عادل احمد ڈار “خودکش سرکش”

مہناز اختر

آج دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ ایک بائیس سالہ نوجوان کے آگے گھٹنے ٹیک چکی ہے۔ بھارت کی “اہنسا وادی” اجتماعی “دانش” نے عادل کو ایک خطرناک فدائی اور دہشت گرد قرار دے دیا ہے لیکن یہ طے ہے کہ جس دن کشمیر کو ایک خودمختار ریاست کے طور پر آزادی ملے گی اس دن عادل کا نام کشمیر کی جدوجہدِ آزادی کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جاۓ گا۔ بھارت کا وِلن آزاد ریاستِ جموں کشمیر کا ہیرو ہوگا۔ جموں کشمیر کی تاریخ میں ہیروز کی کمی نہیں ہے لیکن میں عادل کو سب سے منفرد اور ممتاز دیکھ رہی ہوں۔ عادل سے پہلے کشمیر کی سسکیاں سنائی دینے کے باوجود بھی سماعتوں کو جھنجھوڑنے میں ناکام ثابت ہورہی تھیں۔ تین سو پچاس کلو گرام بارودی مواد سے کیا جانے والا خودکش حملہ دھماکہ نہیں بلکہ عادل کی بائیس سال کی چیخ تھی، ایک آتش فشاں جس نے ناصرف چالیس سے زائد سینٹرل ریزرو پولیس فورس کے اہلکاروں کے پرخچے اڑاۓ بلکہ اسی لمحے دنیا کو یہ باور کروادیا کہ کشمیر ایک عالمی مسئلہ ہے۔ اس دھماکے نے بھارتی جمہوریت اور میڈیا کی ساکھ  کی صداقت کا پول  کھول کر بھارتی فاشسٹ نیشنلزم کو دنیا کے سامنے برہنہ کردیا ہے۔

عادل احمد ڈار بائیس سال کا خوبرو اورجوشیلا نوجوان تھا۔ اس نے بارہویں تک تعلیم حاصل کی تھی اور وہ کرکٹ کا شوقین تھا۔ اگر کشمیر کے حالات اور عادل کی زندگی عام اور معمول کی ہوتی تو شاید عادل کوئی انجینئر یا ڈاکٹر، کوئی کرکٹر یا ایک عام سا نوجوان  ہوتا لیکن حالات و واقعات نے عادل کو خودکش بمبار “دہشت گرد”  “مجاہد” بنادیا۔ اس انتہا پر جاکر دو وجوہات کی بنیاد پر لوگ دہشت گردی کی جانب مائل ہوتے ہیں،  کچھ اپنے نظریات کی بناء پر اور کچھ کو حالات ایک انتہائی راستہ اختیار کرنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں دنیا کے تیزی سے بدلتے ہوۓ سیاسی اور معاشی جغرافیہ کے تناظر میں “دہشت گرد” اور “دہشت گردی” کی تعریف کو دوبارہ سے سمجھنا ہوگا اور اسکے اندر “عسکریت پسند” اور “انارکسٹ” کے درمیان کے فرق کو واضح کرنا ہوگا  کیونکہ قوم پرست، غدار یا باغی یہ انتہائی متغیر مفہوم رکھنے والے الفاظ ہیں جنکے معنی سرحدوں اورمفادات کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔

پلوامہ حملہ ایک واقعہ نہیں بلکہ واقعات کی ایک کڑی ہے۔ یہ حملہ دہشت گردی، فلسفہ جہاد اور ناقص سیکیورٹی کے علاوہ بھی کئی سوالات کو جنم دیتا ہے جیسے کہ ایک آئینی ریاست کب کسی علاقے اور اس میں بسنے والی عوام پر اپنے جائز تسلط کے حق کو کھودیتی ہے یا اگر کشمیر کے ہی تناظر میں دیکھا جاۓ تو آخر وہ کون سی حد ہے، یا کتنے نقصانات اور اموات کے بعد عالمی برادری یہ فیصلہ کرے گی کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں کشمیر کے مسئلے پر مداخلت کرنی چاہیے، یا کسی قوم کے حق خود ارادیت کو کب تسلیم کرلیا جانا چاہیے؟

