سوشل میڈیا سرخ رُو رہے

تسنیم عابدی

مارچ کا مہینہ شروع ہوچکا ہے ، بہار کی آمد ہے کوئی پھولوں کی نمائش کا اہتمام کرتا ہے کوئی رنگوں کی برسات کرتا ہے اور امتِ مسلمہ کے لئے ان دونوں کے امتزاج کا انتظام ہے ۔ تازہ گلابوں کے بجائے شام کی گلیوں میں نونہالوں کی لاشیں سجی ہیں کفن میں لپٹے یہ پھول جیسے بچے انسانیت کے نام نہاد ٹھیکیداروں کے منہ پر طمانچہ ہیں۔ دنیا عدیم الفرصتی کا شکار ہے اسی لئے ان کے کفن پر جون ایلیا کی یہ مختصر نظم لکھوا دی جائے کہ

کس کو فرصت کہ مجھ سے بحث کرے
اور ثابت کرے کہ میرا وجود
زندگی کے لئے ضروری ہے

گلیوں میں سرخ دریا بہہ رہے ہیں شاید اس لئے کہ ویلنٹائن کے محبت کے سرخ رنگ کو رد کرنے کے لئے بہت ضروری ہے کہ گلی کوچوں کو اپنے انداز میں لال لباس پہنا دیا جائے ۔۔۔۔ مشرق کے رنگریز کو کبھی سرخ رنگ کے قحط کا سامنا نہیں کرنا پڑا ۔ یہاں مذہب اور مسلک کی دکان پر سرخ رنگ کی پُڑیا کے بجائے خون کی پچکاریوں کا خود کار انتظام ہر وقت موجود رہا ہے اور یہ رنگ ہولی یا نوروز کا انتظار نہیں کرتا بلکہ یہاں ہر دن نوروز اور ہر شب ہولی ہے ظاہر ہے سرخ رنگ کی وجہ سے ہی تو مشرق شاداب ہے اس کی شادابی دیکھنا ہو تو عراق کے کھنڈرات دیکھئے ، افغانستان کے اجڑے ہوئے پہاڑ دیکھیے ، شام کے تاریخی مقامات کے آثار دیکھیے سرخ رنگ آپ کو ہر طرف پنپتا نظر ائے گا ۔ اب نو نہالوں کی کفن میں ملبوس لاشوں کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ شادابی اواز دے رہی ہل من ناصر ینصرنا۔ابھی اوازِ استغاثہ پوری طرح بلند بھی نہیں ہونے پاتی کہ کبھی یمن کے پھول اگے بڑھتے ہیں تو کبھی افغانستان کے لالہ زار سے لبیک کی صدائیں آنے لگتی ہیں بس افسوس کہ اس اواز پر صرف ہم خیال اور ہم مسلک ہی کان دھرتے ہیں اور اوازِ اسغاثہ شور میں دب جاتی ہے۔

اکیسویں صدی میں ہر طرف ہر شخص ہر شعبہ اپنے اپنے حصے کی جنگ لڑ رہا ہے ، بلکہ حصہ بقدرِ جُثہ ادا کر رہا ہے ۔ ایسے میں میڈیا کے رنگ برنگے روپ نے آنکھوں کو چندھیا دیا ہے ہم بلیک اینڈ وائٹ میڈیا کے دور کے لوگ صحافت میں سیاہ سفید کے ساتھ ساتھ صرف سرخی یا شہ سرخی سے آشنا تھے کبھی کبھی کوئی سنسنی پھیلانے والا ہم کو زرد رنگ سے بھی متعارف کرا نا چاہتا تواسی لئے ہماری اماں شام کا اخبار نہیں لینے دیتیں کہ زرد صحافت مزاج پر برے اثرات مرتب کرتی ہے۔ ہماری اماں اپنی پرانی سوچ کے ساتھ دفن ہو چکی ہیں۔ پھر ان کے زمانے میں اخبار ، ریڈیو اور پی ٹی وی کا خبرنامہ ہی صحافتی دنیا کی کُل کائنات تھی ۔ اللہ بھلا کرے اس عہدِ جدید کا جس میں بے شمار ٹی وی چینلز کا سامنا ہی کیا مشکل تھا کہ اب سوشل میڈیا کی یلغار نے تو بد حواس کر دیا ہے اب بات سچی خبر اور جھوٹی خبر کی نہیں اگر اپ اپنے چند سو حمایتی جمع کر لیں تو خواہش کو خبر بنانے کی سہولت بھی موجود ہے۔

ہجوم کی اہمیت کا اندازہ کریں سڑکوں پر چند سو لوگ کسی کی لا دینیت کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ مشرق میں عموماً اور مسلمانوں میں خصوصا جو کھیل کھیلا جاتا رہا ہے مغرب اس سے واقف ہے امریکا، یورپ یا پھر روس اور چین بھی ہمارے سدا بہار نظاروں کے سہولت کار ہیں، بس ان کو زیادہ تگ و دو نہیں کرنی پڑتی صرف ہمارے ہی علاقے کے کسی رنگریز سے رابطہ کرتے ہیں اور پھر آتشبازی کے ساتھ ساتھ سرخ نقش و نگار جلوہ دکھانے لگتے ہیں دیکھیں کہ بہار کے سودائی اب سرخ پچکاری کدھر مارتے ہیں کیونکہ میری گلیوں میں بھی وقفے وقفے سے سرخ آنچل لہراتا دیکھا گیا ہے۔
ہوا میں اڑتا جائے مرا لال دوپٹہ ململ کا