شخصیت سے ملیے (دوسرا حصہ)

ایڈووکیٹ شکور خان

انہی دنوں یہ افواہیں تیزی سے گردش کرنے لگیں کہ ہمارے گائیڈ کا استاد حاضر شاہ بلبل ولیجیٹ نامی عوامی دکان کھول رہا ہے، جس میں چیزیں سستی مل جایا کریں گی، یہ سن کر ہم بچے تجسس اور خوشی کے ملے جلے جذبات کا اظہار کرنے لگتے۔

ایک دن  ہم بچوں نے اسکول جاتے ہوئے اسکول کے دروازے کے ساتھ والی بند دکان کے سامنے لوگوں کا ہجوم دیکھا، ہم نے اس جانب دوڑ لگائی،  قریب جاکر دیکھا،  وہاں سودے کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ بوریوں میں بھرے گڑ، مٹھائی اور کھرپرے  کے بے شمار تھیلے،  سرسوں کے تیل اور مٹی کے تیل کے جرکین، ہارڈویر کا سامان،  رنگ بہ رنگے کپڑوں کے تھان، جوتے، جرابیں اور وہ اس طرح قوس ‍‍قزح کے مانند بےشمار شوخ رنگوں والے کوٹ بکھرے پڑے تھے۔

میں تو جیسے بھوک سے نڈھال پرندے کی طرح جھپٹا، ایک ایک شوخ رنگ کوٹ اپنے ننے ہاتھوں میں تھام لیتا اور حسرت کے ساتھ واپس رکھ دیتا، سوچا، میرے والے سے یہ کوٹ تو بہت اعلیٰ ہیں، ان کی قیمت بھی میرے کوٹ کی قیمت سے دوگنی ہوگی، ویسےتو میرے ابو ہم بچوں کی ہر معصوم خواہش پوری کیا کرتے تھےلیکن اس دفعہ یقین نہ تھا کہ قلیل وقفےسے وہ  دوسرا کوٹ بھی لے دیں گے۔

سبز کوٹ مجھے خوب بھا گیا تھا، جسے پہلے ہی الٹ پلٹ کر واپس  رکھ چکا تھا، اسے دوبارہ دیکھنے کو جی مچلنے لگا  لیکن انجانا سا خوف دامن گیر تھا، شاید طاؤس والے دکان دار کا کرخت چہرہ اور سپاٹ لہجہ میرے ننھے ذہن کو دبوچ رہا تھا۔  لیکن  ’’بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق‘‘ میں نے لرزتے ہاتھوں سبز کوٹ کو چھوتے چھوتے پھر سے جھپٹ کر اٹھا لیا،  اور اسی لمحے ننے کاندھے پر کسی کے بھاری بھرکم ہاتھ کا لمس  محسوس ہوا،  خوف سے ریڑ کی ہڈی میں سنسنی سی دوڑ گئی، بہ مشکل مڑ کےپیچھے دیکھا،  ہاتھ  حاضر شاہ بلبل کا تھا، وہ پیار سے میری طرف دیکھ رہے تھے اور مسکرائے جا رہے تھے،  وہ شاید میری ذہنی کیفیت جان چکے تھے، بولے: بہت اچھا کوٹ ہے، لےلو، ہاتھ کے لمس کے ساتھ ہی جس تیزی سے خوف سرایت ہوچکا تھا، ان پر نظر پڑتے ہی اسی تیزی سے رفو چکر بھی ہو گیا، البتہ میں جھینپ سا گیا اور دبےلفظوں میں کہا، ’’کوٹ کتنے کا ہے؟‘‘  وہ بولے، تین روپے کا۔ یہ سن کر میں پھولے نہیں سما رہا تھا، اتنا سستا کوٹ؟  یقین نہیں آرہا تھا،  وہ مزید برلے: یہ کوٹ اڈھائی روپے کا پڑا ہے، چار آنے اور رعایت کروں گا یعنی پونے تین۔  میں تیزی سے بولا: نہیں نہیں پورے تین روپے ہی دوں گا، میں یہ اپنا والا طاؤس سے پندرہ روپے کا خرید لایا ہوں، بلبل بولا: بیٹا، مجھے معلوم ہے، ایک نہیں، یہاں ہر دکان دار دس گنا مہنگا کر کے سامان بیچ رہا ہے، یہ لوگ کسانوں کے ذریعے پیداوار کو مٹی کے بھاؤ خرید کر دوسروں کو تگنی قیمت پر دیتے ہیں، دکان داروں کے ظلم سے کسانوں کو نجات دلانے کے لیے میں لوگوں کے تعاون سے یہ دکان کھول رہا ہوں، کسانوں کے اجناس اچھی قیمت پہ خرید کر کم سےکم منافع لےکر بیچوں گا،  وقت کےان  فرعونوں کو بہت جلد سدھرتے دیکھو گے، جو راہ راست پر نہ آیا وہ گاہکوں کی راہ تکتا رہ جائے گا۔ یوں اس کا ظلمت کدہ بالآخر بند ہو جائےگا،  بچے بڑے سب بلبل کی گفتگو سن رہے تھے۔

