عمران بیچارہ کیا کرے؟

 وقاص احمد

یہ ایک تلخ حقیقت ہے مگر پپلیے اور پٹواری اس جملے کا ٹھٹھا لگاتے ہیں لیکن حقائق کیا ہیں آئیں! مثالوں سے سمجھتے ہیں۔ مثلاً خاں صاحب کو جب 2018  میں حکومت ملی تو ان کو مبینہ طور پر 70 سال کا گند بھی صاف کرنا تھا۔ جبکہ نواز شریف کو صاف کرنے کو جہیز میں صرف 65 سال کا گند ملا تھا۔ اب یہ برابری تو نا ہوئی ناں، یا پھر خاں صاحب کو جو عوام ملی وہ عوام ہی ٹھیک نہیں ہے  جبکہ نواز شریف حاجی صاحبان، مولانا صاحبان، سادھووں، پیروں فقیروں اور ولّیوں پر حکومت کررہے تھے۔ یا مثلاً پاکستان کی تاریخ میں جتنے بھی حکمران گزرے اور انہوں نے جتنے بھی مجموعی قرضے لیے، ان سب نے اپنے قرضے 2018 تک کے لیئے ری شیڈول کروا رکھے تھے کیونکہ ان کو پتہ تھا کہ اس دور میں ایک “نیک سیرت، نیک نیت اور درد دل رکھنے والا حکمران” آئے گا اور اس کے حسد میں سب حکمران اپنے اپنے ادوار میں آئی ایم ایف کے پاس جا کر کہتے رہے کہ جناب آپ قرض ہمیں دیں، واپسی 2018 میں خاں صاحب کریں گے۔ ان حکمرانوں کی کمینگی تو ایک طرف، آپ یہود و نصاری کے آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کی سازش بھی دیکھیں کہ انہوں نے بھی سازش کرتے ہوئے 70 سال کے سارے قرضے کی ادائیگی خاں صاحب کے ذمے لگا دی۔

آپ اس احسان فراموش قوم کی ایک اور کرتوت ملاحظہ کریں۔ یہ قوم نواز شریف جیسے چور اور غدار کو تو 4500 ارب کا ٹیکس بھرتی رہی لیکن جب وہ لیڈر آیا جس نے ان ناہنجاروں کو دنیا کی تاریخ کا واحد کرکٹ ورلڈ کپ جیت کر دیا تھا تو تین ساڑھے تین ہزار ارب ٹیکس جمع کرنا بھی مشکل کر دیا۔ کڑوا سچ تو یہ ہے کہ اس قوم کی اوقات ہی نہیں کہ اسے خاں صاحب جیسا محنتی اور ایماندار حکمران ملے۔ آپ اسٹیٹ بینک کی کمینگی دیکھیں کہ نوازشریف کے دور میں ڈالر کی قیمت اوپر نیچے ہونے سے پہلے اس کے گھر جاکر اسے اطلاع دیتے تھے اور خاں صاحب کو اس قدر اندھیرے میں رکھا ہے کہ اس بیچارے شریف انسان کو ڈالر کی قیمت زیادہ ہونے کا ٹی وی سے پتہ چلتا ہے۔ اور تو اور آپ مختلف مافیاز کو دیکھ لیں!  آٹا مافیا، چینی مافیا، کھاد مافیا، دوائی مافیا اور “مافیا مافیا” کدھر مرے ہوئے تھے یہ نوازے چور اور زرداری ٹھگ کے دور میں؟  

اس وقت ان کو حکومت میں شامل ہوتے کیا تکلیف تھی؟  پہلے انہوں نے غازی کمانڈو مشرف جیسے بےمثال لیڈر کے ساتھ کھڑے ہوکر اس کو بدنام کیا اور پھر بھی تسلی نا ہوئی تو پاکستان کی آخری امید قائد ملت عمران خاں کو بدنام کرنے کے لیے اس کے دوست بن گئے اور پھر حکومت میں بیٹھ گئے۔ تاریخ گواہ ہے جب بھی پاکستان میں کوئی مخلص ایماندار محب الوطن اور زمانہ ساز لیڈر آتا ہے تو یہ لوگ پتہ نہیں کن کونوں کھدروں سے نکل کر اس کی ٹیم میں شامل ہوکر اس کو بدنام کرواتے ہیں۔ خاں صاحب طبیعت کے اعتبار سے شرمیلے اور وضع دار انسان ہیں۔ جس کے ساتھ ایک بار کھانا کھا لیں اس کی لحاظ داری کرتے ہیں جب کہ یہاں تو سازشی مافیا نے خاں صاحب کے کچن، گاڑیوں، جہازوں، شادیوں، طلاقوں، دھرنوں اور صحافیوں تک کے اخرجات اٹھائے ہوئے تھے تو خاں صاحب پھر کیسے ان سے “عہد وفا”  ناں نبھاتے؟ یہ قصور تو مافیاز کا ہے کہ انہوں نے خاں صاحب کو استعمال کیا۔ جبکہ خاں صاحب محض مروت میں بدنام ہوگئے اور مروت تو اچھی خصوصیات میں سے ایک ہے۔

