شاید کچھ نیا ہونے جارہا ہے !

 عابد حسین

استاد محترم جناب پروفیسر وسیم خٹک صاحب نے “شاید 

کچھ نیا ہونے جارہا ہے”  کے عنوان کے ساتھ تحریک طالبان پاکستان احرار گروپ کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کا ایک آڈیو پیغام شیئر کیا تھا جس میں احسان اللہ احسان نے پہلے اپنا تعارف کرایا اور بعد میں بیان کیا کہ 5 فروری 2017 کو ایک معاہدے کے تحت اس نے اپنے آپ کو عسکری و خفیہ اداروں کو حوالے کیا۔ آڈیو پیغام میں احسان اللہ احسان نے مذید کہا کہ اس کی طرف سے تین سال تک معاہدے کی پاسداری کی گٸی لیکن فوج اور خفیہ اداروں کی جانب سے معاہدے کی پاسداری نہیں کی گٸی اور اس سمیت ان کے خاندان کو تین سال تک مختلف جگہوں پر رکھ کر ان کو اذیتیں دی گٸیں اور سیکیورٹی اداروں کی جانب سے معاہدے پر عمل درآمد نا ہونے کی وجہ سے وہ اپنے خاندان اور ساتھیوں سمیت 11 جنوری 2020 کو قید سے فرار ہوا۔ احسان اللہ احسان نے مذید کہا کہ بہت جلد وہ ان سب حقائق سے پردہ اٹھائیں گے کہ انہوں نے کس کے کہنے پر اور کس معاہدے کے تحت اپنے آپ کو پاکستان کے خفیہ ادارے کے حوالے کیا تھا، معاہدہ کس شخصیت کے کہنے اور کس کی ضمانت پر کیا گیا تھا۔ اس نے کہا کہ  وہ پاکستان کے عسکری و خفیہ اداروں کو بھی بے نقاب کرے گا کہ وہ کس قسم کی کاروائیوں میں مصروف ہیں اور ماضی میں کن سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں۔ مزیدبرآں اس سے کیا معاہدہ ہوا اور کن کاموں کو سرانجام دینے کے مطالبے کیئے گئے تھے اور یہ کہ مذکورہ ادارے آگے کیا کرنے جارہے ہیں۔

یہ تو تھا احسان اللہ احسان کا آڈیو پیغام جو اس کے فرار ہونے کے بعد منظر عام پر آیا ہے مگر احسان اللہ احسان کون ہے؟    

احسان اللہ احسان کا اصل نام لیاقت علی ہے جو تحریک طالبان پاکستان کی جماعت الاحرار گروپ کا کمانڈر اور ٹی ٹی پی کا سابق ترجمان ہے۔  2014 میں تحریک طالبان پاکستان میں اختلافات کے بعد جب جماعت الاحرار وجود میں آٸی تو احسان اللہ احسان الاحرار کا ترجمان بن گیا۔ سنہ 2017 میں سابق فوجی ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے اعلان کیا تھا کہ احسان اللہ احسان کو افغان صوبے پکتیا سے ایک انٹلجنس آپریشن میں گرفتار کیا گیا تھا اور بعد میں پاکستان کے حوالے کیا گیا۔ اس وقت تحریک طالبان الاحرار گروپ نے اس گرفتاری کی نفی کی تھی اور اب خود احسان اللہ احسان نے بھی اپنے آڈیو پیغام میں کہا ہے کہ اس نے معاہدے کے تحت سرنڈر کیا تھا۔

احسان اللہ احسان کی بڑی دھشت گردانہ کاروئیاں !

١۔ 9 اکتوبر 2012 کو سوات میں ملالہ یوسفزئی پر قاتلانہ حملے کی ذمہ داری قبول کی ۔

٢۔ 22 نومبر 2012 کو راولپنڈی اور کراچی میں شیعہ حضرات پر خودکش حملوں کی ذمہ داری قبول کی ۔

٣۔ دسمبر 2012 کو ہی باچا خان انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر پندرہ راکٹ حملوں کی ذمہ داری بھی احسان اللہ احسان نے ہی قبول کی تھی۔ اس حملے میں بہت سی معصوموں کو اپنی جانوں سے ہاتھ  دھونا پڑا۔

٤۔ 23 جون 2013 کو گلگت بلتستان میں غیر ملکی سیاحوں کو نشانہ بنایا گیا تھا جس کی ذمہ داری بھی تحریک طالبان پاکستان جماعت الاحرار اور  احسان اللہ احسان نے قبول کی تھی۔ 

٥۔ سال 2014  میں واہگہ بارڈر کے خودکش دھماکے ہوں یا شمالی وزیرستان میں عام شہریوں کے قتل عام کا واقعہ ہو، لاہور کے پارک میں خودکش حملہ ہو یا کوئٹہ میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات اور 

اسکے علاوہ بھی کئی دھشت گردانہ کاروائیاں ہیں جن کی ذمہ داری بلاواسطہ احسان اللہ احسان نے قبول کی ہے۔

تحریک طالبان پاکستان !