تین روپے دام سے میں ذرا بھی نہ گھبرایا، سوچا، کل گندم یا  جو کا غلہ لا کر اس کی قیمت ادا کر کے لے جاؤں گا، یہ سوچ کر میں بولا: جی، میں کوٹ کل لےجاؤں گا، یہ سن کر بلبل مسکرایا، کہنےلگا، کوٹ ساتھ لیتے جانا، تجھےدام کی فکر کیوں ہے یہ میرا اور تمہارے ابو کے درمیان کا معاملہ ہے، تم جاؤ۔

میں کوٹ لےکر بھاگم بھاگ سکول پہنچا، ناپسندیدہ کوٹ  اتار کر بستے میں ٹھونس  کر نیا کوٹ زیب تن کیا تو  اسکول کے صحن میں واہ واہ کی آواز گونجی، مجھے یوں لگا کہ میں سبز رنگ میں نہا گیا ہوں اور میرے ساتھ  سارا جہاں سبزہ زار بن چکا ہے۔

نو سالہ بچہ جس کو کچھ روز قبل ایک  دکان دار نے چند اصول سکھائے تھے، یعنی “ایک دام واحد کلام” یعنی 15 روپے سے قیمت کم نہ ہوگی، دوسرا، گاہک وہی چیز لینے کا پابند ہے، جو دکان دار پیش کرے، چھانٹی یعنی سلیکشن کی اجازت نہیں دی جائے گی، میرا معصوم ذہن ان کاروباری اصولوں پر ایمان لا چکا تھا۔

آج بلبل نے اس تازہ ایمان و یقین پر پوری قوت سےضرب لگائی کہ ایمان متزلزل  ہوگیا، کچا ایمان بلبل کا کاری ضرب سہہ نہ سکا، یوں کرچی کرچی ہوکر مٹی میں مل گیا۔ ایک اجنبی کاروباری نے جو زخم دیے تھےوہ بلبل کے پیار بھرے مرہم نے لمحوں میں بھر دیے تھے۔

آج سوشل میڈیا سے پتہ چلا کہ حاضرشاہ بلبل بیمار ہوکر راولپنڈی کے کسی ہسپتال کے کارڈیالرجی  یونٹ میں داخل تھےاور پیس میکر امپلانٹیشن کے بعد ڈسچارج کر دیے گیے ہیں،  یہ جان کر بےحد دکھ ہوا اور ساتھ ساتھ ان سے وابستہ یادیں ذہن میں فلم کی طرح چلنے لگیں۔

یاسن میں معاشی انقلاب کے حوالےسے جب بھی تاریخ لکھی جائے گی تو اس میں دو ہی نام ملیں گے ایک آغاخان رورل اسپورٹس پروگرام اور دوسرا حاضرشاہ بلبل۔  اس ادارے اور اس شخصیت نے عام آدمی کی معاشی زندگی میں معاشی انقلاب برپا کیا۔

بلبل نےمحض امداد باہمی سے سوسائٹی قائم کر کےسستا کاروبار ہی متعارف نہیں کرایا بلکہ  یاسن میں جدید زراعت اور باغبانی کے بھی بانی وہی ہیں۔  قدیم روایتی فصلوں میں آلو کی فصل کا اضافہ بھی ان کے سر ہے، کسانوں کو بیج فراہم کرنے کے ساتھ انہیں منڈیوں سے بھی متعارف کرایا، سیب اور چیری کے پودے کسانوں کو دہلیز پر فراہم کر کے انہیں باغات لگانے کی ترغیب دیں۔  تر میوہ جات کو خشک کرنے کا میکنیزم فراہم کیا، خشک میوہ جات کو بڑی منڈیوں اور بعد ازاں بین الاقومی مارکیٹ تک رسائی کا اہتمام بھی کیا، دور دراز شہروں سے زیادہ دودھ دینے والی گائےاور بکریاں گاؤں لا کر ‏‏عوامی سطح پر پالنے کی کوشش کی جس میں بوجوہ کامیابی نہ ہو سکی۔

بھرکوھتی گاؤں کی شادابی اور کسانوں کی خوشحالی بلبل کا خواب تھا اوراس خواب کی تعبیر کے لیے ان کے زرخیز ذہن میں پلان موجود تھا۔ گاؤں کےجنوب میں دریائے تھوئی کی جانب شرق اور دریائے درکوت کی غربی جانب وسیع و عریض اراضی بنجر پڑی تھی۔ اس زمین پر چند اشخاص اور گروپوں کا دعوی تھا، بلبل نےاپنی ذہانت، دوراندیشی او ر عوامی تعاون سے دعویٰ  کنندگان کو قابو کر کے ہزاروں کنال زمین سینکڑوں مفلوک الحال کسانوں میں پانچ پانچ کنال فی گھرانہ کے حساب سےتقسیم  کیں، اور کسانوں کےساتھ زمین کی خرید و فروخت پر پابندی کا معاہدہ بھی کیا تاکہ غریب کسان کسی وقتی احتیاج کے ہاتھوں بیچ کر زمین سےہاتھ نہ دھو بیٹھے۔

