طاہر داوڑ کا بیہیمانہ قتل: سازشی تھیوریا اور چھبتے سوالات
احمد جمیل یوسفزئی
ہندوستان کی تحریک آزادی کے رہنما موہن داس کرم چند گاندھی نے کہا تھا کہ میں مرنے کے لئے پیدا ہوا تھا نا کہ مارے جانے کے لئے۔
گزشتہ دنوں پشاور رورل کے ایس پی طاہر خان داوڑ کا المناک سانحہ ملک میں سوشل اور قومی میڈیا میں بحث، الزامات، اور سوالات کا مرکز بنا رہا. اس واقعے نے ایسے سوالات کے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں جن کے جوابات اس سے ملتے جلتے سینکڑوں واقعات کی طرح شائد کبھی نہ ملے۔ یہ بات بھی موضوع بحث بنی رہی کہ اس ملک میں آبادی کے لحاظ سے چھوٹی قومیتوں کی اصل حیثیت کیا ہے؟ اور وہ اپنے حقوق کا تحفظ کس طرح یقینی بنا سکتی ہیں کیونکہ تقریباً سبھی قوموں کو ریاست اور اس کے اداروں سے شکایات ہیں. ان میں آجکل کا سب سے اہم مسلہ لاپتہ افراد کا ہے. جن کے بارے میں نہ قومی میڈیا میں بات کی جاتی ہے اور نہ ان پر بات کرنے والوں کو حکومت کی طرف سے کوئی توجہ دی جاتی ہے۔
پختونوں میں ایک بڑی آبادی اس بات کو محسوس کرنے لگی ہے کہ یہاں ریاست کی طرف سے ایک خاص پالیسی کے تحت ان پختونوں کو اچھا سمجھا جاتا ہے جو عشروں سے جاری ناانصافی اور ظلم پہ چپ سادھ بیٹھے ہیں. اور جو پختونوں کے حقوق اور ان پہ عشروں سے جاری جبر و بربریت کے خاتمے اور ان کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی بات کرتے ہیں ان کو را، این ڈی ایس اور اسرائل کے ایجنٹ اور غدار کہا جاتا ہے. اور وہ طبقہ جو پختونوں کے حقوق کے لئے آواز اٹھانے والوں کو ایجنٹ اور غدار کہتے اور ریاستی بیانئے کی توثیق کرتے ہیں ان کو اصل پاکستانی اور حقیقی محب وطن کہا جاتا ہے۔
شہید طاہر داوڑ کے Safe City سے اغوا اور پھر ان کے افغانستان سے جسد خاکی کی واپسی تک حکومتِ پاکستان اور انتظامیہ کا رویہ نہایت غیر ذمہ دارانہ اور انتہائی درجے کی غفلت پر مبنی رہا. جسے میرے جیسے عام پختون شہریوں نے بہت شدت سے محسوس کیا. گو کہ پختون، آبادی کے لحاظ سے دیگر چھوٹی قومیتوں کی طرح، اس مملکت پاکستان میں شروع سے نظر انداز کئے جاتے رہے ہیں اور ان میں حقوق کے لئے شروع کی گئی ہر عوامی تحریک کو شک کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے مگر سال ۲۰۱۸ میں ریاست کے اس نامناسب اور غفلت پر مبنی روئے میں شدت دیکھنے میں آئی ہے.
