سوات کا کنگ کون؟ فیصلہ آپ کا

عاطف توقیر

سوات میں پشتون تحفظ موومنٹ میں جلسے کا اعلان کیا، تو سوات کے روایتی محبت وطن افراد کے سینے میں اچانک ’پاکستان‘ کا درد جاگ گیا۔ سوات سے تعلق رکھنے والے ریٹائرڈ کرنل حیدر علی نے فوری طور پر ’پاکستان تحفظ موومنٹ‘ شروع کرنے اور پی ٹی ایم کے جلسے سے ایک روز قبل اپنے جلسے کا اعلان کر دیا۔ چند ہی گھنٹوں کے اندر اندر ہر طرف بل بورڈ بھی لگ گئے، ہر طرف اعلانات بھی ہو گئے اور کچھ ہی دیر میں پاکستان محفوظ بنا دیا گیا۔

میں نے گزشتہ روز کہا تھا کہ جہاں آپ کسی سینے پر پاکستان کا جھنڈا دیکھیں، جہاں کوئی شخص ’پاکستان زندہ باد‘ کا نعرہ لگا کر وطن سے محبت کا ثبوت دیتا نظر آئے، تو محتاط ہو جایا کریں، کیوں کہ ایک بہت بڑی منافقت، جرم بلکہ ظلم آپ کا منتظر ہو گا۔
مگر سوات میں پاکستان کو تحفظ دینے کے لیے سامنے آ جانے والے کرنیل صاحب تو فوج میں ملازمت کے دوران اپنی زندگی پہلے ہی پاکستان کے تحفظ میں خرچ کرتے رہے ہوں گے؟ آئیے ان کی زندگی اور ملک کے لیے ان کے کارناموں کو دیکھتے ہیں۔ اس سے فوراﹰ معلوم ہو جائے گا کہ ان کو پاکستان سے محبت کیوں ہے اور ان کی اس اچانک پھوٹ پڑنے والی ’حب الوطنی کی وجہ‘ کیا ہے۔
آپ نے کچھ برس قبل تب کے فوجی سربراہ راحیل شریف کی جانب سے کچھ فوجی افسران کو کرپشن کے الزامات کے تحت برطرف کرنے کا اعلان سنا ہو گا، کرنل حیدر علی صاحب ان ہی میں سے ایک تھے۔

تاثر یہی دیا گیا کہ فوج میں یہ چند افسران کرپٹ تھے اور انہیں برطرف کر کے فوج کو ہر طرح کی برائی سے پاک کر دیا گیا ہے، میڈیا پر بھی کچھ یہی بتایا جاتا رہا۔ اس معاملے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ انتہائی مہنگی گاڑیوں، وہ گاڑیاں جو ایک عام پاکستانی شہری شاید خواب میں بھی نہ سوچ سکتا ہو، بلوچستان میں ریسنگ میں مصروف تھیں اور اسی دوران حادثے کے نتیجے میں ان گاڑیوں کے مالکان دو فوجی افسران مارے گئے۔ یہ معاملہ میڈیا پر آ گیا، تو فوراﹰ چند افراد کو کرپشن کے خلاف آپریشن کے نام پر فوج سے نکال دیا گیا۔

سوال یہ ہے کہ یہ افراد کون تھے اور ان کے پاس یہ پیسہ کہاں سے آیا کہ یہ انتہائی جدید اور مہنگی ریسنگ گاڑیاں، بلوچستان میں دوڑا رہے تھے، جہاں لوگ بھوک سے مر رہے ہیں اور جہاں بچے اسکول تک نہیں جا سکتے؟

