طوائف، دلال اور سیاست
وقاص احمد
آپ کبھی اردو ادب میں طوائف کے موضوع پر لکھی گئی کوئی تحریر پڑھ لیں۔ کوئی افسانہ، ناول یا ڈرامہ۔ آپ لالی وڈ اور بالی وڈ کی اسی موضوع پر بنی فلمیں دیکھ لیں اور پھر ذرا اس کردار کا تجزیہ کریں۔ آپ کو ہر ادیب، ہر ڈرامہ نگار ہر فلم سکرپٹ رائٹر اس کردار کو مظلوم، مقہور، مجبور اور بے بس دکھاتا نظر آئےگا۔ جبکہ دوسری جانب ظالم نائیکہ یا دلال نظر آئے گا جو اس طوائف کو بچپن میں کہیں سے اغوا کر کے لے آئے اور پھر زبردستی اس سے دھندہ شروع کروا دیا۔
لیکن دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اس ساری کتھا میں ادیب یا کہانی نگار معاشرے کے جس پہلو کو آشکار کرنے چاہتے ہیں وہ نا تو طوائف سے متعلق ہے نا ہی دلال یا نائیکہ سے۔ معاشرے کا وہ پہلو اس میں بسنے والے ان عام لوگوں سے متعلق ہے جو اس پوری داستان میں طوائف کو اچھوت، بدکار، نیچ، حرامخور اور پیسوں کی لالچی گندی عورت سمجھتے اور کہتے ہیں لیکن دوسری طرف نا صرف دلال اور نائیکہ کے کردار سے چشم پوشی کر جاتے ہیں بلکہ اکثر اوقات تو ان نائیکاوں کو بادشاہوں، جاگیرداروں، وڈیروں اور دیگر اشرافیہ کے دربار میں مقبولیت اور عزت کا مرتبہ حاصل ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے کی اجتماعی نفسیات یقیناً ایسی ہی ہے۔ مجبور و مقہور لوگ تو برے گردانے ہیں لیکن ان کو اس برے کاموں کی طرف لگانے والے زورآور شرف قبولیت اور مقبولیت پاتے ہیں۔
ہماری اسی ذہنیت کا جال زندگی کے ہر شعبے تک پھیلا ہوا ہے، اب سیاست ہی لے لیں۔ آج کے دور میں ایک سیاست دان پر کیا کیا الزامات نہیں لگتے لیکن جو الزام بدرجہ گالی لگتا ہے وہ بقول شیخ رشید “جی ایچ کیو کے گیٹ نمبر 4 کی پیدوار” ہونے کا طعنہ ہے۔ جب سیاست دان ایک دوسرے پر کرپشن، ملک دشمنی، غداری، لوٹ مار، اقربا پروری، غنڈہ گردی کے “با سروپا اور بے سروپا” الزامات لگا لگا کر ہف جاتے ہیں تو آخری جان لیوا حملہ آمر کی گود میں کھیلنے والے، تھرڈ ایمپائر کی انگلی ڈھونڈنے والے اور آمر کو ڈیڈی ڈیڈی پکارنے والے کی شکل میں ہوتا ہے اور سچی بات یہ ہے کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔ مگر کیا یہ پورا سچ ہے؟
سیاستدان کو بدکار، کرپٹ، ڈان، مافیا، بدمعاش اور ٹین پرسنٹ کہہ کر آپ نے اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کی کوشش کی لیکن ان سیاسی طوائفوں کے بروکر دلالوں اور نائیکاوں کی بات کرتے ہوئے ہمیں کیا موت پڑتی ہے؟ سیاستدان بوجوہ ازلی کرپٹ قرار دیے جاتے ہیں تو ان کرپٹ لوگوں کو سیاست میں لانے والے بری الزمہ کیوں؟ سیاست دان بدکار، بدمعاش اور مافیا کہلائے جاتے ہیں تو ان کے آقا، مربی اور سیاسی ڈیڈی ہر الزام سے مبرّا کیوں؟ خارجہ پالیسی کے کاغذ پر رسمی دستخط کرنے والے ایک “دو ٹکے کے بلڈی سویلین” وزیر خارجہ کو ناکامی کا طعنہ دیا جاتا ہے مگر خارجہ پالیسی بنانے اور چلانے والے اس ناکامی کے الزام سے بری کیوں؟ ڈان لیکس کی بنیاد پر ایک سولین حکومت کے کس بل نکالے جاتے ہیں لیکن ڈان لیکس کے میٹیریل کے غلط یا درست ہونے پر گفتگو منع کیوں؟ ملکی معیشت پر مگرمچھ کے آنسو بہائے جاتے ہیں مگر جہادیوں (جنہوں نے اس معیشت کو یہاں تک پہنچایا) کے “ہینڈلرز اور ٹرینرز” (ان کے اپنے دعویٰ کے مطابق) پر طعن زنی منع کیوں؟ ملکی قرضے بڑھنے پر ڈرامہ درست لیکن قرضوں کے بوجھ بڑھنے کی بنیادی وجہ بننے والے 50٪ دفاعی بجٹ پر سوال منع کیوں؟ ہسپتال کے پیسے انفراسٹرکچر پر کیوں لگے کا سوال بجا سہی لیکن تعلیم اور صاف پانی کے پیسے راکٹوں اور میزائلوں پر لگنے کا سوال کرتے زبان کنگ کیوں؟
بنی گالہ، لندن فلیٹس،سرے محل، شوگر ملوں، زکوٰۃ کے پیسوں اور موٹروے کمشن پر آپ کی گرج چمک سر انکھوں پر لیکن زرعی مربعوں، ڈی ایچ اے، بنک، سیمنٹ، دودھ، کارن فلیکس، بسکٹ، ادویات، وغیرہ وغیرہ وغیرہ پر گفتگو کرتے ہوئے ضمیر غنودگی میں کیوں؟ ایل ڈی اے اور کے ڈی اے میں کسی “مشتبہ” آگ پر تو ہم منہ سے کف اڑاتے چیختے چنگاڑتے ہیں لیکن سانحہ اوجڑی کیمپ پر خاموشی کیوں؟ شوگر ملوں میں را ایجنٹوں کی مبینہ موجودگی پر افسانے تراشتے ہیں مگر ایبٹ آباد سے برآمد ہونے والے “مہمان” پر خاموشی کیوں؟ کسی پر تو سکھوں کی لسٹیں انڈیا کے حوالے کرنے کا الزام ہی نہیں دھلتا اور کوئی اپنے ہم وطن پاکستانی امریکہ کو بیچ کر بھی پاکباز کیوں؟
یا تو ہم پرلے درجے کے گدھے ہیں یا پرلے درجے کے بے غیرت منافق۔ کوئی تیسری توجیہہ موجود نہیں۔
ایک سمجھنے کی بات سمجھ لیں میرے بھائی۔ کسی مرد و عورت کے ناجائز تعلقات سے جنم لینے والا بچہ حرامی نہیں ہوتا، بچہ معصوم ہے۔ اصل حرامی اس کے ناجائز ماں باپ ہوتے ہیں۔ برائی ختم کرنی ہے؟ برائی کے درخت کی جڑ پر وار کرو. اس درخت پر لگے پھل پھول پتوں کو پتھر مار کر آپ ڈسکو انقلابیے تو بن سکتے ہیں لیکن حقیقی تبدیلی کے داعی نہیں۔ جس دن آپ کو یہ بات سمجھ لگ گئی اس دن اس پورے معاشرے، پورے ملک کا کم از کم قبلہ درست ہوجائے گا۔ ابھی تو ہمارے سجدے ہی غلط طرف ہو رہے ہیں