے عبادت میں مصروف ہیں۔ ان کے ہاں آج بھی اس کتاب کی رنگ اور جلد کی بنیاد پر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے لڑائیاں لڑی جاتی ہیں۔
زمان بابا کی روح آج بھی جنگل میں بھٹک رہی ہے, جنگل کے باسیوں کو چیخ چیخ کر سمجھانے کی کوشش کر رہی ہے, کہ اس کتاب کو کھولو, اس کو سمجھو, خزانہ تلاش کرنے کی کوشش کرو, لیکن شاید لڑائیوں کے شور میں یہ آواز جنگل کے باسیوں تک پہنچ ہی نہیں پا رہی.
ختم شد.