جواب یہ ہے کہ یہ فوجی چمن کی سرحدی کراسنگ کے علاقے میں تعینات تھے۔ یعنی وہ علاقہ جو منشیات کا کاروبار اور دیگر اشیا میں مشہور ہے، اور جس علاقے سے آنے والی منشیات ہمارے اور دوسروں کے بچوں کی زندگیوں کے چراغ بجھاتی ہیں اور غالباﹰ یہ افراد وہیں سے اپنا مال بنا رہے تھے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان افسروں کو برطرف کرنے سے یہ کاروبار رک گیا، جواب یہ ہے کہ وہاں جا کر دیکھ لیجیے، منشیات اور اسمگلنگ دونوں کا دھندا ویسے کا ویسا ہی ہے، اب پھر کوئی ریسنگ گاڑیاں ٹکرائیں تو میڈیا کا کیمرہ رپورٹ کرے۔ ورنہ ان فوجیوں کی برطرفی کے بعد بھی معاملہ وہی ہے جو پہلے تھا۔

دوسرا سوال یہ ہے کہ ان کرپٹ فوجی افسروں کو جب برطرف کیا گیا تھا، تو کیا ان سے کرپشن کی دولت وصول کی گئی تھی؟ جواب یہ ہے کہ ہرگز نہیں۔ ان ’محب وطن‘ لوگوں کو میڈیا پر معاملہ آ جانے پر عہدوں سے تو ہٹا دیا گیا، مگر سوات میں کرنل حیدر علی کا محل دیکھیں تو آپ کو لگے گا کہ شاید یہ کسی بادشاہ کا کوئی محل ہے، یا کسی ریاست کے نواب کا قلعہ ہے یا کسی شہزادے کی آرام گاہ ہے۔ اس مضمون میں اس گھر کی تصاویر پر نگاہ ڈالیے اور سوال خود سے پوچھیے کہ کیا کوئی کرنل اس گھر کا مالک ہو سکتا ہے؟ اگر کسی کرنل کی تنخواہ اس محل کی اجازت دیتی ہے، تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔

اس شخص پر غالباﹰ 16 ارب روپے کی کرپشن کا الزام عائد کیا جاتا ہے، مگر سینے پر پاکستانی پرچم لگانے کے بعد کون سی کرپشن، کون سی سزا اور کون سا قانون؟

سوات میں یہ کرنل اب پاکستان تحفظ موومنٹ کے تحت کل 28 اپریل کو ایک اجتماع کر رہا ہے، جس کے لیے اسے فوج کی بھرپور مدد حاصل ہے اور اس سلسلے میں تمام تر تیاریاں کر لی گئی ہیں۔ اس وقت سوات میں علاقے کو ناظمیں اور نائب ناظمیں سے لے کر سرکاری دفتروں اور افسروں تک، ہر کسی سے کہا گیا ہے کہ وہ ہر طرف ’پاکستانی پرچم‘ لگا دیں اور مختلف مکانات پر سرکاری طاقت کے ساتھ پاکستانی پرچم آویزاں کر کے خودساختہ، مصنوعی اور بدنما ’حب الوطنی‘ کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

یہ مضمون لکھنے سے قبل میں نے سوات کے متعدد رہائشیوں سے ٹیلی فون پر بات کی، تو معلوم ہوا کہ کرنل صاحب اپنے علاقے میں کسی بدمعاش بلکہ بادشاہ کے طور پر دیکھے جاتے ہیں اور پورا علاقہ ان کے خوف کا شکار ہے، کیوں کہ ان پر اس دیس کا قانون نہیں چلتا۔ اور ظاہر ہے چلے بھی کیسے، اس دیس کا قانون کسی ’محب وطن‘ پر کیسے چل سکتا ہے؟

اس کرنل کے پاس پیسے کا یہ عالم ہے کہ یہ کئی کلومیٹر کا علاقہ خرید چکا ہے جب کہ اپنے آس پاس کسی بھی شخص کو کوئی بھی زمین خریدنے کی اجازت تک نہیں۔

پشتون تحفظ موومنٹ کا جلسہ 29 تاریخ کو ہے۔ اس جلسے کے لیے ٹینٹ دینے والوں دھمکیاں دی گئیں کہ ٹینٹ نہ دیں۔ کرسیاں دینے والوں کو دھمکایا گیا کہ کرسیاں نہ دیں، طلبہ اور طالبات کو خوف زدہ کیا گیا کہ وہ اس جلسے میں نہ جائیں۔ دوسری جانب لاہور سے بہت سے ایسے افراد کو لاپتا کر دیا جو پشتونوں کے لاہور کے جلسے میں شریک ہوئے تھے۔

