قبضہ مافیا کے ستائے ہوئے ددہوچھہ ڈیم متاثرین کا فوری انصاف کا مطالبہ

 ارشد سلہری

ددہوچھہ ڈیم کی  باز گشت 1970 کی دہائی سے جاری تھی۔ ددہوچھہ ڈیم کے منصوبے پر باقاعدہ کام 2006 میں شروع کیا گیا اور اس وقت کی انتظامیہ نے7977 کنال تحصیل پنڈی کے مختلف موضعات کی اراضی کوآرمی ویلفیئر ہاؤسنگ سوسائٹی  کے لیئے ایکوائر کر لیا تھا۔ جس کے خلاف مالکان زمین نے ہائی کورٹ میں ایکوائیر کو چیلنج کر دیا۔ جس کا فیصلہ زمینوں کے مالکان کے حق میں آیا۔ جس کو آرمی ویلفیئر ہاؤسنگ سوسائٹی  نے انٹرا کورٹ ڈبل بینچ میں اپیل کی۔ یہاں بھی زمینداروں کے حق میں فیصلہ ہوا کہ زمینداروں کی جدی پشتی میراث کو کسی سوسائٹی کے لیئے ایکوائیر نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اس فیصلہ کو پھر آرمی ویلفیئر ہاؤسنگ سوسائٹی نےسپریم کورٹ میں چیلنج کردیا جو تا حال  التواء میں ہے۔

2020 میں پنجاب اسمال ڈیم کے پراجیکٹ کے تحت رقبہ زمین تحصیل راولپنڈی کے تقریباً سات دیہات، موضع ددہوچھہ، خانپور، بروالہ، ددھار مرزا، منگھوٹ ددھار نجار اور مغل خاص کے موضعات کی 14371کنال 19 مرلے زمین کو ایکوائیر کرلیا گیا۔ آئین کے مطابق ایکوائر کی گئی زمین پر ایک سال کے اندر اندر منصوبہ شروع کیا جانا ضروری ہوتا ہے۔ وزیراعلی کی صوابدید پر صرف 2 ماہ کی توسیع مل سکتی ہے،  اور آخری توسیع صرف ایک ہفتہ تک کی دی جا سکتی ہے۔ اس سے زیادہ کی آئین اور قانون میں کوئی گنجائش نہیں ہوتی ہے۔ آئین اور قانون کے مطابق تو منصوبے کا نوٹیفکیشن ختم کردیا جاناچاہیئے تھا۔ جبکہ دس سال خاموشی کے بعد 2020  میں سپریم کورٹ کے آرڈر کو جواز بناتے ہوئے پہلے مارچ 2020 میں 7977کنال اور پھر ٹھیک ایک ماہ بعد اجنڈم کے تحت 14371کنال 19 مرلے زمین ددہوچھہ ڈیم کے لیئے ایکوائیر کی گئی جوکے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے ساتھ آرٹیکل 199 کی خلاف ورزی بھی ہے۔

سپریم کورٹ نے جو فیصلہ ڈیم کے لیئے دیا تھا اس میں واضح کہاگیا تھا کہ رقبہ 7977  کنال سے زیادہ نہیں ہو گا اور یہ زمین صرف ڈیم کے مقصد کے لیئے ہی استعمال ہو سکے گی۔ کسی اور مقصد یا سوسائٹی کے لیئے استعمال نہیں کی جائے گی، بصورت دیگر زمین ایکوائیر ختم کر کے زمینداروں کے نام پر واپس کردی جائے گی۔ مندرجہ بالا حقائق سے مقامی انتظامیہ کی بدنیتی ظاہر ہوتی ہے جو آرمی ویلفیئر ہاؤسنگ سوسائٹی کو نوازنا چاہتی ہے۔ یہ ڈیم راولپنڈی کے مضافات میں تحصیل پنڈی کے سات دیہات ددہوچھہ، خان پور، بروالہ، ددھار مرزا، منگھوٹ، ددھار نجار، اور مغل خاص کی زمینوں پر بنایا جارہا ہے۔ جو کہ ڈے ایچ اے ویلی کے اندر مرکزی موضعات ہیں۔ ڈی ایچ اے ویلی کےان موضعات کی زمینوں کا  ڈی سی ریٹ پچاس سے ساٹھ لاکھ روپے کنال ہے اور  زمینداروں کو ایکوائیرڈ زمینوں کا ایوارڈ فی کنال پینسٹھ ہزار  سے ایک لاکھ دیا گیا ہے۔

زمین داروں نے ہائی کورٹ میں اس بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے خلاف پٹیشن دائر کر رکھی ہے اور انصاف کے حصول کے لیئے کوشاں ہیں۔ ددہوچھہ ڈیم کے منصوبے اور ڈی ایچ اے کے ہاؤسنگ پراجیکٹ سے تحصیل پنڈی کے سات موضعات براہ راست متاثر ہوتے ہیں ان میں دو دیہات موضع خان پور اور موضع بروالہ مکمل طور پر مکانات وقبرستانوں سمیت ددہوچھہ ڈیم کے اندر آتے ہیں جس کے لیئے 14371 کنال 19 مرلے اراضی ایکوائر کی گئی ہے۔

