سچ قبول کرنے کی جسارت
افشاں این آر
اس ملک کی خواتین کی اکثریت بچہ کیوں پیدا کرتی ہے ؟ ماں بننے کی عظمت پانے کے لیئے یا ایک مقدس ہستی کہلانے کے لیئے، یا مذہبی کلچر یا ثقافتی کلچر کے بوجھ تلے دب کر یا خود کو مکمل کرنے کے عظیم مغالطے کے تحت۔ یہ بات سچ ہے کہ زندگی کے اوائل میں افزائش نسل انسانی ضرورت تھی پر یہ بات ماضی بعید کی خواتین نہیں جانتی ہوں گی جس طرح آج چند ایک با شعور خواتین سمجھتی ہیں کہ ماں بننا کوئی عظمت نہیں بلکہ بہتر انسان بنانا عظیم ترین کام ہے۔ زیادہ تر خواتین سے پوچھ کر دیکھ لیں کہ آپ نے بچے پیدا کیوں کیئے یا آپ ماں کیوں بنیں تو اکثر خواتین شرما کر یہی جواب دیں گی کہ ہمیں معلوم ہی نہ تھا کہ شادی کے بعد ایسا ہوجائے گا یا فوراً بعد ایسا ہوجائے گا یہاں “شرم” کا لفظ کسی پر طنز نہیں بلکہ یہ ایک عمومی رویہ ہے۔ چند روز قبل ماؤں کا عالمی دن تھا اور ایک عزیز کی یاد دہانی پر بھی میں نے اپنی ماں کو یاد نہیں کیا کیونکہ یاد کرنے کے لیے بھولنا شرط ہے۔
ہر انسان کی نظر میں اس کی ماں کی اہمیت، عزت اور محبت مقدم ہوتی ہے۔ چاہے ماں کا پیدا کرنے والے کردار کے علاوہ کوئی کردار نہ ہو۔ مدعا یہ ہے کہ کوئی بھی عورت ماں بنتی ہی کیوں ہے! ایک سوچ یہ بھی ہے کہ خواتین کو شادی سے پہلے یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ شادی کے بعد اولاد ہوتی ہے لیکن کن سخت و پیچیدہ حالات کو جھیل کر ہوتی ہے یہ معلوم نہیں ہوتا اور کچھ کا ذہن اس حد تک بچکانہ ہوتا ہے کہ وہ سمجھتی ہیں کہ واقعی بچہ کوئی پری رات کے اندھیرے میں ٹوکری میں رکھ کر چلی جائے گی کیونکہ ان کو اس پر بات کرنے کی بلکہ سوچنے تک کی آزادی نہیں ہوتی۔ اس کے پیچھے وجہ وہی معاشرتی و مذہبی پابندی یا شرم و حیا ہوتی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ شادی کے ایک یا دو مہینے بعد سے ہی میکے اور سسرال والوں کے سوالات کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ تیسری وجہ یا مغالطہ وہی ہے کہ مرد و زن کو مکمل تسلیم تبھی کیا جاتا ہے جب ان کی اولاد دنیا میں آئے۔ چوتھی وجہ مردوں کی نایاب نسل کے خاتمہ کی تشویش دنیا کو لاحق ہوتی ہے۔ پانچویں وجہ محبت کی نشانی یا نفرت کی نشانی پیدا کرنے واسطے یا پھر برتھ کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کا پیدا ہو نا ہے اس کے علاوہ اور بھی دیگروجوہات ہوسکتی ہیں۔
مسئلہ یہ بھی ہے کہ میاں بیوی اپنے لیے اولاد چاہتے ہیں یا دنیا والوں کے لیئے، یا اولاد پیدا کرکے دنیا والوں سے اپنا وجود مکمل تسلیم کروانے کے لیئے؟ خیر یہ سب غیر متعلقہ سے محسوس ہونے والے سوالات خواتین کے ماں بننے کے عمل کے پیچھے چھپے ہوئے ہیں۔ اکثر خواتین دنیا کو اچھا انسان دینے کے لیئے ماں نہیں بنتیں بلکہ کسی نہ کسی سماجی یا جذباتی دباؤ کی وجہ سے ماں بننا چاہتی ہیں یا بنتی ہیں۔ ان کے علاوہ ایک بات جو میرے ذہن میں ہے کہ کسی زندگی کو جنم دینا کیسا عمل ہے یا یہ عمل تکلیف دہ ہوتا ہے شاید اس ایڈوینچر کو کرنے کی غرض سے بھی کچھ خواتین ماں بننا چاہتی ہیں لیکن فی زمانہ جس طرح طبقات کی تقسیم ہوچکی ہے تو غریب طبقے کویا نا آسودگان کو ایسا عمل زیب نہیں دیتا مگر خواہشات تو ہزار ہیں جن پر دم اب نکلا کہ تب نکلا۔ بات نکلتی ہے تو دور تک جاتی ہے مگر کیونکہ ہم سطحی سے لوگوں کو تھوڑی ہی گہرائی زیب دیتی ہے تو اب مزید کلام لاحاصل ہوگا۔
تو بات ماؤں کے عالمی دن کی ہورہی تھی تو میں اگر اس بات کو خود پر لاگو کر کے سوچوں کہ میری ماں نے مجھے بطور پانچویں اولاد کیوں پیدا کیا تو یہی کہہ سکتی ہوں کہ بس خواہشات پر خواہشات غالب آتی رہیں اور زندگی جنم لیتی رہی۔ آج ماؤں کے عالمی دن پر وہی پرانی لفّاظیات اور بکواسیات غالب ہیں جو اس عالمی دن کو شروع دن سے مناتے وقت کی گئیں اور صدیوں تک جاری رہے گی۔ ماؤں کو معلوم ہونا چاہیے کہ انہیں ماں کیوں بننا ہے محض اس بات پر ان کی عظمت کے عظیم مینار تعمیر کیئے جائیں تو انہوں نے روتی دھوتی صورتیں پیدا کرڈالیں۔ ایک خاتون جو دنیا کے مغالطے اور مبالغے کی وجہ سے ماں بن کر خود کو مکمل تصور کرتی ہے وہیں وہ ماں نہ بن پانے والی خواتین کو حقارت سے بھی دیکھتی ہے۔ایسی ماؤں کا کیا! عظیم ماں وہی ہے اور عالمی دن بھی اسی ماں کے لیئے ہے جو دنیا کو بہترین انسان دینے کی خواہش رکھتی ہے اور اسے معاشرے کا آزاد اور بہترین شہری بناتی ہے۔ اس عالمی دن پر ایک سوال یہ بھی اٹھنا چاہیے کہ صرف ماں پر ہی کیوں بوجھ ڈالا جاتا ہے اولاد کو پیدا کرنے سےلے کر ایک اچھا انسان بنانے تک ؟ اس میں باپ کا کردار کیوں حذف کردیا گیا ہے۔ کہیں ماں کو لفظ باپ سے الگ کرکے ایک سانجھے رشتے کا استحصال تو نہیں کیا جارہا ؟