پختونوں کے تحفظ کے لئے شروع کی گئی پختونوں کی اپنی عوامی تحریک کو بیرونی ایجنڈا، اس کے مشران کو ایجنٹ اور حمایتیوں کو غدار کہنے کی پالیسی وہی رہی ہے جو اس ملک میں ہر عوامی تحریک، اسکے لیڈران اور کارکنوں کے ساتھ ہوتا رہا ہے. اور طاہر داوڑ کے معاملے پہ یہ بات کھل کر سامنے آگئی. پی ٹی ایم اور ایس پی طاہر صاحب کے حولے سے مختلف باتیں ناصرف خود کو حقیقی محب وطن کہنے والوں کی طرف سے سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگیں بلکہ قومی میڈیا نے بھی کئی بار ایسی باتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ مثلاً؛
1.جب طاہر داوڑ صاحب کو اغوا کیا گیا تو یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ وہ پی ٹی ایم کے حمایتی تھے اس لئے ان کو اغوا کیا گیا۔
2. اس بات سے غیر محسوس انداز میں یہ بھی باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ جیسے پی ٹی ایم ایک دہشتگرد تنظیم ہو. اس لئے اگر اس کے حمایتیوں کو اٹھا کر غائب کیا جائے تو اس میں کوئی پریشانی کی بات نہیں کیونکہ انہوں نے کچھ غلط ضرور کیا ہوگا۔
3. طاہر صاحب کی اغوا کا معاملہ کوئی اٹھانے کو تیار نہ تھا حتیٰ کہ حکومتی بنچوں میں بھی اس حولے سے خاموش رہنے میں ہی عافیت سمجھی گئی. تو اس معاملے کو اسمبلی کے فلور پر محسن داوڑ نے اٹھایا جن کا شمار پی ٹی ایم کے سرکردہ لیڈران میں کیا جاتا ہے. ان کے اسطرح اسمبلی کے فلور پر بات کو بعض لوگوں کی طرف سے ملکی مفادات کو گزند پہنچانے سے تعبیر کیا گیا۔
4. اس طرح جب اُن کے شہادت کی خبر آئی تو پی ٹی ایم نے ملک بھر میں اس اندوہناک وقعے پر احتجاج شروع کیا جس کو ملک میں انتشار پھیلانے سے تعبیر کیا گیا۔
5. پی ٹی ایم کو ایجنٹ اور غدار ثابت کرنے کی پوری کوشش تب کی گئی جب سرحد کے اس پار افغان قبائل کے جرگے نے جسد خاکی پاکستانی حکام کے اس سارے معاملے میں غیر ذمہ دارانہ روئیے اور سرحد کے اِس پار پاکستان میں پختونوں سے پختونولی کے اصولوں کے تحت ہمیشہ سے ان کے تعلقات کی وجہ سے حکام کے بجائے یہاں بسنے والے قبائل (جنکی قیادت محسن داوڑ کر ہے تھے) کے حوالے کرنے کی بات کی. اس بات کو قومی میڈیا کے کئی چینلز نے بہت ہوا دی کہ محسن داوڑ اور پی ٹی ایم پسِ پردہ افغانستان کے ایجنٹ ہیں۔
ریاست کے اداروں کے اس طرح کے رد عمل نے ہم جیسے پختونوں کو یہ باور کرایا کہ حکومت کا یہ رویہ سیاسی پوئنٹ سکورنگ اور ملک کے طاقتور طبقوں کو خوش کرنے کا عمل تو ہوسکتا ہے مگر یہ ہم پختونوں کو ملک کا برابر شہری سمجھنے والا اور ہماری حفاظت کو اپنا فرض تصور کرنے والا رویہ ہر گز نہیں. حکومت نے طاہر داوڑ صاحب کے سارے معاملے کو جسطرح ڈیل کیا اس سے کئی سوالات نے جنم لیا جن کو اگر تحقیقات کے دوران ترجیح نہ دی گئی تو یہ طاہر صاحب کے اہلِ خانہ بالخصوص اور پختونوں میں بالعموم مذید بے چینی کا سبب بنے گا. مثلاً؛
