علی رضا عابدی کا قتل، البدروالشمس، طالبان، ایم کیو ایم اور پی ٹی ایم

مہناز اختر

میرے والد کا تعلق متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے تاجر پیشہ گجراتی خاندان سے تھا جو قبل از تقسیمِ ہند ”صورت“ (بھارتی ریاست گجرات کا ایک شہر) سے معاشی وجوہات کی بناء پر ہجرت کرکے کلکتہ،ڈھاکہ اور کراچی میں آباد ہوگیا تھا۔ میرے والد کی پرورش کلکتہ کے سوشلسٹ ماحول میں ہوٸی۔ وہ نظریاتی طور پر سوشلسٹ اور سیاسی طور پر کانگریسی تھے۔ میرے والد 1971 کے اوائل میں کلکتہ سے کراچی آئے اور پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو کے سحر میں اخیرعمر تک مبتلا رہے۔ الطاف حسین کی ابتدئی سیاست نے بھی انہیں بے حد متاثر کیا تھا۔

مجھے میرے گزشتہ مضمون ”بنگلہ دیش کی آزادی اور پاکستان میں قوم پرستی کا نیا بخار“ کی وجہ سے بہت سارے قارئین کی کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ کسی نے کہا کہ میں PTM اور MQM کا نادرست موازنہ کررہی ہوں، کسی کا خیال تھا کہ میں مہاجر صوبے کا مطالبہ کررہی ہوں، تو کسی نے بہاریوں کے حق میں چند جملے لکھنے کے جرم میں مجھے ”البدر اور الشمس “ کا طعنہ دیا، اور کسی نے پوری مہاجر قوم کو ”گٹکا خور، ٹارگٹ کلرز،غدار اور موقع پرست“ قرار دے دیا۔ ”البدر و الشمس“ کا طعنہ دینے والے صاحبان نے تو فرطِ جذبات میں یہ تک کہہ دیا کہ صرف مہاجروں نے قربانیاں نہیں دیں پنجابیوں کی لاشوں سے بھری ٹرینیں بھی پاکستان پہنچی تھیں مگر ہم نہ تو خود کو مہاجر کہتے ہیں اور نہ مہاجروں کی طرح کا ”رونا“ روتے ہیں ۔ افسوس کہ میں اس وقت انہیں یہ یاد دلانا بھول گٸی کہ ہندو پنجابیوں اور سکھوں کی لاشوں سے بھری ٹرین بھی امرتسر پہنچی تھی۔ میں اس موضوع پر لکھنا نہیں چاہتی تھی کیونکہ سیاست کبھی بھی میرا پسندیدہ موضوع نہیں رہا مگر ایم کیو ایم کے سابق ایم این اے علی رضا عابدی کے قتل اور گزشتہ مضمون پر ملنے والے ردِعمل نے مجھے پھر سے ایسے موضوع پر لکھنے پر مجبور کردیا۔

میرے والد شطرنج کے ماہر کھلاڑی تھے اور میں شطرنج کے تمام قاعدے قانون جاننے کے باوجود بھی ہمیشہ ہارجاتی تھی۔ سیاست کے لیے میری ناپسندیدگی کی ایک وجہ یہ بھی رہی ہے کہ سیاست اور شطرنج دونوں میں آپ کو آخری وقت تک پتا نہیں چلتا کہ سامنے والے کی اگلی چال کونسی ہوگی یا اس کے دماغ میں کونسی سازشی کھچڑی پک رہی ہے۔ کل 25 دسمبر کی رات وسیم بادامی کے پروگرام میں جب گورنر سندھ عمران اسمعیل نے بھونڈے طریقے سے علی رضا عابدی کے قتل کو ایم کیو ایم کی اندرونی لڑائی اور شیعہ کِلنگز سے جوڑنے کی کوشش کی اور پھر مصطفی کمال نے کمالِ مہارت سے یادہانی کروائی کے ماضی میں متحدہ قومی موومنٹ بھارتی ایجنسی ”را“ کی آلہ کار رہی ہے کیونکہ 23 دسمبر کو گلبھار میں پاک سرزمیں پارٹی کے دفتر میں چھ مسلح دہشت گردوں نے ایم کیو ایم کے دو سابق کارکنان محمد نعیم اور محمد اظہر جو PSP میں شامل ہوگۓ تھے، کو فائرنگ کر کے قتل کردیا تھا۔

