طبقاتی بالا دستی کی کشمکش
ولید بابر ایڈووکیٹ
پاکستان میں جاری سول فوجی بالادستی کی کشمکش دراصل طبقات کے درمیان جاری کشمکش کا عکس و پرتو ہے۔ تاریخی مطالعے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کے ہر سماجی تبدیلی کے دوران اس طرح کے حالات ایک تاریخی عمل رہا ہے کیونکہ اس کشمکش میں پرانے طبقہ یعنی جاگیردار طبقہ کی موت اور سرمایہ دار طبقہ کی افزائش ہو رہی ہوتی ہے۔
یورپ میں سولویں صدی سے لیکر انیسویں صدی ایسے خون آشام واقعات سے بھری پڑی ہے جب جاگیردار ظل الہی اور زمین پر خدا کا نائب ہوتا تھا ہر کام اسی کے نام سے شروع ہو کر اسی پر ختم ہوتا تھا۔ چغادار اور خوشامدی ہر وقت ہر کام اور ظلم کی داد وتحسین بجا لاتے ہوئے تخلیہ تخلیہ کا ورد الانپتے تھے۔ اشرافیہ اور حاشیہ بردار عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتے جبکہ عام آدمی کو دو وقت کی روٹی بھی نہ میسر ہوتی۔ مزرعوں کو محض دو وقت کی روٹی دی جاتی تاکہ وہ زندہ رہ سکیں۔ان حالات میں ایک گھریلو صنعت کار طبقہ نمودار ہوا جس نے نجی ملکیت’ قانون کی حکمرانی’ بنیادی صحت’تعلیم اور دیگر ضروریات زندگی کی فراہمی کا نعرہ بلند کرتے ہوئے پسے ہوئے عوام کو اپنے ساتھ ملاتے ہوئے ایک لمبی لڑائی لڑی اور جاگیرداری کو شکست دے کر سرمایہ داری کی بنیاد رکھی(مگر سرمایہ داری بھی عوام کے مسائل حل نہ کر سکی)
قیام پاکستان کے وقت جاگیردار طبقہ پاکستان کا سب سے بڑا حامی تھا اور مسلم لیگ کی بیشتر قیادت اسی طبقہ سے تھی۔قیام پاکستان میں دیگر وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کے جاگیردار ایک ایسا ملک چاہتے تھے جہاں ان کی جاگیرروں کی حفاظت ممکن ہو کیونکہ متحدہ ہندوستان میں رہنے کی صورت میں کانگریس نے جاگیرداری کے خاتمے کا اعلان کر دیا تھا۔چناچے جاگیرداروں نے اپنی جاگیرروں کی حفاظت کے لیے مسلم لیگ میں بڑ چڑھ کر حصہ لینا شروع کر دیا اور وہ پارٹی جس سے محروم طبقات کو امیدیں وابسطہ تھیں دیکھتے ہی دیکھتے جاگیرداروں کی نمائندہ پارٹی بن گئی۔
قیام پاکستان کے وقت سے ہی حکومت اور کابینہ میں بڑے بڑے جاگیردار شامل ہو گئے اور ایسا کوئی قانون نہ بنے دیا جو ان کے مفادات کے خلاف ہو۔اس وقت چونکہ بین الاقوامی مزدور تحریک مضبوط تھی اس لیے جاگیرداروں نے کسی بھی ممکنہ خطرہ سے نمٹنے کے لیے فوج سے “مقدس اتحاد” قائم کرتے ہوئے بطور ادارہ جاگیرداری میں شراکت داری پیش کر کہ اقتدار اس کے حوالے کر دیا۔فوج تب سے لیکر اب تلک جاگیرداری کی سب سے بڑی محافظ’beneficial (سودمند)اور اقتدار پر قابض ادارہ ہے جس کا مقصد جاگیرداری اور اپنی املاک کو بچانا ہے۔