اپنے جائز مطالبات کے لیے باہر نکلنے والے پشتونوں پر غدار غدار اور ایجنٹ ایجنٹ پکارنے والے ان لوگوں سے آپ مزید خوف زدہ ہونا چاہتے ہیں؟ آپ ان وردی میں ملبوس اس ملک کے نوچنے والے کرنیلوں اور جرنیلوں کا تحفظ چاہتے ہیں؟ آپ اس ملک کو تباہی کی دہلیز پر لاکھڑا کرنے والے آمروں کے ساتھ ہیں؟ آپ اس دھرتی کے دستور اور قانون کو مٹی میں ملانے والی ان بلاؤں سے ڈرتے ہیں؟ آپ قوم کی جانب سے دی جانے والی مقدس وردی اور اپنا پیٹ کاٹ کر ان محافظوں کے ہاتھ میں تھمائی گئی بندوق کے خود پاکستانی قوم پر استعمال کرنے والوں کے خوف کا شکار ہیں؟ آپ اپنے بچوں کو بھوک، پیاس، جہالت، غربت، گندی خوراک اور بدنما زندگی پر مجبور کرنے والے ان وردی پوش دیوتاؤں سے ڈر رہے ہیں؟ ڈرتے رہیے مگر یہ خوف جب تک قائم ہے، نہ یہ دیس محفوظ ہے، نہ اس دیس کے رہنے والے اور نہیں ہی ہماری اگلیں نسلیں۔

پشتونون نوجوانو بلکہ تمام پاکستانیو! بات سادہ سی ہے۔ فیصلہ آپ کو خود کرنا ہے۔ آپ نے کس پاکستان کو تحفظ دینا ہے۔ اس مصنوعی حب الوطنی والے پاکستان کو؟ ایک ایسے پاکستان کو جہاں آپ خود محفوظ ہے، نہ آپ کی جان، نہ عزت، نہ روزگار، نہ تعلیم، نہ صحت اور نہ ہی گھر اور مویشی؟ کیا آپ اس پاکستان سے محبت کرتے ہیں، جس میں ایک خاص وردی پوش اشراففیہ اور ان کے سیاسی چیلوں نے نے پچھلے ستر برسوں میں ہماری تہذیب، تمدن، ثقافت، زبان، تاریخ سب کچھ چھین کر بھیک مانگنے پر مجبور کر دیا؟

یا پھر آپ ایسے پاکستان کا تحفظ چاہتے ہیں جس میں ہر برادری، ہر قوم، ہر زبان، ہر رنگ اور ہر نسل کے لوگوں کو مساوی حقوق حاصل ہوں اور ان کی عزت کی جائے؟ جہاں کوئی وردی والا ہو یا سویلین جب جب ہماری قوم کی ہڈیوں سے ماس نوچے، ہمارے بچوں کو غیرمحفوظ بنائے، ہم اسے گریبان سے پکڑ کر قانون کے کٹہرے میں لائیں؟ جہاں حب الوطنی کے لیے سینے پر جھنڈا لگانے کی بجائے دل کے اندر اپنی مٹی سے محبت ہو؟ جہاں یہ منافق لوگ ہمیں نہ بتائیں کہ اس ملک کو زندہ باد کیسے کرنا ہے؟ اور جہاں اس ملک کے دستور کا نفاذ اس ملک کے ہر شہری پر ایک سا ہو اور حقوق مانگنے والوں یا ریاستی پالیسیوں پر تنقید کرنے والوں کے خلاف ریاستی طاقت استعمال نہ ہوتی ہو؟

فیصلہ آپ کو خود کرنا ہے کہ آپ 28 اپریل کو خوف، ڈر اور دھمکیوں سے ڈر کر کرنل حیدر علی کے جلسے میں پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں؟ یا 29 اپریل کو منظور پشتون اور پشتون تحفظ موومنٹ کے جلسے میں شرکت کر کے پاکستان کو زندہ باد کرتے ہیں؟