تو ان باتوں نے مجھے اچانک ہی علی رضا عابدی کی اسمبلی میں کی گٸ وہ تقریر یاد دلا دی جس میں انہوں نے PTM اور مِسنگ پرسنز والے معاملے کے حق میں بات کی تھی اور PTM کا موازنہ MQM سے کیا تھا۔ علی رضا عابدی کی ماہِ دسمبر میں کی جانیوالی چند ٹویٹس اور پوسٹس پیشِ خدمت ہیں:

” بیچاری نومولود سیاسی مخلوق سمجھتی ہیں کہ جے آئی ٹی رپورٹ حتمی فیصلہ ہوتا ہے۔ آج سے پہلے کتنی جے آئی ٹی 100 فیصد کورٹ میں ثابت ہوئی ہیں؟بلدیہ فیکٹری کی 6 جے آئی ٹی بن چکی ہیں، ٹی وی پہ مجرم بھی ٹھہرایا جا چکا ہے، لیکن کورٹ میں آج تک کیس وہیں کا وہیں ہے۔“

”را نے الطاف حسین کو پیسے دینا بند کر دیے کیونکہ اب وہ ان کے کام کے نہیں رہے (یوتھیا)۔ ایک اورالزام لگتا تھا، جو اربوں روپے بھتے سے جمع کئے تھے، جس کی دنیا بھر بےشمار جائیداد بنائی تھی، جو کہ کرائے پر دی ہوئی ہے، اب اس پیسے کا کیا ہوا جو آج وہ کارکنان سے “بھیک” مانگ رہے ہیں؟
اور وہ دبئی سے لایا ہوا چوہا جو الزام لگاتا تھا کہ آج بھی ایم کیو ایم کے رہنما لندن پیسے بھیج رہے ہیں کدھر غائب ہو گیا ہے؟“

”ایک زمانہ تھا جب لوگ کہتے تھے اے این پی ختم ہوگئی، پھر کہا پی پی پی ختم، بعد میں پی ایم ایل این ختم اور 2 دفعہ پہلے بھی بولا کہ ایم کیو ایم کا چیپٹر کلوز ہو گیا۔اب ہم مل کر دیکھیں کہ جب پی ٹی آئی ختم ہو رہی ہوگی۔ پاکستان کی سیاست میں باری سب کی آتی ہے۔ کیونکہ سبق بھی تو سکھانا ہے…“

”ایک بچہ جمھورا 2016 میں پیدا کیا تھا، اس کو بہت سارے سبز باغ دکھائے تھے، خوب کھلایا پلایا تھا، بڑی بڑی گاڑیاں اور پروٹوکول بھی دی تھیں، دفتر دلوائے اور کھولنے کی اجازت بھی دی، بہت سے ایم این اے، ایم پی اے اور کارکن بھی دیئے تھے، پہلے پاکستان کا جھنڈا دیا پھر مچھلی پکڑا دی اور کہا بس اب الیکشن کی تیاری کرو تمہیں سندھ کا وزیراعلیٰ بنائیں گے۔
وہ خوشی سے اتنا پاگل ہوا کہ ایک سیٹ بھی نہیں جیت سکا۔“

”شاید پی ٹی آئی والے سمجھ رہے ہیں کہ عمران خان ہمیشہ ان کی پارٹی کے سربراہ رہیں گے۔ آج کل کے حالات سے ہی کچھ سیکھ لو۔ یہ پکڑ دھکڑ الیون جو بنائی ہوئی ہے کم از کم 11 ٹکڑوں میں بکھرے گی۔“

