سائيں محمد ابراہيم کنبھر
محمد صالح مسعود
کسی نے سوچا بھی نہیں ہوگا کہ ایک غریب کُلال ایوب کے گھر میں جنم لینے والے محمد ابراہيم ایک دن ہمارے شہر کی پہچان بن جائیں گے۔ کھپرو! شہر! وہ جہاں محمد ابراہيم کنبھر رہتے ہیں۔ کھپرو تعلقہ کے ایک چھوٹے سے گمنام گاؤں پپراتلی میں جنم لینے والے محمد ابراہيم کنبھر محنت کرتے کرتے کراچی ڈویژن کے محکمہ تعلیم کے ڈائریکٹر بن گئے، لیکن ایاز کی طرح وہ اپنی مٹی اور اصل کو کبھی نہیں بھولے۔ یہی وجہ تھی کہ کراچی کے پانچ اضلاع کا مالک ہونے کے باوجود سادگی سے وقت گذارا۔ کوئی یقین کرے گا کہ 20 ویں گریڈ میں ریٹائرڈ ہونے والا شخص اپنے گھر میں ایک ایئر کنڈیشن بھی نہ لگا سکا۔
جس ملک میں 11 ویں اسکیل کا کلرک ایجوکیشن بچومل دبئی اور انڈیا میں پراپرٹی بنا سکتاہے، لیکن وہاں محمد ابراہيم ساری زندگی کراچی میں پلاٹ تک نہ لے سکے۔ اس وقت سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس صلاح الدین پنہور صاحب سے پوچھا جائے کہ محمد ابراہيم کون تھے؟ تو کہیں گے کہ یہ جس جسٹس سے آپ مخاطب ہیں یہ محمد ابراہیم کی محنت کا نتیجہ ہے۔ اگر سائیں ابراہیم میرے استاد نہ ہوتے تو آج میں باورلو کے کسی گاؤں میں گمنامی کی زندگی بسر کر رہا ہوتا۔ محمد ابراہیم کے اخلاق اور ایمان داری کی وجہ سے اہل علاقہ انہیں سائیں سے بلاتے تھے۔ سائيں محمد ابراہيم کو میں نے 1992 میں پہلے بار دیکھا جب آپ ہائی اسکول یامین ھنگور، کے ہیڈ ماسٹر تھے۔ 6 ستمبر کا دن تھا، یومِ دفاع کی تقریب تھی۔ تقریب نہیں عظیم الشان جلسہ تھا، شامیانے لگے تھے، ہلکی بوندا باندی ہو رہی تھی۔ اس وقت چھٹی کلاس کے ایک بچے صالح درس کو تقریر کے لیئے بلایا جاتا ہے۔ بچہ چھوٹا تھا ڈائس کے پیچھے نظر نہیں آ رہا تھا تو ایک ٹیبل رکھی گئی جس پر کھڑے ہوکر اس نے تقریر کی، یاد نہیں ایسا کیا کمال تھا کہ صدر مجلس نے اٹھ کر ایک ہزار روپے انعام دیا۔ جلسہ کے اختتام پر سائیں محمد ابراہيم سے جومیٹری بکس کا انعام وصول کیا۔ وہ جومیٹری بکس آج بھی میں نے محفوظ رکھی ہے۔
سائیں محمد ابراہيم سادہ انسان ضرور تھے لیکن باطل کے سامنے دبنے والے نہیں تھے۔ 1980 میں لوگوں کو اندھی عقیدت سے نکالنے کے پاداش میں آپ کو واجب القتل قراردے دیا گیا لیکن آپ نے اپنے مؤقف پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ مشرفی دور میں ارباب اور اتحادیوں نے افسر شاہی کو غلام بنایا ہوا تھا، سائیں اس وقت نوابشاہ میں تھے۔ مشرف کے ایک ایجوکیشن وزیر نے پی پی پی سے تعلق رکھنے والے اساتذہ کو تنگ کرنے کے لیئے ان کی برطرفیاں اور بدلیاں کرنی چاہیں جو سائیں نے رد کر دیں۔ جس پر وزیر موصوف نے سائیں کو معطل کروا دیا۔ سائيں گھر بیٹھ گئے لیکن کسی وڈیرے سے منتیں نہ کیں۔ الله الله کرکے 2008 آیا، ارباب اور مشرفی اقتدار کا زوال شروع ہوا۔ پی پی پی کی حکومت آئی اور آپ کو کراچی کا ای ڈی او بنایا گیا۔ ادھر بھی مزید امتحانات منتظر تھے۔ ایم کیو ایم کے ٹارگٹ کلرز آفس پہنچ گئے، کہنے لگے ہمیں آپ کی بوری کا سائز لینا ہے۔ سائیں نے مسکراتے ہوئے کہا مرنے کے بعد بڑی بوری میں بند کیا جائے یا چھوٹی بوری میں فرق نہیں پڑتا لیکن یاد رکھیں میں کوئی بھی غیر قانونی کام نہ کروں گا نہ ہی کرنے دوں گا۔
تین سال کا عرصہ کراچی میں گذارا، ریٹائرمنٹ سے چند روز پہلے وزیر تعلیم پیر مظہر الحق نے آپ کے اعزاز میں پی سی ہوٹل میں ایک پر وقار فیئر ویل پارٹی رکھی، پارٹی کے اختتام پر چپکے سے سائیں کو ایک لسٹ پکڑاتے ہوئے کہا کہ جاتے جاتے یہ 200 لوگوں کے آرڈرز کرتے جائیں، ریٹائرڈ ہوتے ہی آپ کو بورڈ کا چیئرمین لگایا جائے گا۔ سائیں نے کہا پیر صاحب میں نے 60 سالوں میں کبھی غیر قانونی کام نہیں کیا تو آپ نے کیسے سمجھ لیا کہ میں عین مغرب کی اذان کے وقت روزہ توڑوں گا؟ رہی بات بورڈ چیئرمین شپ کی تو مجھ میں اہلیت ہوئی تو مل جائے گی اور حاضرین نے دیکھا سندھ کی تاریخ کا بدعنوان ترین وزیر ایک درویش کو خریدنے میں ناکام ہوکر روانہ ہوگیا۔ یہی دیانت داری ہی اصل سرمایہ ہے اور اصل اچیومنٹ ہے۔ ہمارے علاقے کے بڑے بڑے نواب سرادر، رئيس اور خان بہادر خاک میں مل گئے لیکن کسی پر کوئی سیمینار نہیں ہوا، دوسری طرف یہ کُلال زادہ ہیں جن کو ہر شخص سلام پیش کرتا ہے۔ مختلف تنظیمیں آپ کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے سیمینار منعقد کروا رہی ہیں۔ ارباب علی ہنگورجو روتے ہوئے کہتے ہیں ایسے لگ رہا ہے آج میرا والد مجھ سے الوادع ہو گیا ہے۔ نماز جنازہ میں شریک ہر شخص کی آنکھیں اشکبار تھیں، دعا کو ہاتھ اٹھے تھے اور ہر ہاتھ بلندی درجات کے لیئے دعاگو تھے۔.
”آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نو رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے“
آمین ثم آمین