کھیل ہے جنگ نہیں، جنگ ہے کھیل نہیں

101
عاطف توقیر سن 1971 میں ہم نصف ملک ہار بیٹھے تھے مگراسی سال ہسپانوی شہر بارسلونا میں ہاکی کا ورلڈ کپ پاکستانی ٹیم نے اپنے...

ماہواری اذیت ہے یا نجاست، مردوں سے سوال؟

4
مہنازاختر دوستو! مارچ کا مہینہ خواتین کا مہینہ ہے۔ اس مہینے خاص شدت کے ساتھ خواتین کے حقوق پر بات کی جاتی ہے اور ان...

پشاور بم دھماکہ، دہشت گردی کا عفریت اور پختونوں کا قومی...

4
 عابد حسین گزشتہ ہفتے پشاور ایک اور بڑے سانحے سے دوچار ہوا۔ پشاور باسیوں نے پولیس وردی میں ملبوس اپنے ایک سو چار شہدا کی...

HOUSE DESIGN

بستی، جہموریت اور جھگڑا

2852
جواد احمد بھٹی میرا گزر ایک بستی سےہوا۔ وہاں ایک نہایت ہی خستہ حال سا بورڈ لگا ہوا دیکھا جس پر لکھے ہوئے حروف تقریباﹰ...

STAY CONNECTED

22,952FansLike
71,243FollowersFollow
29,800SubscribersSubscribe

MAKE IT MODERN

LATEST REVIEWS

پشتون تحفظ تحریک اور غیر ملکی ایجنڈا

2406
حمزہ سلیم پاکستان کے صوبے خیبرپختونخواہ کے شہر پشاور میں تین روز پہلے پشتون تحفظ تحریک کے زیراہتمام ایک بہت بڑا اجتماع کیا گیا۔ اس...

PERFORMANCE TRAINING

دل رویا الہیٰ

4208
شیزا نذیر عمران ہاشمی بالی ووڈ میں ان چند ادا کاروں میں سے ایک ہے جو صرف اور صرف اپنی بہترین اداکاری کی بنا پر...

آزادی کے نام کی زنجیریں

3569
ساجدہ شاہ جب ہم عورت کی حق کی بات کرتے ہیں تو سوال یہ اٹھایا جاتا ہے کہ ہم کس حق کی بات کر رہے...

علامہ اقبال کا خط جواد بھٹی کے نام

5348
جواد بھٹی وعلیکم السلام۔ خط تو تمھارا بہت پہلے ملا تھا مگر شدید مصروفیات کی وجہ سے جواب نہ دے سکا۔ تمھیں آسانی سے جو...

جنس کا پہاڑ (آخری حصہ)

2885
عفاف اظہر چھٹی کا دن تھا ناشتے میں ہاتھ بٹانے سے فارغ ہوئی تھی کہ دادی نے سبھی کمروں کی بے ترتیبی دورکرنے کی ذمہ...

شاید کچھ نیا ہونے جارہا ہے !

99
 عابد حسین استاد محترم جناب پروفیسر وسیم خٹک صاحب نے "شاید  کچھ نیا ہونے جارہا ہے"  کے عنوان کے ساتھ تحریک طالبان پاکستان احرار گروپ...

HOLIDAY RECIPES

بلوچ علیحدگی پسند تحریک کے نام پر خون کا سودا

103
شہزاد حسین ایمنسٹی انٹرنیشنل جرمنی چیپٹر کے ایک اعلیٰ عہدیدار سے غیر رسمی گفتگو میں معلوم ہوا کہ میرے خلاف کسی بلوچ شناخت کے عناصر...

WRC RACING

HEALTH & FITNESS

BUSINESS

وقاص احمد

اگر میری یاداشت درست کام کرتی ہے تو میں نے اپنے کسی پرانے مضمون یا کسی پوسٹ میں ایک انگریزی دیو مالائی داستان لوسیفر سنائی تھی۔ اس کہانی میں لوسیفر لوگوں کی خواہشات پوری کرتا تھا اور معاوضے میں ان کی روح کا سودا کرلیتا تھا۔ ہوتا کچھ یوں تھا کہ شیطان لوگوں کو پیشکش کرتا کہ میں تمہاری ایک خواہش پوری کروں گا اور اس کی قیمت اپنی مرضی کے وقت پر تم سے وصول کر لوں گا۔ اس سودے کی ضمانت ان کی روح ہوتی تھی۔ لوگ زن، زر، زمین اور اقتدار کے لالچ میں سودا کرلیتے تھے مگر آخر میں ان کا انجام بہت عبرت ناک ہوتا تھا۔ مملکت ناپرساں میں بھی آج کل    ادائیگی کا موسم ہے۔

