صوابی جلسہ اور آزادی کا مہینہ
فیاض الدین
صوابی میں پی ٹی ایم کا جلسہ ۱۲ اگست کوہو گیا۔ میں یہ سمجھتا تھا کہ یہ دکھ بھری کہانیاں صرف فاٹا اور سوات کے علاقوں سے تعلق رکھتی ہیں مگر صورتحال یکسر مختلف رہی، صوابی بھی وہی منظر پیش کر رہا ہے، کسی کا شوہر غائب،کسی کا بھائی غائب، کسی کا باپ غائب۔اسلام یہ درس دیتا ہے کہ مظلوم کا ساتھ دیا جائے اس کے دکھ ودرد میں شرکت کی جائے،اس کی مدد کی کوشش کی جائے مگر بدقسمتی سے وطن عزیز میں یہ رسم چلی ہے کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے، جو آواز ان مظلوموں کے لیے اٹھتی ہے اس آواز کو غدار کہا جاتا ہے اور اس کو ملک دشمن قرار دیا جاتا ہے، مجھے یہ بتایا جائے کہ دنیا کا کون سا قانون یہ کہتا ہے کہ مظلوم کی مدد کرنا ان کے مسائل کو سامنے لانا غداری ہے؟
دنیا میں موجود وہ کون سا قانون ہے جو کہتا ہے کہ آئین کی بات کرنا غداری ہے۔
ایک ایسا ماحول پیدا کیا گیا ہےکہ سرخ ٹوپی سے بھی ہمیں ڈر لگنے لگا ہے۔ جو غداری کے فتوے بانٹتے ہیں وہ ضرور یہ کہتے ہونگے کہ یہ کم عمر،کم عقل جوان ہمیں قانون سکھانے نکلا ہے۔ یہ عجیب جوان ہے۔ اس کی ہمت کو دیکھو ذرا! یہ آئین کی بات کر رہا ہے۔ ہمیں آئین کا پتہ ہے۔ ہم تو آئین کا بہت احترام کرتے ہیں۔کبھی بھی آئین کوپامال نہیں کیا۔کبھی بھی آئین کو توڑ کر حکومت بنانے کی کوشش نہیں کی۔ یہ عجیب نوجوان ہے کہہ رہا ہے کہ جن کو پکڑا ہے انہیں عدالت میں پیش کیا جائے۔ اس کم فہم جوان کو کوئی یہ سمجھائے کہ ہم ہی قاضی ہیں۔ ہم ہی منصف ہیں۔ ہم ہی حاکم ہیں۔ اس جوان کو کوئی یہ سمجھائے کہ ہم آئین جانتے ہیں۔ اس جوان کو کوئی سمجھائے کہ ہم انسانوں کو غائب کر کے ملک وقوم کی جنگ لڑ رہے ہی۔ اس کو اتنا نہیں پتہ کہ لوگوں کے پیاروں کو غائب کر کے ملک کی خدمت کی جارہی ہے۔ اس کم فہم اور کم علم جوان کو یہ سمجھایا جائے ملک کی خاطر ہم نے جہاد لڑا۔ ملک کی خاطر ۔ ہم نے محترمہ فاطمہ جناح کو غدار بھی ملکی مفاد میں کہا گیا۔ خان عبدالغفار خان کا فلسفہ عدم تشدد ملک کے وسیع ترمفاد میں صحیح نہیں تھا اس لیے انہیں بھی ہمیں مجبورا غدار بنانا پڑا۔
اس نوجوان کو کوئی یہ سمجھائے ہم سے سوال نہیں کیا جاتا۔ اس کو اتنی سمجھ نہیں ہے یہ اتنا نالائق ہے کہ ہمارے سامنے کھڑے ہوکر سوال کرتا ہے، انصاف کی بات کرتا ہے، حقوق مانگتا ہے۔ یقین جانیں یہ جوان کسی اور دنیا میں رہتا ہے۔ اسے سچائی کو قبول کرنا چاہیے۔ یہ شاید مریخ پر رہتا ہے۔ اس کو سوال کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اس منظور پشتین کو صوابی کے ان نوجوانوں سے سیکھنا چاہیے جو اس جلسے کے خلاف تھے وہ اصلی محب وطن تھے۔