برصغیر میں سیاسی جدوجہد اور علیحدگی کی تاریخ انتہائی دلچسپ ہے۔ آل انڈیا مسلم لیگ نے صرف بیالیس سالہ سیاسی  جدوجہد کے ذریعے مسلمانوں کو ہندوستان کی دوسری بڑی سیاسی قوت ثابت کردیا اور اسی قوت کے بل بوتے پر برطانوی سرکار اور کانگریس کو علیحدہ مسلم ریاست اور تقسیم پر راضی کرلیا گیا۔ اسی طرح انتہائی قلیل مدت کی جدوجہد کے بعد مشرقی پاکستان نے بھارت کی مدد سے پاکستان سے آزادی حاصل کرلی۔ تو پھر کشمیر میں ایسا کیا ہے کہ کئی عشروں سے چلنے والی کشمیر کی تحریک اب تک دنیا میں وہ پذیرائی اور اہمیت حاصل نہیں کرپائی جس کے کشمیری مستحق ہیں؟

پلوامہ حملہ اور عادل کی شخصیت ایک  سوال اور اٹھاتی ہے کہ آخر عادل جیسے نوجوانوں کے لیۓ زندگی پرکشش کیوں نہیں ہے؟ کیوں جنت نظیروادیِ کشمیر کے نوجوان زندگی پر موت اور “جنت” کو ترجیح دیتے ہیں۔ حالانکہ جنت و جہاد، حوروغلمان کا تصور پیش کرنے والا دین خود اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ  جنت صراط مستقیم پر چلنے والے ہر صاحب ایمان کی میراث ہے۔ کشمیری کس طرح کی زندگی گزار رہے ہیں اسکا حقیقی ادارک تو صرف وہی کرسکتے ہیں جنہوں نے یہ زندگی گزاری ہے یا پھر ایسی زندگی کو قریب سے دیکھا ہے۔ میں نے پلوامہ حملے کے بعد عادل کے والد غلام حسین ڈار کی بھارتی میڈیا سے گفتگو سنی تو ایک نکتہ میرے شعور پر بار بار دستک دینے لگا وہ یہ کہ انکے لہجے اور چہرے پر ایک سرد سا سناٹا تھا۔ شاید یہ سناٹا مایوسی اور بےاعتباری کی آخری حدوں کا عکاس تھا۔ بتایا جارہا ہے کہ عادل کے خاندان کے دیگر افراد بھی عسکریت پسند تنظیموں میں شامل رہے ہیں۔ میں نے ٹی وی پر دیکھا تھا جس جگہ میڈیا کا نمائندہ عادل کے والد سے گفتگو کررہا تھا وہاں دیوار پہ عسکریت پسندوں “مجاہدین” کا پوسٹر آویزاں تھا۔

 عادل کے والد کے سپاٹ چہرے نے مجھے بھارتی فلم “حیدر” کا وہ منظر یاد کروا دیا جہاں تین معمر کشمیری برف سے ڈھکے قبرستان میں قبریں کھود رہے  ہیں۔ ساتھ ہی ایک  کھلیتا کودتا نوعمر لڑکا  بھی موجود ہے۔ ایک شخص شاہد کپور “حیدر” سے کہتا ہے کہ تم بھی اپنی قبر کھود لو۔ پسِ منظر میں رونگھٹے کھڑے کردینے والا المیہ گیت ایسے سنائی دے رہا ہے جیسے قبریں زندہ کشمیریوں کو موت کی دعوت دے رہیں ہوں۔

” ارے آؤ نا! کہ جان گئی، جہان گیا، سو جاؤ

ارے آؤ نا! کہ تھک گئی ہے زندگی، سوجاؤ

نہ شام، نہ سویرا، اندھیرا ہی اندھیرا

ہے روحوں کا بسیرا سوجاؤ۔۔ ”

