سوشل نیٹ ورک کی ضرورت

عفاف اظہر

فطری طور پر انسان ایک سوشل اینمل ہے، یعنی کہ ایک سماجی جانور۔ ہر انسان زندہ رہنے کے لئے اپنے سماجی دائرے بناتا اور پھر فکر کی بدولت انہیں بدلتا بھی رہتا ہے۔ کل تک ہمارے معاشرے کے مرد حضرات اسی سوشل نیٹ ورک کی ضرورت کی غرض سے اپنی گلی، محلوں، چوراہوں، بازاروں میں ڈیرہ جماتے تھے، تو خواتین جنسی تعصب کی حائل ایک بڑی خلیج کے سبب محلے میں ایک دوسرے کی تانکا جھانکی، چغلی بخلی پر ہی گزارا کر لیتی تھیں، جہاں، وہی افکار کا بانجھ پن، وہی سوچ کی تنزلی اور سماجی تنگ نظری ایک دوسرے سے ٹکراتے ضرور تھے مگر ایک دوسرے کو ہم خیالی کی اڑان بھرنا سیکھنے اور سیکھانے کی بجائے مزید حبس اور گھٹن کا سبب بن جاتے تھے۔

اب سوچئے کہ اگر ہماری ارد گرد کی فضا میں مسلسل حبس اور گھٹن ہو تو ایک وقت ایسا ضرور آتا ہے، جب جسم میں آکسیجن کی کمی ہونے لگتی ہے، سانس لینا بھی دشوار ہونے لگتا ہے، بے چینی بڑھ جاتی ہے، طبیعت میں اکتاہٹ نمایاں ہونے لگتی ہے اور اگر پھر بھی فضا نہ بدلے تو موت بھی ممکن ہے، بلکل یہی حال انسانی ذہن کا بھی ہے ، جس کو اپنی سوچ و افکار کے مناسب بہاؤ کے لیے سماجی دائروں میں ہم خیالی کی جگہ گھٹن و حبس ملے تو اس کا بھی یقینی طور پر وہی حال ہوگا جو کہ جسم میں آکسیجن کی کمی سے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں جو کام گلی، محلے، چوراہے اور بازار صدیوں سے نہ کر سکے وہ سوشل نیٹ ورک سائٹس نے فوری کر دیا کیوں کہ محلے چوراہوں میں سماج تو ضرور تھا مگر سوچ اور فکر کے لئے تازہ ہوا کے جھونکے نہیں تھے۔ سوشل سائٹس نے تازہ ہوا کے جھونکے فراہم کئے ہیں اس حبس اور گھٹن کو کم کرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔

یہاں ایک ہی پلیٹ فارم پر سبھی نظریات کو لا کر کھڑا کر دیا، جہاں یہ سبھی نظریات ایک دوسرے سے ٹکرا کر اپنی اصل جگہ کا تعین خود کر سکتے ہیں اور دوسروں کو انہیں سمجھنے، دیکھنے اور جاننے کا موقعہ بھی ملتا ہے اور سب سے بڑا فائدہ بہ یحثیت خاتون یہی کہوں گی کہ خود خواتین کو ہوا ہے، جن کی سوچ اور فکر کو ختم کر کے صدیوں سے گھروں کی چار دیواری میں قید رکھ کر ان کے سماجی دائروں کو بھی زیور کپڑوں فیشن ڈراموں تک ہی محدود رکھا گیا تھا، آج ان کو بھی اپنے ذہنوں میں سوچ اور فکر نام کی چڑیا کا وجود نظر آنے لگا ہے۔

باقی کون اس کا کیسے استعمال کرتا ہے،یہ اس کی اپنی سوچ پر منحصر ہے، کیوں کہ یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ جس سماج کو گھٹن میں صدیوں قید رکھا گیا ہو، اس کو اچانک کھلی فضا ملے تو اس کا حال ایسا ہوتا ہے، جیسے کسی پنچھی کے پر کاٹ کر برسوں اسے قفس میں رکھا جائے پھر ایک دن پنجرہ کھول بھی دیا جائے تو وہ نہیں اڑے گا اور اگر اسے اڑانے کی کوشش کی جائے تو بھی اس کی اڑان میں خود اعتمادی نہیں بوکھلاہٹ ہوگی اور وہ تھوڑی سی اڑان بھر کر واپس اسی پنجرے میں آ جائے گا یعنی کہ اس کو اس تبدیلی کو قبول کرنے اور سمجھنے میں وقت بھی لگے گا اور اس کی مسخ شدہ فطرت کو واپس لانے میں بہت کوشش بھی درکار ہوگی۔ ہمارے اکثر رویے بھی یہاں اسی بوکھلاہٹ کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