دنیا بھر کے ادارے تو خاں صاحب سے ویسے ہی خائف تھے لیکن دل تو تب ٹوٹا جب اپنے اسٹیٹ بینک سے جاری ہونے والے اعدادوشمار میں نواز دور میں جعلی طور پر قائم جی ڈی پی گروتھ کے 5.8 فیصد  کو تو زیادہ بتاتے رہے مگر خاں صاحب کے اصلی اور خالص 2.5 فیصد جی ڈی پی گروتھ کو کم کہتے ہیں۔ اس ملک کو تباہ ہوجانا چاہیے جو اتنے مہان سمان انسان کی قدر ہی نہیں کر رہا۔ یہاں انسان تو انسان ترقیاتی منصوبے بھی خاں صاحب سے کوئی دشمنی لگائے بیٹھے ہیں۔ آپ ان منصوبوں کی خباثت کا اندازہ لگائیں کہ نوازشریف تو سارے قرضے، ٹیکس اور بجٹ اپنے بنک اکاؤنٹ میں بھر کر لندن اپنے گونگلو بچوں کے پاس بھیج دیتا تھا تاکہ وہ اور فلیٹ خرید سکیں لیکن یہ بجلی، ایل این جی، ہائیڈرو پاور، ہسپتال، سکول، فرانزک لیب، سیف سٹی، میٹروز، موٹرویز کے منصوبے سازش کے طور پر زمین پر خود بخود اگ جاتے تھے حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ نواز شریف انہیں دل سے لگانا ہی نہیں چاہتا تھا۔ اور میرا یہ شہزادہ، دل کا کھرا، ارادے کا پکا اور نیت کا صاف لیڈر اس قوم کا درد دل میں لیے صدق دل سے ہاتھوں میں اپنے نام کی افتتاحی تختی اٹھائے ملک کے ایک نکڑ سے دوسری نکڑ تک خوار ہوا پھرتا ہے مگر جہاں جاتا ہے وہاں اس چور نواز کی تختی پہلے سے لگی ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ خاں صاحب کے اپنے فیملی ہسپتال کے باہر بھی اسی چور کی تختی لگی ہوئی تھی۔ اب اس میں خاں صاحب کا تو کوئی قصور نہیں۔ ان کی نیت تو یہی ہے ناں کہ وہ پاکستان کے لیے کام کریں تو ہم ان کی نیک نیتی کی وجہ سے انہیں سو بٹا سو نمبر دے دیتے ہیں اور اسی نیک نیتی کی وجہ سے ہم درخواست کرتے ہیں کہ کوئی مولانا حسین و جمیل یہ فتویٰ دیں کہ کسی کرپٹ حکمران کے لگائے ہوئے منصوبے کی تختی اکھاڑ کر ایماندار اور ریاست مدینہ کے نام لیوا حکمران کی تختی لگانے کا عمل مستحسن اور شرعی ہے۔