اگر آپ حساس طبیعت رکھتے ہیں تو یہاں سے لے کر اختتام تک پوری فلم آپ پر ایک عجیب سا احساس طاری کیئے رکھتی ہے۔ میں نے عادل کی سوچ اور کیفیات کو سمجھنے کے لیۓ اس گیت کو سننے کے دوران کشمیر سے آنے والی خبروں کو اپنی یاداشت میں اکٹھا کرنا شروع کیا ، پیلٹ گن سے چھلنی چہرے، بھارتی افواج کے ہاتھوں مارے جانے والے کشمیریوں کی لاشیں، خواتین کے ساتھ عصمت دری کے واقعات، معصوم آصفہ کے ساتھ ہونیوالی زیادتی پر ریاست اور سیاسی جماعتوں کا رویہ اور میجر گوگئی کی جیپ سے بندھا چھبیس سالہ بے بس فاروق احمد ڈار۔ ماضی میں عادل کو بھی کئی بار پولیس کی جانب سے ذلت آمیز پرتشدد سزاؤں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اسکے ذاتی تجربات اور کشمیر کی طویل ترین مایوس حالات نے عادل کو اس مقام پر لاکر کھڑا کردیا جہاں کوئی بھی غیرت مند انسان یہ کہہ کر عَلم بغاوت بلند کرسکتا ہے کہ  ” شیر کی ایک دن کی زندگی ، گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے “۔

 بھارتی فلمیں “حیدر” اور “ماچس”  عام سمجھ والے افراد کو یہ سمجھانے کے لیۓ کافی ہیں کہ آخر کن حالات سے گزر کر ایک  عام انسان  عسکریت پسند یا دہشت گرد بنتا ہے۔

آج ہندوستان میں ہمارے پاس ایسی کوئی مثال موجود نہیں ہے جو کشمیری نوجوانوں کو امن پسندی اور تعلیم کا راستہ دکھا سکے۔ انتہائی قابل اور نوجوان کشمیری اور بھارتی بیوروکریٹ شاہ فیصل کا استعفیٰ اور گزشتہ سالوں میں کئی اعلیٰ تعلیم یافتہ ریسرچ اسکالرز کا عسکریت پسندی کی طرف جھکاؤ نیز ریاست کے ہاتھوں انکا مارا جانا ہمیں بتا رہا ہے کہ عادل کے پاس جینے کی شاید ایک وجہ بھی باقی نہ بچی ہوگی۔ بھارت نواز اور بھارت مخالف کشمیری  سیاسی قیادتیں بھی کشمیری نوجوانوں  کو یہ پیغام دینے میں ناکام ہوچکی ہیں کہ پر امن سیاسی جدوجہد کے ذریعے ہم ایک دن اپنا حق خودارادیت بھارت سے تسلیم کروالیں گے۔ بھارت اور کشمیر کے سیاسی رہنماؤں کی مجرمانہ غفلت کا فائدہ جنگ و جنون کے وہ تاجر اٹھا رہے ہیں جو ان نوجوانوں کے سینے میں دبی چنگاری کو جنت اور شہادت کے عوض خرید لیتے ہیں۔

بھارتی حکومت کو ایسا لگتا تھا کہ برہان وانی کو قتل کرکے یا افضل گورو کو پھانسی دے کر اسکی لاش کی خفیہ مقام پر تدفین کے بعد کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کا باب ہمیشہ کےلیۓ اختتام پذیرہوجاۓ گا لیکن آپ افضل گورو کے اس آخری پیغام کا کیا کریں گے جو کشمیریوں کو چیخ چیخ کر اپنی جانب متوجہ کررہا ہے “آپ میری پھانسی پر افسوس کرنے کے بجاۓ مجھے ملنے والے مقام کا احترام کریں، اللہ پاک آپ سب کا حافظ و ناصر ہو، اللہ حافظ”۔ میں ذاتی طور پر عادل کے اس قدم کی شدید مخالفت کرتی ہوں لیکن مجھے ادراک ہے کہ میں عادل ڈار یا دوسرے عسکریت پسندوں کی جدوجہد کو  “جج” کرنے کی اہل نہیں ہوں۔ اسی وجہ سے میں نے عادل احمد ڈار کو  “ہیرو یا ولن” کے کینوس سے باہر نکل کر ایک انسان کی حیثیت میں سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ مجھے اس بات کا اعتراف ہے کہ کبھی کبھی اصولوں کا تعین کرنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ ویسے بھی جس ملک میں آزادی کے ستر برسوں کے بعد ایک نئی تاریخ رقم کی جارہی ہو اور نتھورام گوڈسے کو کھلے عام ہندو قوم پرستوں کا ہیرو قرار دیا جارہا ہو وہاں عادل احمد ڈار کو “دہشت گرد” کہنا بے شرمی اور منافقت ہے۔