تحریک طالبان پاکستان کا قیام دسمبر 2007 میں افغانستان سے متصل پاکستان کے قبائلی اضلاع میں عمل میں لایا گیا تھا۔  

اس کا ہیڈ کوارٹر شمالی وزیرستان میں بیت اللہ محسود کے زیرکمان چلتا تھا۔ تحریک طالبان پاکستان کے زیر نگرانی چھوٹے بڑے 13 عسکری گروپ اسی تحریک کا حصہ تھے۔ بیت اللہ محسود کے زیر قیادت ٹی.ٹی.پی نے پاکستان کی حکومت اور فوج کے خلاف دہشت گردانہ کاروائیاں شروع کی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکومت اور عسکری ادارے اسلام مخالف پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں اور ملک کو امریکی ایماء پر چلایا جاتا ہے۔ ان کے مقاصد  میں جمہوری حکومت کو ہٹانا اور عسکری اداروں کے اہلکاران کو مرتد قرار دیتے ہوئے ان کا قتل کرنا اور ملک میں اپنا نظام رائج کرنا شامل تھا۔  

تحریک طالبان کے افغان طالبان اور القاعدہ کے ساتھ بھی قریبی مراسم تھے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ  دونوں ایک دوسرے کے خیرخواہ تھے یا ہیں تو غلط نا ہوگا۔ تحریک طالبان پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد قبائلی علاقوں بشمول خیبر پختونخواہ بلخصوص اور پورا پاکستان بلعموم جن مصیبتوں اور تباہ کاریوں سے گزرا ہے وہ ساری دنیا جانتی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ملکی معشیت کو جو نقصان پہنچا ہے اب بھی ہم اس وجہ سے معاشی میدان میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں بلکہ اب بھی ان اثرات کی     زد میں ہیں۔ ایک طرف دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں افواج نے شہادتیں دیں ہیں تو دوسری طرف خودکش دھماکوں کی وجہ سے شہریوں نے بھی صرف لاشیں ہی اٹھائی ہیں۔ ریاستی خزانے پر فوجی آپریشنز کی وجہ سے اربوں کا اضافی بوجھ پڑا۔ ان تفصیلات میں نہیں جاتے کہ تحریک طالبان کس وجہ سے وجود میں آئی تھی، یا کس کی لاپرواہی تھی اور کون ذمہ دار ہے، گڈ اور بیڈ طالبان کیوں کر پیدا ہوئے، دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے یا اب بھی ان میں سکت ہے، شمالی و جنوبی وزیرستان میں امریکہ کو ڈرون حملوں کی اجازت کیونکر دی گئی، فوجی آپریشنز اور ڈرون حملوں کی وجہ سے کیا نقصانات ہوئے، کس کو نقصان اٹھانا پڑا اور کس کو فائدہ پہنچا؟ 

  بات یہ ہے کہ اب سکیورٹی فورسز کی بے شمار قربانیوں ، عوام کی ان گنت شہادتوں، ملکی معیشت کا بے حد نقصان، بم دھماکوں، خودکش حملوں اور کشت و خون کی تاریکیوں کے بعد اب جبکہ سکھ کا سانس لینا نصیب ہوا، امید کی کرن چمکنے لگی ہے تو خداراہ دوبارہ ان حالات کی طرف  ملک کو نا لے جایا جائے۔  

خفیہ معاہدوں اور مفاد پرستانہ فیصلوں کو ایک طرف رکھ کر اس ملک کے بارے میں سوچا جائے۔  

   کیااحسان اللہ احسان کا فرار ہونا سکیورٹی لیپس ہے؟

کیا احسان اللہ احسان کا فرار اداروں کی نا اہلی ہے؟ 

کیا احسان اللہ احسان کو جان بوجھ کر فرار ہونے دیا گیا؟ 

کیا احسان اللہ احسان سے کوئی ڈیل کی گئی؟ 

کیا دوبارہ سے ملکی حالات کو خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے؟ 

کیا پھر سے گڈ اور بیڈ طالبان کے ڈرامے کا اسکرپٹ تیار کیا جارہا ہے؟ 

احسان اللہ احسان کے آڈیو ٹیپ کے حوالے سے عسکری و خفیہ اداروں کی جانب سے کوئی تردیدی بیان کیوں نہیں آیا؟  

ایسا تو نہیں کہ کسی خاص مقصد کو پورا کرنے یا کسی خاص تحریک کو دبانے یا اس سے توجہ ہٹانے کی کوشش یا کسی کو ٹارگٹ کرنے کی غرض سے احسان اللہ احسان کو جان بوجھ کر فرار کروایا گیا؟ 

جیسا کہ اس نے آڈیو ٹیپ میں کہا ہے کہ وہ  خفیہ اداروں اور فوج کے زیر حراست تھا اور بعد ازاں فرار ہوگیا۔ کوئی ذی شعور انسان   کیسے مان سکتا ہے کہ دنیا کے طاقتور ترین فوج، دنیا کے طاقتور ترین خفیہ و سکیورٹی اداروں کی حراست سے ایک بین الاقوامی دہشت گرد اتنی آسانی سے فرار ہوجائے۔ اس ملک اور ریاست کے اداروں سے نا تو اب کوئی التجا کرنے کا من کرتا ہے اور نا ہی کوئی توقعات وابستہ ہیں بلکہ خداوند کریم سے یہی دعا کرتے ہیں کہ اس ملک پر،عوام پر اپنی رحمت کریں اور ہمیں دہشت گردی کے عفریت سے نجات دلائیں۔