عورت ہونا آسان نہیں ہے

مہناز اختر

دنیا میں دو قسم کے مرد موجود ہیں, روایت پسند اور آزادخیال جدیدیت پسند۔ انہی دو اقسام کے مردوں پر مشتمل پدرانہ پاکستانی معاشرہ خواتین کے لیے چکی بن چکا ہے, جسکے پاٹوں سے فرار ناممکن ہے۔ مجھے اس موضوع پر لکھنا مشکل لگ رہا ہے لیکن انہی مشکلات کو آسان کرنے کے لیے گفتگو اور مکالموں کی شدید ضرورت ہے۔

آج کل پوری دنیا میں خواتین کا لباس اور بدن موضوع بحث بنا ہوا ہے لیکن اسکے برعکس خواتین کی صحت سے متعلق موضوعات پدرانہ معاشروں میں ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے ماہ اکتوبر کو چھاتی کے سرطان یا بریسٹ کینسر کے حوالے سے آگاہی کے مہینے کے طور پر منایا جاتا ہے۔ پوری دنیا میں اس جان لیوا مرض کی وجوہات اور بچاٶ کے حوالے سے مختلف پروگرامز اور سیمینار منعقد کیے جاتے ہیں۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ چھاتی کا سرطان نسوانی بیماری نہیں ہے بلکہ یہ مردوں کو بھی لاحق ہوسکتا ہے البتہ خواتین کے مقابلے میں مردوں میں چھاتی کے سرطان کی شرح صرف ایک فیصد ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں چھاتی کے سرطان کیوجہ سے خواتین کی اموات کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ ان اموات کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ عام اور متوسط گھرانوں کی خواتین شرم اور جھجھک کی وجہ سے اپنی بیماری کے متعلق بات نہیں کرپاتیں اور اسکے نتیجے میں خواتین یا تو اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں یا پھر انکی جان بچانے کے لیۓ انکی سرطان زدہ چھاتیوں کو آپریشن کے ذریعے الگ کردینا ناگزیر ہوجاتا ہے۔

یہ بات حوصلہ افزاء ہے کہ بروقت تشخیص ہوجانے پر بریسٹ کینسر مکمل طور پر قابل علاج بیماری ہے۔ پاکستان میں اس بیماری سے خواتین کی اموات کی ایک بہت بڑی وجہ اس بیماری کی بروقت تشخیص نہ ہونا ہے۔ ایک لیڈی ہیلتھ ورکر نے بتایا کہ گھرگھر آگاہی مہم کے دوران زیادہ تر خاندان اپنی بہوٶں کو بخوشی معاٸنہ کرانے یا ہماری بات سننے کی اجازت دے دیتے ہیں لیکن بڑی عمر کی خواتین طبّی معاٸنہ کرانے میں دلچسپی نہیں لیتیں اور نہ ہی اپنی غیر شادی شدہ لڑکیوں کو معاٸنہ کرانے کی اجازت دیتی ہیں اسکا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ان دو گروہوں میں بریسٹ کینسر کی تشخیص تب ہوتی ہے جب پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے۔ طبی ماہرین اب تک بریسٹ کینسر کی حتمی وجوہات کا تعین کرنے میں ناکام رہے ہیں لیکن ہمارے یہاں بریسٹ کینسر کے حوالے سے عام طور پر چندغلط فہمیاں پاٸی جاتی ہیں۔ جیسے کہ بریسٹ فیڈنگ نہ کرانے والی ماٶں کو بریسٹ کینسرہوتا ہے ، تاخیر سے شادی کرنا یا یہ بیماری نامناسب زیرجاموں کے استعمال سے ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اب تک کی تحقیق سے طبّی ماہرین اس نتیجے پر پہنچیں ہیں کہ غیر صحتمندانہ طرز زندگی سے بریسٹ کینسر کے امکانات بڑھ جاتے ہیں لیکن بریسٹ کینسر کی وجوہات جینیاتی ہیں اور اسکا تعلق ہارمونز سے ہے۔