آج ہرکسان کے پاس جنگل بھی ہے اور مویشی کے لیے قدرے چارہ بھی۔  جاڑے کا موسم  اور سرد شامیں ہیں اورٹمپریچر مائنس دس اور بیس کے درمیان، بچوں نے جنگل سے خوب لکڑی لا کر جمع کر رکھی ہے، لکڑیاں آتش دانوں میں جھونکی جا رہی ہے، آگ دھک رہی ہے، شولےلپک رہے ہیں، کھانے بھی اسی آگ پر ہی پکائے اورکھائے جا رہے ہیں، مہمانوں کی خاطر تواضع کی جا رہی ہے، خشک و ترمیوے دسترخوان کی زینت بنے ہیں، طرح طرح کے موضوعات پر گفت وشنید جاری ہے، ایسےمیں بلبل کو یاد کرنے والے کتنے ہوں گے؟  کیا ہر ایک کو احساس ہو گا کہ اس جلنے والی آگ، اس پر پکنے والی ترکاری اور سرو ہونے والے انواع اقسام کےمیوہ جات خشک و تر کی دسترخوان پر موجودگی بلبل کی کاوشوں کی مرہون منت ہے۔

بلبل  بھرکوھلتی میں پیدا نہ ہوتا تو گاؤں کی معاشی ترقی کی سوئی کافی پیچھے کھڑی ہوتی، اس نےعام آدمی کو فرسودہ سوچوں سےچھٹکارا  دلا کر نئی سوچ دی، معاشی ترقی کی نئی راہیں دکھائیں، اس نےتقاریر اور باتیں کم کیں عمل زیادہ کیا۔  حاضر شاہ بلبل کی زندگی اور خدمات پر کوئی کتاب لکھنے سے بھی ان کی زندگی کے بہت کم پہلوؤں ہی کا احاطہ ہو پائے گا، اس کے لیے کئی کتابیں، مضامین اور مقالے درکار ہوں گے۔

جوکچھ بتایا گیا ہےوہ اس مرد کی شخصیت کےچند پہلو ہیں۔  ہمارے ہاں شخصیت اور جسامت کو گڑمڑ کیا جاتا ہے، بعض ناسمجھ فربہ اندامی اور خوش لباسی کو شخصیت کہتےہیں۔  فربہ اندام تنومند کم عقل ہر محلےمیں پائےجاتے ہیں  لیکن بلبل جیسے کردار کی حامل شخصیت لاکھوں میں ایک ملےگی۔

اس عظیم انسان کےساتھ  راقم کی نہ رشتہ داری ہے نہ خاص قربت،  بلکہ ایک نہیں دو بار ان کی مشاورت سے آلو کاشت کرکے منڈی میں مندی کی وجہ سے خاصا نقصان اٹھایا اور سال بھر کی آمدن سےہاتھ دھونا پڑا تھا،  بلبل پلاٹ کسانوں میں تقسیم کر رہےتھے، راقم نے بھی پلاٹ کی خواہش ظاہرکی تو موصوف نے صاف انکار کر دیا تھا۔

راقم بروشال پبلک سکول کے بورڈ کا چیرمین تھا۔  اسکول کی نئی عمارت کےافتتاح  کے لیے  شخصیت کے انتخاب کے موقعے پر ہم نے کسی اثر و رسوخ کےحامل سیاسی یا مال دار شخص پر معروف سوشل شخصیت کو ترجیح دیں اور وہ بلبل کے سوا کون ہو سکتا تھا۔ انہیں کےدست مبارک سے فیتہ کاٹ کر افتتاح کیا گیا۔

بلبل کی تعلیم واجبی سی ہے، وہ نہ پیشہ ور کاروباری ہے نہ زیادہ مال دار اور نہ سیاسی، ان کا شمار گاؤں کے عام لوگوں میں ہی ہوتا رہا ہے کیونکہ خود کو انہوں نے کھبی نمایاں نہیں کیا۔

وہ نام نہاد لیڈر جو بات غریب کی کرتے ہیں اور اٹھتے بیٹھتے ہمیشہ اپنے جیسے امیروں کے ساتھ ہیں اور کام بھی انہی کا ہی کرتے ہیں، ایسے لوگ شخصیتیں نہیں ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم  بلبل جیسی حقیقی شخصیتوں کے مرحومین  ہونے کا انتظار نہ کریں بلکہ زندگی ہی میں ان کی قدر جانیں، ان سے سیکھیں، ان کی خدمات کو سراہیں اور ان کےنقش قدم پر چلیں۔