فوج کے خلاف نعرے کیوں؟

عاطف توقیر

گزشتہ روز سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا، جس میں ایک طرف سینکڑوں افراد کھڑے فوج مخالف نعرے لگا رہے تھے اور دوسری جانب چند فوجی اہلکار کھڑے تھے۔ میں اس سے قبل بھی اس موضوع پر لکھ چکا ہوں اور اپنی قوم کو خبردار کرنے کے لیے دوبارہ لکھ رہا ہوں۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی عام شخص کے لیے شاید یہ کوئی عام سا واقعہ ہو، مگر میری نگاہ میں یہ ایک نہایت خوف ناک واقعہ ہے۔ میرے والد فوج میں تھے اور میں ایک لمحے کو یہ سوچ رہا تھا کہ ایسا بھی تو ہو سکتا تھا کہ وہ اس وقت ان لاچاری سے اس نعرے لگانے والے ہجوم میں کھڑے اپنی ڈیوٹی دے رہے ہوتے، انہیں ایسے میں کیا محسوس ہو رہا ہوتا۔ ایک قوم جس کی حفاظت کی ذمہ داری لیتے ہوئے، میرے والد نے وردی پہنی تھی اور جس قوم کی حفاظت کے لیے وہ مختلف سرحدوں میں گولی اور گولوں کا مقابلہ کرتا رہا، اسی قوم کے لوگ اس کے سامنے کھڑے ہو کر اگر یہ نعرے بلند کریں، تو اسے کتنی تکلیف پہنچتی۔ یقیناﹰ یہ نہایت قابل افسوس بات ہے۔

لوگ اب اس جنگ اور عدم استحکام سے تھک چکے ہیں۔ ایک جنگ اور شورش ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ ناانصافیاں وہاں پہنچ چکی ہیں کہ لوگوں کا ریاست پر سے اعتبار ہی اٹھ چکا ہے یا اٹھتا جا رہا ہے۔ لوگوں کو معلوم ہی نہیں ہو رہا کہ وہ کسی ناانصافی پر انصاف کے لیے کون سا دروازہ کھٹکھٹائیں؟ لوگ رفتہ رفتہ عاجز آتے جا رہے ہیں۔ کسی کے گھر سے کوئی لاپتا ہوتا ہے، تو پرچہ نہیں کٹتا، عدالتیں درخواست وصول نہیں کرتیں، پریس کلب کے سامنے احتجاج پر ڈنڈے پڑتے ہیں، ایسے میں لوگ کیا کریں؟ جرم پر سزا جرم کی دی جاتی ہے، مگر ہم کب تک جرم بتائے بغیر اپنے لوگوں کو طاقت استعمال کرتے رہیں گے؟ ایسی صورت حال میں تو پاکستان کا کوئی بھی دشمن فائدہ اٹھا کر ہماری دراڑوں میں باردو بھر سکتا ہے۔ ان نعروں کو نہایت سنجیدہ لینے کی ضرورت ہے۔

کوئی عام شخص شاید اس ویڈیو کو مسالے دار سمجھ کر دیکھے اور پھر شیئر کر کے اس مزے میں دیگر افراد کو شریک کر دے گا، مگر میں یہ ویڈیو دیکھ کر بہت دیر سوچتا رہا۔ میرے نگاہ میں پہلا سوال یہ تھا کہ یہ نعرے کیوں لگ رہے رہیں اور دوسرا سوال یہ تھا کہ یہ نعرے کیسے بند کیے جا سکتے ہیں؟

یہ دونوں سوال نہایت اہم ہیں اور بہ طور قوم ہمیں اس پر سوچنا ہو گا۔ ایک عام فوجی کا ملک میں دہشت گردی کی لہر یا امریکا سے ڈالر لے کر سوویت جنگ میں شامل ہونے کے فیصلے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ایک فوجی کا کام اوپر سی دی گئی ہدایات پر عمل کرنا ہوتا ہے اور یہی ڈسیپلن اور نظم ہے، جو اسے دشمن کے سامنے پوری قوت سے آخری سانس تک لڑائی پر مائل کرتا ہے۔

زیادہ بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری فوج جو ہم نے اس دیس کے دشمنوں سے لڑنے اور اپنے گھر کی حفاظت کے لیے قائم کی تھی، وہ اس دیس میں پھیلی نفرت، دشت گردی اور داخلی تقسیم کی وجہ سے اپنی ہی قوم کے لوگوں کے خلاف استعمال کرنا پڑ رہی ہے۔

اس دیس میں متعدد ایسی برادریاں ہیں، جن کو ریاست سے شدید نوعیت کے شکوے ہیں۔ ہم اب تک کرتے یہ آئے ہیں کہ شکوہ کرنے والے افراد کو دشمن سمجھا جائے اور ایسی آوازوں کو کچل دیا جائے، ملک میں جبری طور پر گم شدہ ہونے والے افراد، ماورائے عدالت قتل، مسخ شدہ لاشیں، انسانی حقوق کی پامالیاں اور اس انداز کے دیگر واقعات اور سانحات ایک ایسا تسلسل ہیں، جس نے اس تمام نفرت اور اشتعال میں اضافہ کیا ہے اور ان قومیتوں کی شکایتیں ریاست سے بڑھتی چلی گئی ہیں۔ بلوچ، پشتون، سندھی، مہاجر، سرائیکی، گلگت بلتستانی اور کشمیری، ہر طرف کوئی نہ کوئی کسی نہ کسی انداز کی شکایت کر کے حقوق نہ ملنے پر سراپا احتجاج ہے اور حتیٰ کہ پنجاب میں بھی ایک بہت بڑا علاقہ غربت، افلاس، بھوک، جہالت اور زندگی سے وابستہ دیگر بنیادی نوعیت کی چیزوں کا متلاشی ہے، تاہم ہم اپنے مسائل سے چشم پوشی اختیار کر کے یہی سمجھ رہے ہیں کہ شاید ریاست طاقت استعمال کرے گی، تو یہ لوگ چپ ہو جائیں گے۔ ہوتا یہ ہے کہ ایسے کسی احتجاجی مظاہرے کو طاقت کا استعمال کر کے دبا دیا جاتا ہے، مگر اندر ہی اندر نفرت اور پکتی چلی جاتی ہے۔

