شرم نہیں آتی پھر بھی صوبہ صوبہ کر رہے ہیں

شیرنادر شاہی

مجھے شرم اس لiے نہیں آرہی کہ یکم نومبر 1947 کو کشمیری ڈوگروں سے لی گئی  16 دنوں کی آزادی ہمارے اجداد گنوا بیٹھے اور نہ ہی شرم اس بات کی کہ گزشتہ ستر سالوں سے دنیا میں غلاموں کی طرح دربدر ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ شرم اس بات کی بھی نہیں آرہی ہے کہ ریاست نگر اور ریاست ہنزہ کے میروں  کا الحاق(بقولِ چند موقع پرست) کو پاکستان کے حکم رانوں نے  ٹھکرا دیا، اس بات میں بھی کوئی شرمندگی نہیں ہے کہ بہ طور قوم گلگت بلتستان کی دو ملین عوام اکھٹے نہیں ہوسکے اور کبھی مسلکی، کبھی علاقائی اور کبھی لسانی بنیادوں پر ایک دوسرے کے گلے کاٹتے رہے۔ اس بات کی بھی شرمندگی نہیں کہ خطے کے عوام پاکستانی جماعتوں کو اپنا مسیحا سمجھتے ہوئے ان کے  نمائندوں کو ووٹ دیتے رہے اور بدلے میں سوائے جھوٹے وعدے، سہانے خواب  اور کھوکھلے نعروں کے کچھ بھی حاصل نہیں کر سکے تو پھر مجھے کس بات پر شرمندگی محسوس ہو سکتی ہے۔ اس کا اظہار  چند سادہ جملوں میں کرنے کی کوشش کروں گا۔

میرا تعلق اس بدقسمت خطے سے ہیں جہاں کے لوگ ذہنی غلامی کا شکار ہیں اور بہ قول ایک مفکر جسمانی غلامی سے آزادی ممکن ہیں لیکن جب تک لوگ ذہنی طور پر غلام رہیں گے ان کو آزاد کرانا ناممکن ہے۔ بالکل اسی طرح ہمارے لوگ بھی ذہنی غلامی کے آخری درجے پر فائز ہیں وہ بھی پڑھی لکھی یوتھ۔ 

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ گلگت بلتستان دنیا کے نقشے پر مسئلہ ریاست جموں کشمیر سے جڑا عالمی طور پر تسلیم شدہ متنازعہ خطہ ہے، جس کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ اقوام متحدہ کے قراردادوں کی روشنی میں رائے شماری کے ذریعے ہونا باقی ہے اور اس کو نہ صرف ہندوستان بلکہ پاکستان بھی اقوام متحدہ میں تسلیم کر چکا ہے، جس کی وجہ سے پاکستان اس خطے کو اپنا پانچواں آئینی صوبہ نہیں بنا سکتا، جس کا اظہار کئی مرتبہ پاکستان کے صدور، وزرائے اعظم، فوجی آمر، اعلیٰ عدلیہ، پارلیمنٹ، قانون دان، سیاستدان، میڈیا، وزراء حتیٰ کہ گلگت بلتستان میں موجود غیر (پاکستانی) پارٹیوں کے سربراہان بھی کرچکے ہیں۔ لیکن صد افسوس نام نہاد موقع پرست نمائندوں پر جو بار بار اس بات کو ماننے سے انکار کررہے ہیں کہ گلگت بلتستان متنازعہ علاقہ ہے اور اس کا آئینی صوبہ بننا ناممکن ہے۔ حالانکہ پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ سپریم کورٹ نے کئی مرتبہ گلگت بلتستان کو متنازعہ قرار دیا ہے اور پاکستانی آئین کا اس خطے پر اطلاق غیر قانونی  قرار دیتے ہوئے متنازعہ خطے کے عوام کو حاصل شدہ حقوق دینے کا بھی حکم کئی مرتبہ جاری کیا ہے لیکن پھر بھی شاہ دولے کے چوہے اس بات کو ماننے سے انکاری ہے اور بار بار صوبہ بناؤ کی رٹہ لگا رہے ہیں۔

مجھے ایسے لوگوں کے نامناسب، غیر قانونی اور جذباتی نعروں  پر افسوس اور  شرمندگی محسوس ہو رہی ہے کیونکہ ان کے ایسے نا مناسب نعروں اور مطالبات کو مرکز میں ان کی اپنی پارٹیاں اور پارٹیز کے رہنما مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے ان کو ذلیل و خوار کرتے ہیں لیکن پھر بھی یہ اپنے ساتھ ہونے والے ذلت آمیز رویوں کا کوئی احساس کرنے کے بجائے خود دعوت دیتے ہیں کہ آؤ ہمیں ذلیل کرو۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستانی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے گلگت بلتستان کے نمائندے ایک طرف خود کو پاکستان کا وفادار قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف پاکستان کی عدالت عظمیٰ کا حکم ماننے سے انکار کرتے ہوئے توہین عدالت کے بار بار مرتکب ہو رہے ہیں۔ ایسے سیاسی نا خداؤں کو کون سمجھائے کہ اس خطے کو اگر آئین میں شامل کرنا آسان ہوتا تو معاہدہ کراچی کے فوراً بعد کیا جاتا۔ مضبوط جمہوری رہنماؤں ذولفقار علی بھٹو(جس نے ملک کوآئین دیا)، بےنظیر بھٹو( دو مرتبہ وزیراعظم رہی) ، نواز شریف (پارٹی سربراہ اور تین مرتبہ وزیر اعظم رہے) سے لے کر مضبوط ترین آمر ضیا الحق اور پرویز مشرف تک کوئی بھی لیڈر ستر سالوں میں اس خطے کی متنازعہ حیثیت کو تبدیل نہیں کرسکا  اور نہ ہی آئین میں شامل کر سکا تو شاہد خاقان عباسی یا ذرداری، جیسے بےاختیار حکم ران گلگت بلتستان کو کیا خاک آئین میں شامل کرسکیں گے۔ بہتر ہے صوبہ صوبہ کھیلنا بند کیا جائے اور اسلام آباد میں اپنی ماضی کی حکومتوں پر ذرا نظر دوڑاتے ہوئے کچھ شرم کریں کہ کئی مرتبہ اقتدار میں رہنے کے باوجود خطے کے عوام کو جھوٹے اعلانات اور کھوکھلے نعروں کے سوا کچھ نہیں دے سکے اور  آئینی صوبہ بناؤ جیسے مطالبات کے ساتھ تحریک چلا کر قوم کا وقت ضائع نہ کریں اور بہتر ہے کہ صوبے کے جھوٹے وعدوں، کھوکھلے نعروں اور دعووں میں الجھا  کر  ستر سالوں میں گلگت بلتستان کے عوام کا عزت نفس مجروح کرنے پر قوم سے معافی مانگیں اور کشمیر طرز کا با اختیار سیٹ اپ یا اقوامِ  متحدہ کی نگرانی میں بااختیار  آئین ساز اسمبلی کے لیے قوم کو متحد کریں ورنہ آنے والی نسلیں تمہیں میر صادق اور میر جعفر جیسے القابات سے یاد کرے گی۔