صاف چلی شفاف چلی
وقاص احمد
برادر محترم عاطف توقیر نے پچھلے دنوں لکھا کہ ’’پی ٹی آئی کا مجموعی انتخابی سفر کچھ یوں ہے۔
سن دو ہزار دو: ہم مکمل طور پر صاف شفاف ہیں۔
سن دو ہزار آٹھ: ہم صاف شفاف ہیں۔
سن دو ہزار تیرہ: ہم قدرے صاف ہیں۔
دو ہزار اٹھارہ: ہم دیگر کے مقابلے میں کم گندے ہیں۔
دو ہزار تئیس کے انتخابات کا نعرہ احباب خود سمجھ جائیے۔‘‘
اب ناں تو اس میں کچھ ہنسنے والی بات ہے نا غصہ کرنے اور ناراض ہونے کی۔ ایک سیدھا سادہ واقعاتی سچ تھا جو چند جملوں میں انہوں نے سمیٹ دیا۔ لیکن پی ٹی آئی کے بچے کچھے “نظریاتی کارکنان” کے لیے اس میں فکر کے بہت سے مواقع ہیں۔ میں بوجوہ خان صاحب کا ناقد ضرور ہوں لیکن بخدا ماضی میں خانصاحب کے اردگرد بیٹھے لوگوں پر انگلی اٹھانے کی مجھ میں ہمت نہیں تھی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ خانصاحب کی مبینہ “سیاست” کے آغاز سے اب تک اگر میں اپنے تجزیے کی درستگی پر کبھی شک کا شکار ہوتا تھا تو اس کی وجہ یہی لوگ تھے۔
اکبر ایس بابر، جن کو خود خانصاحب “بے رحمانہ حد تک ایماندار” کہتے تھے، جسٹس (ر) وجیہہ الدین جیسے نفیس, شریف النفس اور بااصول انسان، معراج محمد خان جیسا بڑا بائیں بازو کے نظریات کا فلاسفر، تسلیم نورانی جیسا نفیس و شریف انسان، حامد خان جیسا بڑا وکیل اور پھر جاوید ہاشمی جس کی جرات، وطن دوستی، جمہوریت پسندی اور اصول پرستی پر اس کے کٹر سے کٹر مخالف بھی گواہی دیتے ہیں۔ جب میں یہ لوگ خانصاحب کے اردگرد دیکھتا تو کنفیوژ ہوجاتا کہ وقاص یقیناً تمہارا ہی خانصاحب کے لیے تاثر غلط ہے کہ ایسے تجربہ کار، پڑھے لکھے اور سلجھے ہوئے لوگ تو کسی غلط فہمی کا شکار نہیں ہو سکتے۔ یا تو یہ لوگ غلط ہیں یا پھر میں غلط ہوں۔ یا تو ان لوگوں کا ہی خانصاحب کے ساتھ جوڑ نہیں بنتا یا پھر مجھے بھی انہی کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔
برس گزرتے رہے اور خانصاب کی مشکوک ذات کے ارگرد لگے ہوئے یہ سونے کی پتیوں ماند لوگ ایک ایک کر کے جھڑتے چلے گئے اور جب اس قبیل کے سبھی لوگ چلے گئے تو ایک زنگ لگی شخصیت ننگی ہوکر اس بیچاری قوم کے سامنے آگئی جو “تبدیلی کی امید سے تھی”۔
خیر اب خانصاحب کے اردگرد کے مجمع کو دیکھ کر اس بات کی تفصیل میں جانا عبث ہے کہ میرا 10-12 سال پرانا تجزیہ درست تھا یا پھر جسٹس وجیہہ اور جاوید ہاشمی کی قبیل کے لوگوں کا۔ خانصاحب جن کے تھے، جن کے جیسے تھے، اجکل انہی کے درمیان ہیں اور اللہ کرے وہ وہاں خوش رہیں۔ تبدیلی کے سفر کا “صاف چلی شفاف چلی سے” سے آغاز ہو کر “رام تیری گنگا میلی ہوگئی” پر خاتمہ بالخیر ہوچکا ہے۔
