سوشل میڈیا اور ہم

سہیل یعقوب

انگریز نے جب ہندوستان میں اپنے قدم جمالئے اور حکمران بن بیٹھا تو چونکہ وہ اپنے دوست اور دیگر رشتہ دار پیچھے چھوڑ آیا تھا تو یہ ثابت کرنے کے لیے کہ وہ بھی سماجی حیوان ہے، ورنہ اس سے پہلے صرف ایک بات مستند تھی، اس نے ہندوستان میں جم خانے اور کلب بنائے تاکہ وہ اپنے ہم رنگ، ہم نسل، ہم منصب، ہم نوالہ، ہم پیالہ اور پتہ نہیں کون کون سے ہم کہ جن کا شاید یہاں ذکر بھی نہیں ہو سکتا کے ساتھ وقت گزار سکے اور سماجی سرگرمیاں کر سکے۔ اس کو صرف اپنے لوگوں تک محدود کرنے کےلیے اس نے باہر بورڈ لگوا دیے کہ “کتوں اور ہندوستانیوں” کا داخلہ ممنوع ہے۔

انگریز چلے گئے قوم آزاد ہو گئی اور جم خانوں اور کلبوں سے بورڈ ُاتر گئے لیکن میرا خیال ہے کہ یہ بورڈ آج بھی آویزاں ہے، بس نظر نہں آتے کیونکہ آج بھی صرف ایک مخصوص سماجی حیثیت کے لوگ ہی ان جم خانوں اور کلبوں میں جلوہ گر ہوتے ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر ان کے رشتہ دار خاص طور پر وہ جو سماجی حیثیت میں اُن کے ہم پلہ نہ ہوں اگر وہ ان سے ملنے کے خواست گار ہوں تو یہ انکار کر دیتے ہے کہ ہم مصروف ہے اور کلب جارہے ہیں، تو نوٹس تو اب بھی موجود ہے لیکن اب وہ مقامی ضروریات پوری کرتے ہے۔

جیسا کہ ہم سب جانتے ہے کہ انسان ایک سماجی حیوان ہے اور ُاس میں سے سماجی نکال دوں تو صرف حیوان رہ جاتا ہے۔ انسان کی سماجی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ہر دور میں کچھ نہ کچھ نئی چیزیں اور طریقے متعارف کرائے جاتے رہے موجودہ دور سوشل میڈیا کا ہے۔ جب بھی کوئی نئی چیز یا طریقہ متعارف کرایا گیا تو یہ خیال رکھا گیا کہ نئی چیز یا طریقہ انسان کے طابع ہوں یہ پہلی دفعہ ہے کہ انسان اس سوشل میڈیا کا عادی بلکہ “غلام” بن گیا ہے۔ بے شمار ایسی تصاویر اور ویڈیوز موجود ہے کہ جس میں ہم نے دیکھا کہ لوگ اس قدر سوشل میڈیا پر منہمک تھے کہ حادثے کا شکار ہوگئے لیکن کوئی سبق سیکھنے کو تیار نہیں ہیں۔
ہمارا مذہب ہمیں یہ بتاتا ہے کہ تم اگر کچھ اچھا کھاتے یا پیتے ہو لیکن کسی بھی وجہ سے ُاسے اپنے ہمسائے سے کے ساتھ بانٹ نہیں سکتے تو اس کی باقیات کو باہر مت پھینکو کہ تمہارے ہمسائے کو اپنی کم مائیگی کا احساس نہ ہوں لیکن آج سوشل میڈیا پر کیا ہو رہا ہے ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز کی نمائش کی جاتی ہے جیسے میں پیزا کھا رہا ہوں، میں نے حلوہ پوری کھائی اور دیگر چیزوں میں کہ میں طیران گاہ سے ملکی اور غیر ملکی سفر پر روانہ ہو رہا ہوں اور لوگ کھانے کی چیزوں پر yummy اور دیگر چیزوں پر مختلف تاثرات دیتے، ایک اور طریقہ “like” کا ہے جس میں مختلف اشکال بھی ہے جیسے دل یا انگوٹھا۔ اگر فیس بُک کا بٹن دلی کیفیت بتا سکتا تو دل کے ساتھ “چھریاں” بھی ہوتی اور “انگوٹھے” کے ساتھ بقایا انگلیاں بھی ہوتی۔

خدا کے لیے ہوش کے ناخن لیں، یہ موجودہ دور کا فتنہ ہے، ہر دور کے اپنے فتنے ہوتے ہیں اور اگر ان فتنوں کا وقت پر سدِباب نہیں کیا گیا تو یہ قوموں کو تباہ کر دیتے ہیں اور قرآن میں اس قسم کے واقعات کی بہت مثالیں ہے انتہا تو یہ کہ میں نے مسجد میں داخلے کے (check in) کے پیغامات بھی پڑھے ہیں اگر یہ خدا کے لیے ہے تو کیا ُاس کو پتہ نہیں ہے ہمارا تو ایمان ہے کہ وہ دلوں کے حال جانتا ہے اور اگر لوگوں کے لیے ہے تو پھر اسے دکھاوے کے سوا کیا نام دوں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ آخرت میں ہر چیز بشمول ہمارے اپنے اعضا ہمارے اعمال کی گواہی دئینگے تو کہیں اس فیس بُک فیس بُک کے چکر میں ہم کہیں فیس دکھانے کہ لائق نہ رہے اور یہ فیس بُک والا like نہیں، آگے اپ کی مرضی اللہ ہم سب کو ہدایت دے۔ آمین۔