عزرائیل اور زمینی فرشتے

سہیل افضل خاں

مملکت خداداد اور اس میں کام کرنے والی قوتوں کے بارے ایک پیشین گوئی خواجہ الطاف حسین حالی نے ان الفاظ میں کی:
“فرشتے سے بڑھ کر ہے انسان بننا
مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ ”

یہ شعر پڑھنے کے بعد خواجہ صاحب کے ہاتھ پہ بیعت کرنے کو دل کیا کہ کیسے پہنچے ہوئے بزرگ تھے جنھیں مستقبل قریب کے حالات کا بھی بخوبی علم تھا ۔بات اب فرشتوں کی اگر چل ہی پڑی ہے تو اسی بات کو کھینچنے ہوئے یاد آیا کہ آسمانی فرشتوں پہ تو میرا ایمان اس وقت سے کامل ہے جب بچپن میں صفت ایمان مجمل اور صفت ایمان مفصل پڑھائی گئی لیکن پھر ہوش سنبھالنے پہ بتایا گیا کہ آسمانی فرشتوں کے ساتھ زمینی فرشتوں پہ ایمان لانا زیادہ ضروری ہے۔بات تو توجہ طلب تھی ۔جی ہاں جیسے یہ بات بھی کامل ایمان کی نشانی ہے کہ عزرائیل (ملک الموت) نامی فرشتے کا کام دنیا میں سے انسانوں کی تعداد کو کم کرنا ہے ۔عزرائیل کسی رنگ و نسل،مذہب یا فرقہ کی تمیز کیے بغیر کسی بھی شخص کو اس دنیا فانی سے اٹھا کر سیدھا آخرت کی ناتمام زندگی میں چھوڑ آتے ہیں ۔ورثا اس تمام عمل کو مشیت الہی سمجھتے ہوئے صبر کے دامن کو مضبوطی سے پکڑ لیتے ہیں اور گریہ کرنے پہ اکتفاء کرتے ہیں ۔

لیکن اس ارض پاک پہ بندے اٹھانے کا کام ملک الموت کےساتھ ساتھ کچھ اور لوگوں نے بھی اپنے فرائض منصبی میں شامل کر لیا ہے اور اس نیک عمل اور عزرائیل کے کام کے ساتھ مماثلت کی وجہ سے ان کو فرشتوں کا لقب سے نوازا گیا، کیونکہ ان کا بندے اٹھانے کا عمل بھی پاکستان میں کروائے جانے والے الیکشن کی طرح بالکل صاف اور شفاف ہوتا ہے ۔متاثرہ شخص کے فرشتوں کو بھی علم نہیں ہوتا کہ اسے اٹھانے کچھ فرشتے تشریف لا رہے ہیں ۔ یہ لوگ مختلف ادوار میں مختلف ناموں سے پکارے جاتے رہے ۔کچھ تو ان کو اتنا حساس سمجھتے ہیں کہ انکو حساس اداروں کے نام سے بلاتے ہیں اور حال ہی میں وقتی انقلاب کے داعی حضرت نواز شریف نے انھیں خلائی مخلوق کا نام دے دیا ۔

پاکستانی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی زراعت کو سمجھا جاتا ہے بالکل اسی خطوط پہ چلتے ہوئے کچھ کم عقل لوگوں نے انھی حساس اداروں کو محکمہ زراعت کے نام سے بھی تعبیر کیا کیونکہ انھیں لگتا ہے کہ جیسے زراعت نے اس ملک کی معیشت کا بوجھ اٹھا رکھا ہے ویسے ہی یہ فرشتہ صفت لوگ اس پاک دھرتی کے آدھے سے زیادہ مسائل کو حل کرنے میں اپنی توانائیاں صرف کر رہے ہیں۔

صفائی نصف ایمان ہے اور اسی حدیث پہ عمل کرتے ہوئے یہ لوگ بندے کو اتنی صفائی سے اٹھاتے ہیں کہ عظمی نامی عدالت کے سب سے بڑے قاضی کو بھی یہ کہنے پہ مجبور کر دیتے ہیں کہ “میری ایجنسیاں بندے نہیں اٹھا سکتیں ”
یہاں تک ان لوگوں کی سرکار دربار تک پہنچ کی بات ہے اسکا اندازہ اس بات سے ہوجائے گا کہ یہ چند دن پہلے کی بات ہے کہ عالیہ نامی عدالت کے راسخ العقیدہ قاضی صاحب کو سچ بولنے اور ملک میں قانون کے بول بالا کا بخار چڑھا اور ان معصوم اور گناہ سے پاک لوگوں پہ طرح طرح کے الزامات لگاتے رہے اور ان الزامات میں کچھ الزام عظمی کے خاوند پہ بھی لگائے گئے۔

رہے نام خدا کا ، ہونا کیا تھا عظمی کے خاوند نے موصوف کو ایسا چھٹی کا دودھ یاد دلایا کہ دنیا کے کسی طبیب سے پاس عالیہ کے خاوند کا علاج ناممکن ہے۔

اب رہی بات بندے اٹھانے کی تو بیان کردہ دونوں صورتحال میں ورثاء کا غم و غصہ کا اظہار تھوڑا مختلف ہوتا ہے کیونکہ عزرائیل کے بندے اٹھانے اور زمینی فرشتوں کے بندے اٹھانے کا انداز تو ایک ہی ہے لیکن اول الذکر میں ورثاء کا صبر کرنا ایمان کا تقاضا ہے جبکہ موخر الذکر میں ورثا کو نہ صبر آتا ہے اور نہ ہی ان کا پیارا واپس آتا ہے اور اگر دو، تین اور چار سال بعد واپس آجائے تو پیارا کہلوانے کے قابل نہیں رہتا کیونکہ موخر الذکر میں حساب کتاب کے ساتھ ساتھ اذیت ناک سزا بھی دوران قید ہیں سنا دی جاتی ہے اور بندے کو سچا اور پکا مسلمان بنانے کے بعد ہی لواحقین کو واپس کیا جاتا ہے ۔مزے کی بات یہ ہے جب زمینی فرشتے بندے کو سفر زندگی کی طرف روانہ کرتے ہیں تو اسکا تمام سامان ، استعمال کردہ اشیاء اور واپسی کا کرایہ بھی دیتے ہیں تاکہ اس نو مسلم کو آنے والی زندگی میں کوئی مشکل درپیش نہ ہو۔