یہ پچھلی کئی دہائیوں کا غصہ ہے، جو شاید اس طرح اعلانیہ طور پر ان نعروں کی صورت میں دکھائی دے رہا ہے اور بدقسمتی یہ ہے کہ ہم اب بھی یہ سمجھنے کو تیار نہیں۔ ایک بات تاہم سب پر واضح ہونا چاہیے کہ نعرے ان پالیسیوں کے خلاف ہیں، جو شاید اب تبدیل ہونا چاہئیں۔ ہم کیوں اپنی قوم کے لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر مذاکرات کر کے، ان کے تحفظات ختم یا کم کر کے، ان کے زخموں پر مرہم رکھ کے، ان اپنائیت کا احساس دلا کے اور ان کے جائز اور قانونی مطالبات تسلیم کرتے ہوئے عملی اقدامات سے ان کا دل نہیں جیت سکتے؟

یہ نعرے صرف اسی صورت میں ختم ہو سکتے ہیں جب ہم حقوق مانگنے والوں اور ملک دشمنوں میں فرق کریں۔ حقوق، امن، انصاف، جمہوریت مانگنے والے افراد روح کے اندر تک اس ملک کی بقا اور سالمیت سے وابستہ ہیں اور ان پر طاقت کا استعمال کسی صورت نہیں ہونا چاہیے۔ ملک دشمن وہ لوگ ہیں، جو ملک کے دستور کو تسلیم کرنے سے انکار کریں، پرامن نہ ہوں بلکہ انتشار اور تشدد کے حامی ہوں اور مذاکرات کرنے پر تیار نہیں ہوں۔

فوج کے پالیسی سازوں کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ابھی فی الحال یہ نعرے ہیں، مگر یہ صورت حال سیاسی انداز سے حل نہ کی گئی، تو پھر یہ معاملات تشدد کی جانب بڑھ سکتے ہیں اور ایسی صورت میں واپسی کا کوئی راستہ بھی نہیں بچے گا۔ نفرتوں اور بداعتمادی کو وہاں تک نہ لے جائیں کہ وہ جو آج اس ملک کا حصہ، اس ملک کی جان اور اس ملک کی بقا ہیں، کل وہ اس ملک ہی سے متنفر ہو جائیں۔

میں کم از کم اس وائرل ہونے والی ویڈیو سے نہایت خوف زدہ ہوں کیوں کہ یہ صدائیں اگر آتی رہیں اور انہیں مذاکرات اور سیاسی انداز سے حل نہ کیا گیا، تو کل یہ معاملات شدت اختیار کر جائیں گے اور پھر ہم مذاکرات پر آمادہ ہو بھی گئے، تو شاید چیزیں ہمارے ہاتھ میں باقی نہ رہیں۔

پاکستان کی بقا کے لیے یہ بات ہم سب پر واضح ہونا چاہیے کہ اختلافات کتنے کی شدید کیوں نہ ہوں، ہمیں دستور، قانون، انصاف، اخلاقیات اور انسانیت سے جڑے رہنا ہے۔

اب بہ طور قوم ہمیں ان نعروں کا سدباب سیاسی، مدبرانہ اور علم و دانش سے کرنا ہو گا۔ بیانیے کا رد طاقت نہیں بلکہ بیانیہ ہی ہے مگر اس رد کے لیے ہمیں اخلاص کی بھی ضرورت ہے اور یہ سمجھنے کی بھی کہ ہمیں اپنے دیس میں رہنے والی مختلف قومیتوں کو کس طرح یہ یقین دلانا ہے کہ ہم سب پاکستانی ہیں، ہم تمام تر اختلافات کے باوجود اپنی دھرتی سے محبت کرتے ہیں اور ہم اس دھرتی پر مضبوط ادارے دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ ادارے جن سے ہم خوف نہ کھائیں بلکہ جن پر ہمیں مان ہو۔

مستونگ میں قریب دو سو افراد دہشت گردی کا نشانہ بن گئے، مگر نہ ہمارے ٹی وی چینلوں کے کیمروں کو جوش آیا اور نہ ہماری سیاسی جماعتوں کی انتخابی سرگرمیاں متاثر ہوئیں۔ سب کچھ اس طرح چلتا رہا، جیسے مرنے والے اس قوم کے بچے اور بچیاں نہیں تھے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ انتخابی سرگرمیوں اور جلسے جلوسوں کی بجائے یہ تمام افراد ان غریب لوگوں کے سرپر ہاتھ رکھنے پہنچ جاتے اور انہیں احساس دلاتے کہ ہم آپ کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں۔ مگر بدقسمتی سے دیکھنے میں کچھ اور آیا۔

ہم اگر پاکستانی قوم کو زندہ باد کرنے میں کامیاب ہو گئے، تو پاکستان ہمیشہ کے لیے پائندہ باد ہو جائے گا۔