سانحہء پشاور اور ہماری منافقت
مہناز اختر
16 دسمبر 2014 کا دن بلاشبہ ایک ناقابل فراموش اور خون آشام دن تھا.آج بھی16 دسمبر ہے اور آج سے ٹھیک دو روز پہلے تحریک طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان کی رہائی کئی سوالوں کو جنم دیتی ہے۔ نہ جانے ہمارے ادارے احسان اللہ احسان کی رہائی کے ذریعے کن طاقتوں کو خیرسگالی کا پیغام دینا چاہتے ہیں۔ کہتے ہیں کے سیاست میں ٹائمنگ کی بڑی اہمیت ہوتی ہے مثال کے طور پر جیسے ہم 14 اور 15 اگست کو بھارتی قیدی رہا کرکے بھارت کو خیرسگالی کا پیغام دیتے ہیں۔
16 دسمبر کو 141 معصوم طالب علموں اور اسکول اسٹاف کو گولیوں سے بھوننے کے بعد بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ تحریک طالبان نے اس مکروہ فعل کو آپریشن ضرب عضب کا انتقام قرار دیا اور ساتھ میں بے شرمی کے ساتھ ایک عدد حدیث کا حوالہ بھی دے دیا کہ جنگ میں مخصوص عمر کے نوعمر لڑکوں کا قتل جائز ہے کیوں کہ شریعت کی رو سے وہ بالغ ہیں اور ہمارا مذہبی الجھن کا شکار کنفیوز طبقہ یوں سر ہلانے لگا کے جیسے کہہ رہے ہوں کہ ’’بات تو ٹھیک ہی ہے‘‘۔ اس دن سوشل میڈیا پر جہاں عوام کی اکثریت ان درندوں پر لعنت بھیجتی نظر آئی وہاں یہ مذہبی الجھن کا شکار کنفیوز طبقہ اس بات پر بحث کرتا دکھائی دیا کہ آرمی پبلک اسکول پر یہ حملہ شریعت کی رو سے جائز تھا یا نہیں۔ ٹھیک ویسے ہی جیسے تحریک طالبان کی طرف سے ملالہ یوسف زئی پر کیے جانے والے حملے کو تحریک طالبان کے ساتھ ساتھ ہمارا مذہبی الجھن کا شکار کنفیوز طبقہ شریعت کی رو سے جائز قرار دے رہا تھا۔ نہ جانے یہ کیسی طالبانی شریعت ہے، جو رحم جیسی بنیادی انسانی فطرت سے انکاری ہے۔
بہرحال ’’سانپ تو بنا ہی ہے ڈسنے کے لیے ہے‘‘ کے مصداق دہشت گرد سے رحم کی امید کرنا بھی حماقت ہے۔ اس کے باجود بھی ہمارے دھرنا موجد عمران خان ’’Good طالبان اور Bad طالبان‘‘ نظریے کے حامی ہیں، ہماری پاک افواج کی طرح کیوں کہ جب تک یہ طالبانی طاقتیں پڑوسی ممالک میں فساد پھیلاتی ہیں تو نظریہ جہاد کی رو سے ہم انہیں مجاہدین قرار دیتے ہیں اور اگر پاکستان میں اسی اپنی خودساختہ شریعت کی رو کے مطابق شریعت کے نفاذ تک جہاد کا اعلان کرتے ہیں، تو فسادی کہلاتے ہیں اور ضرب عضب اور ردالفساد کے چکر میں ہماری افواج کشمیر سے لے کر کراچی تک کو کھنگال ڈالتی ہیں، سوائے ان زہر افشانی کرنے والے ملاؤوں کے جنہیں ہر عام انسان اور غیر مسلم واجب القتل دکھائی دیتا ہے اور جنہیں ہندوستان میں بدامنی پھیلانا جہاد نظر آتا ہے۔ دور کیا جانا حافظ سعید کا یوں ملک کے دفاعی اور سیاسی اداروں کی آشیرباد سے بھارت کو روز چیلنج کرنا کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں مگر اس کے بعد ہم کون سا منہ لے کر ہندوستان کی بلوچستان میں مداخلت کی شکایت کرتے ہیں، سمجھ سے باہر ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ہندوستانی حکومت بھی نظریہ دھرم یودھ کے تحت بھارت کو پھر سے اکھنڈ بھارت بنانے کے لیے کام کررہی ہو۔ خیر لگتا ہے کے حافظ سعید کی طرح خادم حسین اور احسان اللہ احسان بھی ایجنسیوں سے Good طالبان کا سرٹیفیکٹ لے چکے ہیں اور اب انہیں عوام کو شرح کے نام پر کنفیوز کرنے کی مہم چلانے کی بھر پور آزادی ہے۔
سانحہ پشاور اور شہادت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے واقعے میں ایک گہری مماثلت ہے کہ یہ دونوں ظلم عظیم خوارجیوں کے ہاتھوں ہوئے اور ہم اس کو ظلم مانتے ہوئے بھی جائز قرار دیتے ہیں۔ تبھی تو امت مسلمہ نےکبھی طالبان اور داعش جیسی غیرانسانی تنظیموں اور ان کے حامیوں کو قادیانی برادری کی طرح غیر مسلم قرار نہیں دیا ہاں مگر 16 دسمبر کو موم بتی جلا کر اس سانحہ کی یاد میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کرنے والے معاشرے کے بے ضرر افراد کو موم بتی مافیا اور غیر مسلموں کے مقلد کہہ کر دائرہ اسلام سے خارج کرتے ضرورنظر آتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کے سانحہ پشاور کا تعلق سرحد پار دہشت گرد ی یا ہندوستان اور افغانستان کے درمیان پھنسے پاکستان کے دفاعی معاملات سے نہیں بلکہ مذہب کے نام پر پروان چڑھتی ایک نفرت انگیز مذہبی انتہا پسندانہ سوچ سے ہے، جس کی آبیاری آج بھی کی جا رہی ہے اور جب تک اس سوچ کے خلاف ہماری مسلح افواج آپریشن نہیں کریں گی، سانحہ پشاور جیسے سانحات رونما ہوتے رہیں گے۔ سانحہ پشاور کے متاثرین کے زخموں پر مرہم صرف انصاف اور ملوث افراد کو عبرت ناک سزا دے کر ہی رکھا جاسکتا ہے مگر افسوس کے ایسے وقت میں احسان اللہ احسان کی رہائی سانحہ پشاور کے سوگواران کے زخموں پر نمک چھڑکنے جیسا ہی عمل ہے۔