”پانچ سال ایم کیو ایم پر آپریشن، ٹکڑے کروا کر، اور سیاسی حقوق پر پابندی لگوا کر، 3 کروڑ کی آبادی میں 10 لاکھ ووٹس چھین کر، 21 میں سے 14 ایم این اے بنوا لیے اور کہتے ہیں کراچی پی ٹی آئی کا ہے۔“

میرے ذہن میں ایک سوال باربار آرہا ہے کہ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ البدر، الشمس اور طالبان محکمہ زراعت کی پیداوار تھیں اور یہ فصلیں کسی نہ کسی صورت میں آج تک پھل پھول رہیں ہیں اس کے برعکس MQM اور PTM کو بھارت نواز اور ”را“ کی آلہ کار قرار دیا جاچکا ہے؟

میں الجھ سی گئی ہوں نہ چاہتے ہوئے بھی شک کی ساری سوئیاں وہیں اشارہ کر رہی ہیں جس کے بارے میں بات کرنے والوں کا انجام وہی ہوتا ہے جو علی رضا عابدی کا ہوا کیونکہ وہ ”بول“ رہے تھے۔ لوگ کہتے ہیں کہ جنرل ضیاء نے MQM بنائی تھی ، اگر یہ سچ ہے تو پھر پختونوں کی طرح مہاجروں کی پوری نسل کو بھی ”وسیع تر قومی مفاد“ کے واسطے جہنم میں جھونک دیا گیا اور اپنی قوم کی تباہی کا نوحہ پڑھنے والے مہاجروں کو آج البدروالشمس اور سانحہ بلدیہ فیکٹری کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ طعنہ دینے والوں کو سانحہ پکّا قلعہ، دو بار دہرائے جانے والے سانحہ قصبہ کالونی اور علی گڑھ کالونی اور کراچی کے بدترین آپریشنز کی کچھ خبر ہی نہیں ہے۔ خیر ان سازشوں اور سانحات سے قطع نظر اب لگتا یہ ہے کہ کراچی میں رینجرز کے قیام کو ایک مضبوط جواز مل گیا ہے۔

ویسے میں آج اس بات پر دل کی گہرائیوں سے ایمان لاچکی ہوں کہ ہمارے ریاستی ادارے جسے چاہیں عزت دیں اور جسے چاہیں ذلیل کریں ”وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ ۖ بِيَدِكَ الْخَيْرُ“۔ مجھے یہ بات بھی سمجھ آگئی ہے کہ میں یہ سوال نہیں کرسکتی کہ جس طرح مہاجر حقوق کی بات کرنے والوں کو MQM، سانحہ بلدیہ فیکٹری، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور گٹکا خوری کا طعنہ دیا جاتا ہے ٹھیک اسی طرح جماعت اسلامی کے حواریوں کو البدر،الشمس اور طالبان کی خونریزیوں کا طعنہ کیوں نہیں دیا جاتا یا پیپلزپارٹی کے جیالوں کو بدترین لیاری گینگ وارز، خونریزیوں، بھاری اسلحہ رکھنے، بھتہ خوری اور عزیر بلوچ کا طعنہ کیوں نہیں دیا جاتا؟

ہاں مگر مجھے میرے نقادوں کو یہ ضرور یاد دلانا ہے کہ البدر اور الشمس میں صرف بہاری نہیں تھے بلکہ ”جذبہ اسلامی و ایمانی“ سے سرشار اسلامی جماعتوں کے وہ بنگالی بھی تھے جنہیں عوامی طاقت سے نفرت تھی۔ یہ وہی بنگالی لیڈران تھے جن میں سے کئی کو گزشتہ چند سالوں میں بنگلہ دیش میں پھانسی دی گئی ہے البتہ پاکستان میں ”جذبہ اسلامی و ایمانی“ سے بھرپور ”مجاہدین“ ریاستی اداروں کی گود میں بیٹھے ہوئے ہیں۔