اقتدار و اختیار کے لالچ میں کچھ لوگوں نے اپنے ضمیروں کا سودا ان مقتدر حلقوں کے ساتھ کیا جن کا شیطانی کردار شیطان کو بھی شرماتا ہے۔ دونوں فریقین کو یہ بات معلوم تھی کہ اس اقتدار کی ایک قیمت ہے جو کبھی نہ کبھی چکانی پڑے گی لیکن ظاہر ہے لالچ انسان کو اندھا کر دیتا ہے۔ ہماری اس سیاسی لوسیفرکہانی کے شیطان نے یہ یقین دلایا تھا کہ یہ انتظام کم از کم دس سال تو کہیں نہیں جائے گا اور اسی یقین دہانی کے باعث 2018 میں ضمیر فروشی کا وہ بازار لگا جس کا خمیازہ آج پاکستان تباہی کی شکل میں بھگت رہا ہے۔ منصوبہ سازوں نے تو دس سال کا پلان بنایا تھا لیکن قرائن سے لگتا ہے کہ خدا تعالیٰ کو یہ منصوبے منظور نہیں تھے اس لیے کشتی پانی میں اتارتے ہی ڈوبنا شروع ہوگئی۔ بہت ہاتھ پاؤں مارے گئے، صحافیوں کو کہا گیا کہ عوام کو بتائیں کہ کشتی ڈوب نہیں رہی، صحافی بے چارے کتنی بھی “مثبت رپورٹنگ” کر لیتے مگر جب پانی عوام کی ناک تک پہنچ گیا تو وہ کیسے مثبت رپورٹنگ پر یقین کرتے کہ کشتی ڈوب نہیں رہی۔

مثبت رپورٹنگ کی ناکامی کے بعد احتساب کے نام پر سیاسی مار دھاڑ شروع کی گئی تاکہ ایک طرف عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹائی جا سکے اور دوسری طرف اپوزیشن کو دیوار سے لگا کر حکومت تحریک چلائی جائے اور شیخ چلی حکومت کو ہمدردی کا ووٹ یا سیاسی شہادت کا درجہ دلوایا جائے۔ کائیاں اپوزیشن منصوبے میں شامل نہیں ہوئی۔ اس کے بعد “ان ہاؤس تبدیلی” کا ڈول ڈالا گیا کہ شیخ چلی کی جگہ اسی اسمبلی سے شیخ چلی پارٹی کا دوسرا بندہ وزیراعظم بنایا جائے۔ یہ منصوبہ بھی ناکام ہوا۔ پھر اگلے منصوبے میں دوسری پارٹیوں سے نیا وزیراعظم منتخب کرنے کی آفر شروع کی گئیں تاکہ “ڈاکٹرائن” کو کسی نا کسی طریقے سے جاری و ساری رکھا جاسکے مگر یہ منصوبہ بھی مقبول عام نہ ہوسکا۔ اب ہر منصوبہ فیل ہونے کے بعد شیخ چلی کے بچاؤ کا نیا پلان ترتیب دیا گیا ہے۔ ڈاکٹرائن کو زندہ رکھنے کے لیے ایک کٹھ پتلی غلام کا وزارت عظمیٰ پر رہنا اشد ضروری ہے اور منصوبہ ساز بے رحمی اور سفاکی کی حد تک اس بات سے بالکل بے پرواہ ہیں کہ اس غلام کا کردار کون ادا کررہا ہے۔ مناسب گھوڑا میسر نہ آنے کی وجہ سے پرانے خچر کو طاقت کے انجکشن لگا کر ریس ٹریک میں زندہ رکھنے کا اہتمام جاری ہے۔ اس پلان کا مرکزی خیال بہت سادہ ہے یعنی “شیخ چلی بہت ایماندار ہے مگر مافیا نے اسکے ہاتھ باندھے ہوئے ہیں”  ثبوت اس بات کا یہ ہے کہ جی ایچ کیو کے سیورج سسٹم کے ساتھ بندھے لاؤڈ اسپیکر جناب شیخ رشید گاؤں کے میراثی کی طرح ڈھول بجا بجا کر چوہدریوں کا پیغام گاؤں میں پھیلا رہے ہیں کہ اب نیب حکومتی حلقوں میں بھی کاروائی کرنے جا رہی ہے۔