1. جب ان کو اغوا کیا گیا تو اس پر انتظامیہ نے کیوں وہ عملی اقدام نہیں اٹھایا جس کی ایسی صورت میں ان سے توقع کی جاتی ہے؟
2. اس بات کو محسن داوڑ نےقومی اسمبلی میں اٹھایا جو کہ اچھی بات ہے. لیکن کیا یہ حکومتی بینچز کی ذمہ داری نہیں تھی کہ وہ اس پہ بات کرتے کیونکہ ان کو عوام نے اسی لئے منتخب کیا ہے کہ وہ ان کے مسائل کو نہ صرف اجاگر کرے بل کہ ان کو حل بھی کرے یا کم سے کم نیک نیتی سے حل کرنے کی کوشش کرے۔
3. اغوا کے دو تین دن بعد وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی نے یہ بیان کیونکر دیا کہ طاہر داوڑ کا معاملہ حساس ہے اور وہ اس پر بات نہیں کر سکتے؟ کیا ان کو اس لئے وزیر مملکت برائے داخلہ نہیں رکھا گیا کہ وہ حساس معاملات پہ بھی بات کرنے کے اہل ہیں، کیوں کہ حساس معاملات پر بات کرنے اور ان کو خوش اسلوبی سے حل کرنے کے لئے ہی تو ان کو رکھا گیا ہے. عام لوگ بات نہیں کر سکتے اس لئے تو ان کو یہ عہدہ دیا گیا ہے۔
4. وزیر اعظم کے ترجمان افتخار درانی نے VOA Urdu کو بیان دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ طاہر داوڑ کے اغوا کی باتیں پروپگینڈہ ہیں اور یہ کہ وہ پشاور میں اپنے گھر میں بخیر و عافیت ہیں. وزیر اعظم کے ترجمان کی معلومات اتنی غلط کیونکر تھیں؟ انھوں نے اس بات کو فالو کیوں نہیں کیا حالانکہ اس بات پہ طاہر داوڑ کی فیملی اور سول سوسائٹی کی طرف سے تشویش کا اظہار کیا جاتا رہا کہ ان کو اغوا کیا گیا ہے؟ کیا یہ انتظامی غفلت نہیں تھی؟
5. اسلام آباد، جسے سیف سٹی کہا جاتا ہے وہاں سے پولیس کے ایک حاضر سروس اعلٰی افسر کے اغوا کے وقت سیکیورٹی پر معمور ادارے اور ان کے اہلکار کیا کر رہے تھے؟
6. وفاقی وزیر داخلہ فواد چوہدری کا یہ بیان کیا ذمہ داری سے بری الزمہ ہونے کی کوشش نہیں کہ دارالحکومت کے سرویلنس کیمرے اس وقت کام نہیں کر رہے تھے جب ایس پی صاحب کو اغوا کر کے لے جایا جا رہا تھا؟
7. اسلام آباد سے لیکر طورغم بارڈر تک 241 کلو میٹر کا فاصلہ اور درجنوں چیک پوسٹ اغواکاروں نے بغیر کسی مشکل کے کیسے عبور کئے؟
8. طورخم پر سخت بارڈر منیجمنٹ (جسے ایک عام انسان بغیر ویزے اور جامع تلاشی کے بنا عبور نہیں کر سکتا) کے باوجود دہشتگردوں نے طاہر داوڑ کو کیسے سرحد کی دوسری طرف منتقل کیا؟
9. سرحد کے اُس پار قبائل کے اس بیان کو ہماری حکومت اور انتظامیہ کی طرف سے کتنا سیریس لیا گیا کہ شہید داوڑ کا جسد خاکی پاکستانی چیک پوسٹ سے محض چند سو میٹر کے فاصلے پر افغانستان کی سائڈ پہ پڑا تھا؟