مگر میرا موضوع گفتگو تو وہ مخلص، نیک نیت، محب الوطن فین کلب ہے جو خانصاحب کو تبدیلی کا علمبردار سمجھتے تھے اور ہیں۔ ان گزرے برسوں میں خانصاحب نے کتنے بیانات بدلے، کتنے جھوٹ بولے، کتنی غلطیاں کیں، کتنے یوٹرن لئے اور کتنی دفعہ اصولوں کو پامال کیا لیکن اس سب کے باوجود یہ فین کلب خانصاحب کا دفاع کرتا رہا۔ خانصاب کی پارٹی مکمل طور پر اس طرح ری ویمپ ہوئی جیسے مرسیڈیز کی باڈی کے اندر ٹریکٹر، سائیکل، موٹر سائیکل اور پیٹر انجن کے پرزے بھر کر چلانے کی کوشش کی گئی ہو مگر یہ فین کلب خانصاحب کے ساتھ چپکا رہا۔ یہ درست ہے کہ نیک نام اور پڑھے لکھے لیڈران کے جانے کے ساتھ ساتھ پڑھے لکھے فالورز بھی پی ٹی آئی چھوڑ کر جاتے رہے مگر اکثریت کی امیدیں ابھی بھی قائم تھیں یہاں تک کہ الیکشن 2018 کے ٹکٹ دینے کا مرحلہ آگیا۔
میرا ایک بہت ہی پیارا دوست ہے، پی ٹی آئی سے تعلق ہے۔ میں جب بھی کسی نذر گوندل،کسی راجہ ریاض، کسی فردوس عاشق کی شمولیت کی خبر اسکو دیتا تو وہ یقین محکم سے مسکرا کر کہتا کہ پارٹی میں آنے پر کوئی پابندی نہیں مگر خان ان کو ٹکٹ ہر گز ہر گز نہیں دے گا۔ مگر افسوس۔۔۔۔ آج ٹکٹ تقسیم ہو چکے اور یہ ٹکٹ کن کے پاس ہیں وہ بھی ہم سب کو معلوم ہے۔ یہ بحث بھی لایعنی ہے کہ ان حضرات کو ٹکٹ خانصاحب خود دے رہے ہیں یا پھر ان سے دلوائے جارہے ہیں۔ ظاہر ہے جب آپ Lucifer کے پاس اپنی روح گروی رکھوائیں گے تو آپ کی سانسیں، آپکے فیصلے، آپکی سوچ، آپ کے کام اور آپ کی پوری زندگی صرف اسی کے احکامات کے تابع ہوگی۔ (جن حضرات کو Lucifer کا نہیں پتہ وہ گوگل کر لیں).
مجھے دکھ صرف ایک بات کا ہے اور وہ دکھ یہ ہے کہ تبدیلی کے اس ناکام ڈرامے کے بعد جس چیز کو سب سے زیادہ زک پہنچی ہے وہ بذات خود تبدیلی ہے۔ خانصاحب نے ایک احسان بہرحال اس قوم پر کیا ہے کہ انہوں نے اس ملک کی اصل اشرافیہ کو ننگا کر کے عوام کے سامنے کھڑا کر دیا ہے۔ سیاستدان تو 70 سال سے ہم لوگوں کا تختہ مشق تھے لیکن اب سوال ان پاکدامن فرشتوں پر اٹھتے ہیں جو پاکستان کے اصل مسائل کی جڑ ہیں۔ اگر خانصاحب نا ہوتے تو وہ لوگ آج بھی اسرار کے دبیز پردوں کے پیچھے بیٹھے فرشتوں سے ناآشنا ہوتے۔ شکریہ خانصاحب کہ آپ کی بدولت میری نسل نے مسائل کی جڑ ڈھونڈ لی ہے، اب میرا بیٹا یا میرے بیٹے کا بیٹا ان مسائل سے چھٹکارا بھی پا لے گا انشاءاللہ۔
یہ لمبی لڑائی ہے اور مجھے کوئی جلدی نہیں۔