آپ کو کیا لگتا ہے کہ اچانک شیخ چلی میں کوئی علامہ اقبال والی “عقابی روح” بیدار ہوگئی ہے؟ یا ڈاکٹرائن سرکار پر “اچانک” انکشاف ہوا ہے کہ غلام سرور، گجراتی چوہدری، خسرو بختیار، عاطف خان اور پرویز خٹک وغیرہ کرپٹ لوگ ہیں؟ نہیں بالکل نہیں! یہ بات ڈاکٹرائن سرکار اور شیخ چلی کو ہمیشہ سے معلوم تھی۔ اس وقت بھی جب ان لوگوں کا ہانکا لگا لگا کر انہیں شیخ چلی کی سپورٹ میں اکٹھا کیا جارہا تھا۔ مجبوری یہ تھی کہ ان لوگوں کے بغیر شیخ چلی کا انتخاب جیتنا تو دور کی بات، اپنے گھر کا بجلی کا بل تک نہیں بھر سکتا تھا۔ اس لیئے شیخ چلی نے انہیں آگے بڑھ بڑھ کر گلے لگایا۔ اس “سودے بازی” میں کوئی بھی معصوم چوچا نہیں تھا۔ جہانگیر ترین اور دیگر کو بخوبی معلوم تھا کہ وہ شیخ چلی پر پیسہ کیوں لٹا رہے ہیں اور شیخ چلی کو بخوبی معلوم تھا کہ اس کو ملنے والی گاڑیوں، جہازوں کا خرچہ، اس کی شادیوں اور طلاقوں پر لٹائے جانے والے پیسے اور اس کو تیتر، بٹیرے، شہد، شباب اور کباب فراہم کرنے لیے لٹایا جانے والا یہ پیسہ جہانگیر ترین اور دیگر “کرپٹ مافیا” کیسے واپس وصول کریں گے۔ دونوں فریقین اس سودے کی مکمل جزیات سے آگاہ تھے اور جہاں تک رہی ڈاکٹرائن سرکار تو ان کو یہ سودا ہر حالت میں طے کروانا تھا کیونکہ ان کا اپنا کاروبار اس پر منحصر تھا۔ تو یہ بات ذہن سے کھرچ کھرچ کر نکال دیجئے کہ اس سودے کے تینوں فریقوں میں سے کسی ایک سے کوئی بھی چیز چھپی ہوئی تھی۔

جو چیز تینوں فریقین کو معلوم نہیں تھی وہ یہ تھی کہ یہ ڈاکٹرائن اتنے برے طریقے سے فیل ہونے جا رہا ہے کہ پاکستان کا اپنا مستقبل داؤ پر لگ جائے گا۔ تو اب بچاؤ کے تمام آپشنز ختم ہوجانے کے بعد اور اپوزیشن کا شیخ چلی کے سیاسی جنازے کو کندھا دینے سے صاف انکار کے بعد اب ڈاکٹرائن کو بچانے کے لیئے صدقے کے کالے بکروں کی قربانیاں شروع ہونے لگی ہیں۔ شیطانی پہیہ گھومنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ وصولی کا طریقہ کار یہی طے پایا ہے کہ جن کو اقتدار دلوایا تھا۔ اب ایک ایک کرکے ان کو اسی اقتدار کی قربان گاہ میں قربان کیا جائے گا۔ اب چیخنے چلانے اور انٹرویو میں انکشافات کرنے کا فائدہ نہیں۔ اب یہ کالے بکرے ڈاکٹرائن کی سلامتی کی خاطر ذبح ہوں گے۔ اس امید کے ساتھ کہ شاید ڈاکٹرائن کے گناہ معاف ہوجائیں اور وہ شیخ چلی کی شکل میں اپنا وجود برقرار رکھ سکے۔ ڈاکٹرائن اس حد تک بے تاب ہے کہ اپنا مستقبل بچانے کے لیئے خود شیخ چلی کو قربان کرنے کا فیصلہ دو منٹ سے بھی کم عرصے میں کر لے گی مگر اس سے ہوگا کچھ نہیں۔ گناہ بہت بڑا ہے، ظلم بہت بڑا ہے، تباہی بہت بڑی ہے۔ اب کی بار شاید صدقے کے کالے بکروں کی قربانی بھی توبہ کے لیئے ناکافی ہو۔ اب کی بار شاید مقدس گائے کی قربانی ہی گناہوں کا کفارہ ادا کرسکے گی۔

98 COMMENTS

Comments are closed.