بھارت جیسا مکار اور کمینہ دشمن اللہ ہمارے کسی دشمن کو بھی نا دے۔ ہندوؤں کی مذہبی کتاب گیتا میں یہ پیش گوئی موجود تھی کہ اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے کے آٹھویں سال میں بھارت ماتا سے ٹوٹے ہوئے ایک نئے ملک میں ایک سیلیکشن ہوگی اور اس میں ایک شخص جس کا لقب “ہینڈسم”  ہوگا وہ حکومت سنبھالے گا جو کہ بھارت ماتا کو نیست و نابود کردے گا۔ ہزاروں سال سے ہندو پنڈت اپنی آنے والی نسلوں کو اس خطرے سے آگاہ کرتے رہے یہاں تک کہ آج کا دور آگیا اور مودی نے اس پیش گوئی کو مدنظر رکھتے ہوئے جارحانہ اقدامات کرنا شروع کردیئے۔ مثلاً آپ دیکھیں کہ کیا یہ زیادتی نہیں کہ پاکستان کی 70 سال کی تاریخ میں فوج کا محب الوطن دور نکال کر مسلسل غدار وطن فروشوں کی حکومت رہی مگر اس مودی کو کشمیر کو اپنا آئینی جز بنانے کا خیال صرف اس واحد سولین محب الوطن لیڈر کے دور میں آیا۔ کیا یہ سازش نہیں؟ ماضی حال اور مستقبل پر گہری نظر رکھنے والے عظیم دانشور چوہدری غلام حسین اور وزارت خارجہ کی ایک سابق خاتون ترجمان نے ثبوت کے ساتھ بتایا ہے کہ نواز شریف نے اپنی شوگر ملوں میں موجود بھارتی ایجنٹوں کے ذریعے مودی کو خفیہ پیغام پہنچایا تھا کہ آپ 2019  تک کشمیر کے معاملے کو مت چھیڑیں، میرے جانے کے بعد کاروائی ڈالنا۔

چوہدری غلام حسین کے “ثبوتوں” اور خاتون ترجمان کی گواہی کے ساتھ واقعاتی شواہد بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں۔ مودی واقعی ایک کم ظرف بندہ ہے کہ نوازشریف کو تو اڑ اڑ کر اس کے گھر سالگرہ کی مبارکبادیں دینے اور نواسی کی شادی میں شرکت کرنے بھاگا جاتا تھا، حالانکہ ہماری محب الوطن فوج نے واضع اور غیر واضع طور پر بھارت کو بتا دیا تھا کہ ہم آپ سے بات نہیں کرنا چاہتے بلکہ عملی طور پر بات چیت کی ہر کوشش کو “قوم کے وسیع تر مفاد” میں بہترین طریقے سے کھڈے لائن بھی لگاتے رہے لیکن 2018  کے بعد سے تو کبھی ہمارے چیف صاحب مذاکرات کی دعوت دیتے ہیں، کبھی ہمارے وزیراعظم مس کالیں مارتے رہتے ہیں مگر یہ مودی چائے والا کال ہی نہیں اٹھاتا۔ حالانکہ اسے سمجھنا چاہیے کہ ہم اس کی عزت افزائی کر رہے ہیں۔ پہلے انہیں تردد کرکے ہمارے گھر آنا پڑتا تھا، اب ہم ایک اشارے پر ان کے گھر سر کے بل پہنچنے کو تیار ہیں، بیوقوف جاہل لوگ ! کس قدر ناقدری کی ہے ہم نے اس شخص کی۔ 12 ہزار کروڑ پاؤنڈ کی جائیداد کو لات مار کر تم جیسی دو ٹکے کی قوم کی خاطر راتوں کو جاگتا ہے اور دن میں سوتا ہے۔ جواباً اس ملک کے جاہل عوام اور کرپٹ ادارے اس کو اتنی وقعت بھی نہیں دیتے کہ اسے یہ یاد رہے کہ وہ اس ملک کا وزیراعظم ہے۔ یہ کام بھی مومنین کی رول ماڈل، خاتون سوم، مادر ملت پیرنی جی کو کرنا پڑتا ہے کہ وہ روز صبح خاں صاحب کو یاد کروائیں کہ وہ اس ملک کے وزیراعظم ہیں۔ افسوس صد افسوس۔ پاکستانیو! قدر کرو اس شخص کی۔ یہ نا ہوتا تو تمہیں کبھی بھی نا پتہ چلتا کہ چوروں نے اس ملک میں ڈالر کی قیمت سے لیکر، مہنگائی کے اعشاریے، روزگار کے اضافے سے لیکر کاروبار کے مواقع اور ترقی کی شرح سے لیکر ترقیاتی منصوبوں کے جو ڈھیر لگائے ہیں وہ سب کے سب جعلی تھے۔ یہ خاں صاحب اور ان کے سرپرستان ہیں جو تمہیں تمہاری اصل اوقات دکھا رہے ہیں۔ “شکر ادا کرو ناشکرو