سینہ بند سے سینہ تنگ تک
مہنازاختر
لکھنا میرا پیشہ نہیں جبلت ہے۔ سماجی رویے ایک خاص حد سے زیادہ مجھ پر اثر انداز ہونے لگیں تو میں خودکار طریقے سے لکھنے لگ جاتی ہوں۔ یوں سمجھیں کہ میں مضامین نہیں بلکہ سماجی موضوعات پر ڈائری لکھتی ہوں۔ اس وجہ سے میری تحریروں میں رومانویت اور نرگسیت کے بجائے بغاوت اور سوالات چیختے چلاتے نظر آتے ہیں۔ میں نے خواتین سے متعلق منفی سماجی رویوں پر ہمیشہ دوٹوک انداز میں لکھا ہے۔ میں نے پچھلے مضمون ”تم گھر سے باہر نکلتی ہی کیوں ہو؟“ میں جب یہ لکھا، ”لڑکیو! مشینی جانگیوں اور بریزروں کا استعمال شروع کردو! کہ جیسے کوئی تمہاری چھاتی یا کولہوں پر ہاتھ پھیرے، اسے ہائی وولٹیج کا کرنٹ لگے اور اگر ایسی مصنوعات بازار میں دستیاب نہیں یا تمہاری دسترس میں نہیں تو پھر اپنی چھاتیاں کٹوالو! کولہے سپاٹ کروالو! اور شرمگاہیں بھی سلوا لو!“، تو ناسمجھوں نے سمجھا کہ میں مرد ذات سے بیزاری اور بغاوت کا اعلان کررہی ہوں۔ ایسا اس لیئے ہوا کہ ہمارے سماج نے خواتین کے باغی جملوں کے پیچھے کی ناامیدی، بے بسی اور خوف کو جان بوجھ کر ان دیکھا کررکھا ہے۔
ٹی وی اسکرین پر ورزش کرتی خاتون یا پھر کسی نیوز اینکر کی bra اس کے لباس سے جھانکتی ہوئے نظر آجائے تو پورا کا پورا سماج شہوت زدہ مست ہاتھی کی طرح ادھر ادھر ٹکریں مارتا پھرتا ہے۔ اس کے برعکس خواتین کی اکثریت مردوں کو بنیان یا کچھے میں دیکھ کر شہوت سے مغلوب ہوکر مجبور مرد کا بلاتکار نہیں کرتی نہ ایسا کرنے کا سوچتی ہے، اور نہ ہی روایات اور اسلام کا نام لے لے کر شور مچاتی ہیں۔ بدقسمتی سے ہم نے بطور سماج خلیل الرحمن قمر، اوریا مقبول جان اور انصار عباسی جیسے ”میل پراڈکٹس“ کی پوری نسل تیار کی ہے۔ جنہیں سوال اٹھانے والی، اپنا حق مانگنے والی، سمجھ دار اور بااختیار خاتون خطرہ محسوس ہوتی ہے۔ آپ خلیل الرحمن قمر، اوریا مقبول جان اورانصارعباسی کو تین اشخاص کے بجائے اس سماج میں پایا جانے والا نفسیاتی رجحان سمجھیے۔ جو خواتین کو کرکٹ کھیلتا یا ورزش کرتا دیکھ کر ہوش حواس کھو بیٹھتا ہے۔ اس سوچ کو دلربائیں پسند ہیں جو انہیں رجھا سکیں، ان کی تھکن اتار سکیں۔ اسی مثال سے اندازہ لگا لیں کہ حریم شاہ، مردانہ سماج میں ثناء میر سے زیادہ اہم اور محترم ہے۔