10. جب ان کی شہادت کنفرم ہوئی تو تب کیوں وزیراعظم صاحب کو خیال آیا کہ اس واقعے کی انکوائری ہونی چاہئے؟ وزیر اعظم اور انکی کابینہ ان تین ہفتوں میں کیوں خاموش تماشائی بنی رہی جب تک ان کے شہادت کی خبر نہیں آئی؟
11. طاہر داوڑ شہید کے بیٹے کو کیوں اور کس قانون کے تحت راستے میں بار بار اُن چیک پوسٹوں پہ روکا گیا جہاں سے غالب امکان یہی ہے کہ ان کے شہید والد گرامی کو دہشتگرد بغیر کسی روک ٹوک کے گزار کے لے کے گئے ہوں گے۔
12. اُن کے بیٹے اور بھائی کو کیوں اس ہیلی کاپٹر میں ان کی جسد خاکی کے ساتھ نہیں بٹھایا گیا جو طورخم سے پشاور آیا؟ کیا وطن کے شہید ہیرو کے خاندان کو نظر انداز کر کے حکومت نے شہید کی بے توقیری نہیں کی۔
13. تحقیقات کے لئے حکومتی جے آئی ٹی کے قیام کو شہید طاہر داوڑ کے بھائی نے مسترد کیا ہے. ان کے بیٹے نے ایک عالمی تحقیقاتی ٹیم سے تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا ہے کیوں کہ اس میں دو ممالک شامل ہیں. حکومت کا اس پہ ردعمل کیا ہوگا؟ کیا ان کے اس مطالبہ کو مان کے ان کے خاندان کو مطمئین کرنے کی کوشش کی جائے گی؟
حکومت کی طرف سے بنائی گئی تحقیقاتی کمیٹی سے شہید طاہر خان داوڑ کے اہلخانہ کو نہ کوئی بامقصد نتیجہ نکلنے کی امید ہے اور نہ ہی وہ اس کو تسلیم کرتے ہیں۔
مناسب یہی رہے گا کہ حکومت خلوص دل سے اس غمگین خاندان کے مطالبہ پر عمل کرتے ہوئے افغان حکومت سے بات کرے اور دونوں حکومتیں کسی عالمی تحقیقاتی ادارے سے صاف و شفاف تحقیقات کرائیں. اس سے طاہر خان شہید یقیناً واپس نہیں آئیں گے مگر ان کی فیملی کو سکون اور پختونوں کو ریاست سے اپنائیت کا احساس ضرور ملے گا جن کے دکھ درد کی ترجمانی شہید طاہر خان داوڑ کے یہ اشعار بخوبی کرتے ہیں۔
پشتو کے ساتھ اردو ترجمہ دیا جا رہا ہے. اردو کمزور ہونے کے سبب پختون دوستوں سے پیشگی معزرت چاہتا ہوں اگر ترجمہ کرنے میں کوتاہی ہوئی ہو.
کور مې وران شو، در مې وران شو،ګودر وران شو
میرا گھر برباد ہوا، در برباد ہوا، گودر (گاؤں میں وہ جگہ جہاں سے خواتین پانی بھرنے جاتی ہیں) برباد ہوا
سر مې وران شو،سر د پاسه مې سر وران شو
میں برباد ہوا، میرے بڑے بزرگ برباد ہوئے
سحر وران شولو، رنګینې نغمې ورانې
صبح برباد ہوئی، رنگین نغمے برباد ہوئے
ماښام وران شو، ګل ورین مازیګر وران شو
شام برباد ہوئی، پھولوں جیسا خوبصورت مازیگر “سورج ڈوبنے سے قبل کا منظر” برباد ہوا
هر طرف ته دي ویرونه ژړاګانې
ہر طرف آنسو، آہ اور فریاد ہے
پۀ څپېړو مې دپېغلو ځیګروران شو
تھپڑوں سے (روتی ہوئی خود کو پیٹتی ہوئی) میرے پیغلو (نوجوان خواتین) کے جگر برباد ہوئے
زۀ طاهر خپلې ګنانه خبرنۀشوم
میں طاہر اپنے ناکردہ جرم سے لاعلم ہوں
ځان مې وران،جهان مې وران شو،لښکروران شو
میں برباد ہوا، جہان تباہ ہوا،گھر اور لشکر سب کچھ اجڑ گیا