صوابی کے وہ نوجوان جو منظور کے خلاف تھے جن کو اس ماں کے آنسو نظر نہیں آئے وہی محب وطن ہیں اور منظور غدار ہے۔ صوابی کا وہ جوان جس کو اس ننھی بچی کی چیخیں نظر نہیں آئیں، وہی جوان محب وطن ہے، جو اپنے بابا کے متعلق پوچھ رہی تھی کہ میرے بابا کہاں ہیں،صوابی کا وہ جوان محب وطن تھا جس کو بوڑھے باپ کے آنسو نظر نہیں آئے جو اپنے غائب بیٹے کے لیے آواز اٹھا رہا تھا،صوابی کا وہ جوان محب وطن تھا جس نے جھنڈے کو لہرایا ،ماں کی فریاد ، باپ کے آنسو اوربچیوں کا اپنے باپ کے لیے رونا ان کونظرانداز کرنا اور جو ان مظلوموں کا درد بانٹنے آئے ہیں ان کے خلاف نعریں لگانا اور جھنڈا لہرانا دراصل یہی حقیقی حب الوطنی ہے، کیونکہ جھنڈا لہرانا ملک کے وسیع ترمفاد میں ہے،جو رورہے ہیں، جوفریاد کر رہے ہیں،جو حقوق مانگ رہے ہیں۔ یہ سب جاہل اور غدار ہیں انہیں نظرانداز کرنا اور انہیں کوریج نہ دینا ہی حب الوطنی ہے۔
میڈیا بھی واقعی آزاد ہے۔ میڈیا کا کام ہے عوام کو سچائی دیکھانا،ماشا اللہ وہ سچائی سے کام لے رہے ہیں مطلب جو ہدایات انہیں مل رہی ہیں ان کے مطاق وہ چل رہے ہیں ، دراصل فیصل آباد میں گدھے کو کرنٹ لگنا ، یا بنوں میں کتے کو قتل کئے جانے کی خبر کو نشر کرنا ضروری ہے کیونکہ یہ انسانوں سے اہم ہیں اس لیے اس کو بریکینگ نیوز بنایا جاتا ہے جبکہ جن کا باپ غائب ہو تو ہمیں کیا؟ کسی کا بیٹا غائب ہے تو ہمیں کیا؟ کسی کی ماں رو رہی ہے تو ہمیں کیا؟ کسی کا بھائی رورہا ہےتو ہمیں کیا؟ صوابی جلسے میں وہ کون سی آنکھ تھی جو اشک بار نہ تھی مگر ہمیں کیا؟
آزادی کا مہینہ ہےمگر منظور جیسے غدارلوگ مظلوم کی آواز کو آزادی کیساتھ سامنے نہیں لاسکتے ہیں ان کے دکھ اور درد کو سامنے لانا غداری ہے۔میڈیا مظلوم کونہیں دکھائے گا ۔ہاں البتہ ظالم کو مزید ‘‘گلوریفائی’’ کرے گا۔
ظالم کو سوچنا چاہیے اسے اللہ تعالی کی عدالت میں پیش ہونا ہے؟ وہاں یہ بچیاں،یہ مائیں جب سوال کریں گی تو کیا جواب دیں گے؟ مجھے قرآن کی وہ آیت یاد آرہی ہے کہ جب اس بچی سے پوچھا جائے گا کہ تمہیں کس جرم میں قتل کیا گیا؟ القرآن
اس بات میں حکمت کیا ہے آخر مقتول سے کیوں پوچھا جارہا ہے کہ بتاو تمہیں کس جرم میں قتل کیا گیا؟ قاتل سے بات نہیں کی جارہی ہے، اس میں حکمت اور فلسفہ ہی یہی ہے کہ یہ اللہ کے غصے وغضب کا اظہار ہے یعنی قاتل اس لائق ہی نہیں کہ اس سے بات کی جائے، یہ اللہ کے غصے کاظہورہوگا اس مقتول اور مظلوم سے پوچھا جائے گا کہ بتاو کس جرم میں تمہیں قتل کیا گیا!
اپنی آخرت کو سامنے رکھ کر ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم اس دن کے لیے تیار ہیں؟ یہ دنیا تو ختم ہو جائے گی اور یہاں ہونے والا ہر ظلم بھی ختم ہوجائے گا مگر اللہ کی عدالت وطن عزیز کی عدالت کی طرح نہیں ہوگی کہ نقیب اللہ محسود کے قاتل بچ جائیں اور بابڑہ کے قاتلوں کو تاریخ میں ہیروز دکھایا جائے، اللہ کا قانون ہرگز ایسا نہیں ہے۔