اکتوبر کی ابتدا سے دنیا بھرمیں چھاتی کے سرطان کا موضوع توجہ کا مرکز ہے لیکن اس ماہ پاکستان میں سوشل میڈیا پر خواتین کی ”چھاتیاں“ موضوع بحث بنی رہیں۔ اسی ماہ ٹینس اسٹار ثانیہ مرزا نے اپنی ”بی بی شاور“ (گود بھرائی کی رسم کا جدید مغربی انداز) کی تقریب کی تصاویر سوشل میڈیا پراپلوڈ کی تو سوشل میڈیا پر ثانیہ کی تصاویر پر پاکستانیوں کی جانب سے انتہاٸی بے ہودہ کمنٹس کٸے گۓ اور ثانیہ کی ”چھاتیاں“ مردوں کے لیۓ تفریح کا موضوع بن گٸیں۔ دوران حمل وزن کا بڑھنا اور جسامت میں تبدیلی عام سی بات ہے لیکن ثانیہ کے اس حلیے پرپاکستانیوں نے رکیک جنسی جملے کسنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ خیر ثانیہ بھی ثانیہ ہے ,ایسے بیمار ذہن مردوں اور خواتین کو کرارا جواب دیا جنکے مطابق خواتین کو ایسی ”حالت“ میں اعتکاف میں بیٹھ جانا چاہیے۔ دوسرے واقعے میں پاکستانی اداکارہ ماٸرہ خان سوشل میڈیا ٹرولز کی اوچھی ذہنیت کا شکار ہوٸیں جب انہوں نے سوشل میڈیا پر چھاتی کے سرطان پر آگاہی کے حوالے سے ایک سوالنامہ ٹوٸیٹ کیا لیکن پاکستانی مردوں نے چھاتیوں کے سرطان جیسے موذی مرض کو نظر انداز کرکے ماٸرہ پر گندے جملے کسے, جواب تو خیر ماٸرہ خان نے بھی خوب دیا لیکن ہمارے معاشرے میں موجود اسطرح کے بیمار پدرانہ رویے ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کردیتے ہیں کہ ”عورت“ ہونا واقعی دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔

دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ مغربی دنیا میں جہاں ”حیا“ کا قدیم تصور بدل چکا ہے اور”چھاتی“ یا ”بریسٹ“ کے حوالے سے بات کرنا باعث شرم نہیں رہا وہاں کی خواتین بھی پدرانہ ذہنیت کی باقیات کا شکار ہیں۔ ایسے مغربی معاشرے جہاں عوامی مقامات پر ”بوس وکنار“ پر کوٸی پابندی نہیں وہاں اس بات پر بحث جاری ہے کہ کیا شیرخوار بچوں کی ماٶں کو عوامی مقامات پر بچوں کو بریسٹ فیڈنگ کی اجازت ہونی چاہیے یا نہیں, شاید وہاں کے مردوں کو بھی یہ خطرہ ہے کہ بچے کو دودھ پلاتی ماں کو دیکھ کرانکے جذبات بھڑک سکتے ہیں۔ اس مسٸلے پر دوسرا نکتہ یہ بھی ہے کہ مغرب میں پدرانہ صنعتی انقلاب کے بعد بڑی مشکل سے خواتین کو گھر گرہستی سے نکال کر دفاتر اور کارخانوں تک لایا گیا تھا اور انہیں اس بات کا یقین بھی دلادیا گیا تھا کہ ڈبوں کا دودھ شیر خوار کے لیۓ مناسب ہے اور بریسٹ فیڈنگ سے خواتین کے نسوانی حسن میں کمی آتی ہے ,پر کیا کیا جاۓ کہ مغرب کی ماڈرن خاتون پھر سے فطری طریقوں سے اپنی ممتا کی تسکین چاہتی ہے اور فخر سے اپنے بچوں کو اٹھا کر دفاتر اور کارخانوں میں آنے لگی ہے۔

جیسا کہ میں پہلے کہہ چکی ہوں کہ عورت کا بدن اور اسکا لباس ہمیشہ سے مردوں کا مسٸلہِ اولین رہا ہے اس لیے آج بھی عورت کو کیا پہنا چاہیے اور کیسا دکھنا چاہیے اسکا فیصلہ مرد کرنا چاہتے ہیں۔ خود عورت اپنے وجود کے حوالے سے کیا نقطہ نظر رکھتی ہے مردوں کو اس سے کوٸی سروکار نہیں, عورت کی چھاتیاں مردوں کے لیے تفریح کا موضوع ہے لیکن چھاتی کے کینسر کے حوالےسے مردوں میں سنجیدگی ناپید ہے, یہ رویہ انتہاٸی خطرناک ہے۔ ماہ اکتوبر Breast Cancer Awareness کا مہینہ ہے اس لیۓ میری کوشش ہوگی کہ میں اس مہینے اپنے مضامین میں ایسے موضوعات کا احاطہ کروں جن پر روشنی ڈالنا نہایت ضروری ہے۔

بحیثیت معاشرہ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مرد اور عورت انسانی سماجی ڈھانچے کی دو بنیادی اکاٸیاں ہیں اور جب تک یہ دونوں اکاٸیاں کسی معاملے پر ایک نہ ہوجاٸیں ہم کوٸی بھی سماجی مسٸلہ حل نہیں کرسکتے۔ پھر چاہے وہ لباس کے معاملے میں خواتین کے آزادی انتخاب کا حق ہو یا بریسٹ کینسر جیسی جان لیوا بیماری کے خلاف جنگ۔ اس معاملے میں روایت پسند مردوں سے کوٸی امید رکھنا فضول ہے لیکن شکوہ پاکستانی معاشرے کے آزاد خیال جدیدیت پسند مردوں سے بھی ہے جو خواتین کی صحت سے متعلق موضوعات کو قطعی اہمیت نہیں دیتے۔