آپ غور نہیں کرتے مگر یہ حقیقت ہے کہ ”میرا جسم میری مرضی“ جیسا مبہم، ذومعنی اور کاٹ دار نعرہ دراصل ایک چیخ ہے، جس میں بے باکی اور بغاوت دونوں ہیں۔ پاکستانی سماج نے کئی عشروں تک خواتین کی چیخوں کو دبایا ہے۔ کہیں جنسی زیادتی یا ہراسانی کا شکار خاتون تو کہیں جنسی عدم مساوات اور استحصال کی شکار خاتون کی چیخیں، کہیں ازدواجی جبر کی شکار خواتین تو کہیں برابری سے جینے کا حق مانگنے والی خواتین کی چیخیں، ہم ان چیخوں کو فرسودہ روایات اور تنگ نظری کی بنیاد پر مسلسل دباتے چلے آئے ہیں۔ نتیجتاً آج وہ چیخ ہتھوڑا بن کر آپ کی نام نہاد مردہ روایات اور جھوٹی انا پر برس رہی ہے۔
آج سے ستائیس سال پہلے فلم کھل نائیک کے گیت ”چولی کے پیچھے کیا ہے“ نے سینہ بند، برا، بریزرز، انگیا یا چولی کو اتنا ”سیکسیولائز“ نہیں کیا تھا، جتنا آج آپ خاتون اینکر کی دھندلی سے دکھائی دینے والی bra کو کردیتے ہیں۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ کسی جنسی درندے کو جنسی تحریک پورن فلموں سے ملتی ہے یا حوروں کے بیان سے۔ فرق تو اس بات سے پڑتا ہے کہ آپ نے آج کی خواتین کو انسان کے بجائے سیکس آبجیکٹ سمجھ لیا ہے۔ وہ سینے سے شرمگاہ تک کی کوئی چیز ہے۔ آپ کی ” پاکی ناپاکی کے مسائل“ کی کتابوں نے فلم انڈسٹری کے آغاز سے بہت پہلے خواتین کو ”سیکسیولائز“ کردیا تھا۔ یہاں میرا مقصد مذہب یا روایات پر تنقید کرنا نہیں ہے بلکہ اس جانب اشارہ کرنا ہے کہ خواتین کے استحصال کے سارے سرے ہمیشہ مذہب اور روایات سے جاکر ہی ملتے ہیں۔
ہم نے مغرب سے بہت سارے اچھے اور برے نظریات مستعار لیئے ہیں، تو اگر ”می ٹو“ اور ”مائی باڈی، مائی چوائس“ جیسے نعروں نے ”میرا جسم میری مرضی“ کی شکل اختیار کرکے پدرسری سماج کی بنیادیں ہلا دیں تو آپ کو حیرانی کیوں ہے؟ کیا آپ اس بغاوت کی وجوہات سے ناآشنا ہیں۔ ہم صنفی عدل ومساوات پر مشتمل ایک مثالی معاشرہ کیسے تخلیق کرسکتے ہیں اس صورت میں کہ ہم خواتین کے ناقص العقل ہونے پر متفق ہیں، ہم مان کر چلتے ہیں کہ صنف نازک جنسی تحریک کا باعث بننے والے چند اعضاء کے مجموعے کا نام ہے۔ اس کی گواہی کی طرح اس کی عقل و دانش بھی مردوں کے مقابلے میں نصف ہے۔ تو انہیں ڈرا دھمکا کر رکھنے میں ہی ہماری بقا ہے۔چند عشروں میں آپ نے مذہبی لٹریچر اور روایات کی آڑ میں خواتین کے وجود اور ان کے اعضاء کو اتنا ”سیکسیولائز“ کیا کہ وجود زن بس ہیجان اور شہوت کا مؤجب بن گیا۔ سماج کے جمالیاتی ذوق کا مکمل خاتمہ ہوگیا۔ مرد ضبطِ نفس کے اسرار سیکھنے کے بجائے صحتِ نفس کا پوشیدہ راز معلوم کرنے کے لیئے نیم علماء و حکماء پر مکمل تکیہ کرنے لگے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ آپ نے حیا اور روایات ہی کی آڑ لے کر فن اور جمالیات دونوں کے اظہار کو بھی گناہ قرار دے دیا۔ خواتین کا ہنسنا بولنا، دوڑنا بھاگنا، پڑھنا لکھنا، سجنا سنورنا، گیت گانا اور رقص کرنا، غرض سبھی کو بے حیائی کے زمرے میں ڈال دیا گیا۔ مردوں کو مذہب کے نام پر روبوٹس بنادیا گیا۔ کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ فطری جبلتوں کو دبا دبا کرآتش فشاں نہ بنایا جاتا اور ہم اپنے سماج میں فنون اور جمالیاتی حس کے اظہار اور ادراک کی راہ ہموار کرتے؟ تو پھر کم از کم آج پاکستان ”ریپستان“ کا منظر پیش نہ کررہا ہوتا اور آئے دن خواتین اور بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات کی خبریں اس مردانہ طاقت کی بحالی کا ثبوت نہ دے رہی ہوتیں، جن کے دعوے ہم بچپن سے اپنے شہر کی دیواروں پر پڑھتے آئیں ہیں۔
میں پوچھتی ہوں وجود زن صرف اور صرف شہوت اور غیرت کا علاقہ کیوں ہے؟ کسی عورت کی چھاتی کو دیکھ کر آپ کو اپنی ماں کی چھاتیاں کیوں یاد نہیں آتیں؟ اورہنسی ہنسی میں ”مادر چود“ اور ”بین چود“ جیسی گالیاں ہضم کرلینے والا پدرسری سماج خواتین کے ورزش کرنے، سائیکل یا موٹرسائیکل چلانے، ”میرا جسم میری مرضی“ اور ”اپنی ڈک پکس اپنے پاس رکھو“ والے پوسٹروں سے اتنا پریشان کیوں ہے؟
یہ مردوں اور خواتین کی جنگ نہیں ہے۔ شریف خواتین اکثر اپنی صنف کے گندے انڈوں سے کنارہ کرلیتی ہیں یا ان سے میل جول ترک کردیتی ہیں، مگر مرد ایسا کم کم ہی کرتے ہیں۔ میں جانتی ہوں کہ میرے سوالات آپ کو تلخ اور بے باک محسوس ہوں گے۔ یہ سوالات نہیں کسوٹی ہیں۔ اگر آپ اس کسوٹی پر کھرا اترتے ہیں تو آپ یہ سمجھنے میں کامیاب ہوجائیں گے کہ آپ کے سماج کی خواتین بے حیا اور مغرب زدہ نہیں ہوئیں بلکہ باغی ہوگئی ہیں۔ بغاوت جبر کی کوکھ سے جنم لیتی ہے، یہ بات آپ بھی سمجھتے ہیں۔ آج خواتین کی نہیں آپ مردوں کی عزت خطرے میں ہے۔ معاشرے میں پائے جانے والے تھوڑے سے جنسی درندوں کی وجہ سے آپ ہربار مجرموں کی طرح کٹہرے میں کھڑے کردئیے جاتے ہیں، ایسے واقعات کے بعد آپ شرمندگی سے خود سے نظریں نہیں ملاپاتے۔ جانتے ہیں کیوں؟
کیونکہ آپ اپنے ہم جنسوں سے کہہ نہیں پاتے کہ بس! اب بس! تم جیسے چند جنسی درندوں کی پردہ پوشی کرکے ہم اب خواتین کے آگے مزید اپنی نظریں نہیں جھکا سکتے۔ ہم تمہیں برادری بدر کرتے ہیں۔ اب ہم بھائی چارے اور مردانہ انا کی بنیاد پر تمہارے جرائم کے لیئے نت نئے توجیہات تلاش نہیں کرسکتے۔ اب ہم تمہاری درندگی پر خواتین کو مزید قصوروار نہیں ٹہراسکتے۔ ہم صرف ایک مرد نہیں بلکہ باپ، بیٹے اور بھائی بھی ہیں، ہمیں اپنی حرمت اورعفت کی حفاظت کے لیئے میدان میں آنا ہوگا کیونکہ عزت تو دراصل ہمارے خطرے میں ہے۔