معاشی طور پر قابض طبقہ ہی سیاست اور حکومت پر قابض ہوتا ہے اسلیے قیام پاکستان سے اب تک فوج ہی بلواسطہ یہ بلاوسطہ اقتدار پر قابض ہے۔اس دورانیہ میں فوج نے کبھی اکیلے اور کبھی دیگر سیاسی پارٹیوں کو اپنے ساتھ ملاتے ہوئے اپنے اقتدار کو دوائم بخشا اور جاگیرداری اور اپنے خلاف اٹھنے والی ہر تحریک کو کچل دیا۔ذوالفقار علی بھٹو کے سول بالادستی کی تحریک کو پہلے مذہبی جماعتوں سے نمٹنے کی کوشش کی گئی اور ناکامی کی صورت میں جنرل ضیاء خود اقتدار پر برجمان ہو گئے۔
بے نظیر اور نواز شریف کو لڑا کر اقتدار اپنے ہاتھوں میں محفوظ رکھا گیا اور جب دونوں راہنماء سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے لگے تو راتوں رات عمران خان کی پارٹی میں “اپنے بندے” شامل کر کے ایک مستقل تلوار لٹکا دی گئی۔
پاکستان میں جاری سول فوجی کشمکش جاگیرداری اور سرمایہ داری کے درمیان کشمکش ہے اس میں ایک طرف جاگیرداری کی نمائندہ فوج جبکہ دوسری طرف سرمایہ داری کی نمائندہ مسلم لیگ (ن) کے درمیان جنگ جاری ہے۔
یہ ابھی ابتدائی مرحلہ ہے اپنے مخالف کو زیر کرنے کے لیے سیاسی ہاتھکنڈے استعمال ہو رہے ہیں (صادق و امین کا تعین’عدالتی نااہلی’ایلکشن کمیشن’ ججز کے طریقہ کار’ جنرل اور جج کے احتساب کا نعرہ وغیرہ) اور اب تک کی صورتحال سے نظر یہ آ رہا ہے کہ سرمایہ داری نے مزاحمت کا فیصلہ کیا ہے۔اس لیے مسلم لیگ اب عدلیہ کے خلاف کھلا محض کھولے گئی (کیونکہ عدلیہ قیام پاکستان سے اب تک فوج کا زریں ادارہ کے طور پر کام کرتی اور سیاسی قیادت کے خلاف ایک آلہ کے طور پر استعمال ہوئی ہے)’الیکشن میں مظلومیت کے ساتھ شریک ہو گئی’ فوج کو زیر کرنے کے لیے مشرف کے ٹرائل کا مطالبہ کرے گئی (اس سے فوج اور عدلیہ دونوں نشانہ بنے گئے)’جنرل اور جج کے احتساب کے ساتھ جوابی حملہ کرے گئی۔ مگر کسی ناگزیر صوارتحال کے باعث اگر نواز شریف کوئی وقتی سمجھوتہ کربھی لے (جس کے آثار کم دکھائی دے رہے ہیں) تب بھی یہ لڑی جاری رہے گئی کیونکہ یہ لڑی دو پارٹیوں کے درمیان نہیں دو طبقات کے درمیان ہے اور فیصلہ کن فتح تک طبقات کی کشمکش جاری ہے۔
کچھ لوگوں کے نزدیک بائیں بازو کی سوچ کے حامل افراد نواز شریف کی حمایت کر کے اپنی افادیت کھو رہے ہیں۔بائیں بازو کے تربیت یافتہ کارکنان سماجی کشمکش کو ارتقائی مراحل میں دیکھتے ہیں اور جاگیرداری کا خاتمہ کیے بغیر سماج اگلے عہد میں منتقل نہیں ہو سکتا اس لیے یہ نواز شریف کی حمایت نہیں بلکہ جاگیرداری کے خاتمے کی تحریک میں سماجی ترقی کی طرف ایک قدم ہے۔
درجہ بالا تحریر میں اب تک حکمران طبقات (جاگیردار’سرمایہ دار) کے درمیان طبقاتی کشمکش پر بحث کی گئی ہے جبکہ محنت کش طبقہ اور حکمران طبقہ کی کشمکش متضاد ہے۔پاکستان میں محنت کش طبقہ ابھی منظم نہیں اور نہ ہی اس کی نمائندہ سیاسی پارٹی فعال کردار ادا کر رہی ہے اس لیے محنت کش اور حکمران طبقہ کے درمیان ابھی بالادستی کی کشمکش منظم انداز میں شروع نہیں ہوئی مگر اصل لڑی حکمران طبقات اور محنت کش عوام کے درمیان ہی ہے کیونکہ محنت کش کسی بھی سماج کا ستر فیصد ہوتے ہیں۔