انتظامیہ نے اگست 2020 میں متاثرین کو نوٹس ارسال کیئے کہ زمین ایکوائر کیئے جانے پر اعتراضات داخل کرائیں اور اس کے بعد پرائس ایوارڈ کا اعلان کیا جائےگا۔ مگر انتظامیہ نے بدنیتی سے کام لیتے ہوئے اعتراضات سنے  بغیر پرائس ایوارڈ کا اعلان کر دیا اور قابل کاشت زمینوں کو بنجر ظاہر کرتے ہوئے اپنی مرضی کے ریٹ مقرر کردیئے۔ جس پر متاثرین نے عدالت سے رجوع کیا۔عدالت عالیہ نے متاثرین کی دائر کردہ پٹیشن پر 26 نومبر 2020 کی تاریخ دے رکھی ہے۔ ددہوچھہ ڈیم کے متاثرین کی کمیٹی کے کنوینر  اکمل ریاض کیانی کے مطابق انتظامیہ کے رویے اور سلوک سے ایسا لگتا ہے کہ ہم پاکستان کے شہری نہیں ہیں۔ ہم پر کوئی قبضہ مافیا مسلط ہے جو اونے پونے میں ہماری جائیدادوں کو چھین رہا ہے۔ مارکیٹ کے مطابق فی کنال اراضی کی قیمت ساٹھ لاکھ ہے۔ متاثرین مارکیٹ ریٹ یا کم ازکم  تیس سے چالیس لاکھ کا مطالبہ کررہے ہیں۔ جبکہ ڈی ایچ اے  انتظامیہ نے پرائس ایوارڈ کو چیلنج کرتے ہوئے اسی لاکھ کی ڈیمانڈ کررہی ہے۔

متاثرین کمیٹی  کے کنوینراکمل ریاض کیانی کا کہنا ہے کہہ ہم ارباب اختیار، حکومت پنجاب، وزیراعظم پاکستان، چیف جسٹس سپریم کورٹ، چیف آف آرمی اسٹاف سے اپیل کرتے ہیں کہ ہمیں مارکیٹ ریٹ یا کم ازکم تیس سے چالیس لاکھ روپے کنال قیمت اراضی یا متبادل زرعی آباد زمین دی جائے اور ڈیم کے اندر آنے والے موضعات تحصیل پنڈی سے بروالہ اور خانپور اس کے ساتھ تحصیل کلر سیداں سے ایک موضع فیض اللہ جن کےمکان بمعہ قبرستان زد میں آ رہے ہیں۔ ان کے لیئے غازی بروتھا پراجیکٹ کا فارمولا رائج کرتے ہوئے ماڈل ولیج بنا کر دیئے جائیں اور ساتھ ہی قبرستان بھی ان ماڈل ولیج میں منتقل کیئے جائیں یا کنسٹرکشن ریٹ موجودہ مارکیٹ ریٹ کے مطابق دیئے جائیں۔ اگر ہمارے حقوق نہ دیئے گئے تو ہم نہ ختم ہونے والے احتجاج کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔

متاثرین کو نہ ڈی ایچ اے اور نہ ہی ڈیم انتظامیہ کی طرف  سےمعاوضہ ادا کیا گیا ہے۔ متاثرین 2006 سے عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہیں۔ 2020 میں مزید زمیں ایکوائر کی گئی ہے۔ جس میں متاثرین کے گھر اور قیمتی جائیدادیں بھی ہیں۔ متاثرین میں شدید تشویش پائی جاتی ہے کہ ہم متاثرین جن میں اکثریت افواج پاکستان کے حاضر سروس ریٹائرڈ سپاہی سے لے کر جنرل تک شامل ہیں۔ افواج پاکستان سے اور ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان سے پیار کرنے والے افراد ہیں۔ قومی منصوبوں کےلیئےاپنی زمینوں ، گھروں اور جائیدادوں کی قربانی دیتے ہیں مگر ریاستی ادارے ہمارے ساتھ ناروا سلوک روا رکھتے ہیں۔ متاثرین کے ساتھ آئین اور قانون کے مطابق معاملات طے کرنے کے بجائے دھونس اور دھاندلی سے کام لیا جاتا ہے۔ متاثرین چاہتے ہیں کہ ددہوچھہ ڈیم کی زد میں آنے والی اراضی کے عوض زرعی زمینیں دی جائیں اور اگر زد میں گھر آتے ہیں تو گھر دیئے جائیں۔ بصورت دیگر ماڈل ویلج بناکر متاثرین کو بسایا جائے۔ متاثرین کے مطالبات کو دیکھا جائے تو ایک مطالبہ بھی ایسا نہیں ہے کہ جو غیر حقیقی یا ناجائز ہو۔

ددہوچھہ ڈیم انتظامیہ اور ریاستی اداروں کی جانب سے متاثرین سے آئین اور قانون سے ماورا برتاؤ کیا جارہا ہے۔ ڈیم منصوبہ اور ڈی ایچ اے ویلی کےلیئے ایکوائر کردہ زمینوں کے معاوضہ جات ادا نہیں  کیئے جارہے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایف ڈبلیو او کی جانب سے ددہوچھہ ڈیم کی سائٹ پر کام کے آغاز کے لیئے مشینری ان موضعات میں لے آئی جا چکی ہے۔ جس پر متاثرین نے احتجاج کیا کہ جب تک معاوضہ جات اور متاثرین کے مطالبات سنے نہیں جاتے کام شروع نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ہماری پٹیشن ہائی کورٹ میں لگی ہوئی ہیں جس کی تاریخ 26 نومبر 2020 ہے۔ شدیداحتجاج کے بعد ایف ڈبلیو او کے اہلکار اور موقع پر موجود اے سی مشینری کو واپس لے جایا گیا اور معاملات کورٹ میں یا کورٹ سے باہر حل ہونے تک مشینری نہ لانے کا وعدہ کیا گیا۔

وزیراعظم پاکستان، چیف جسٹس آف پاکستان  متاثرین کے ساتھ روا رکھے جانے والے ظلم کا فوری نوٹس لیں اور انصاف فراہم کریں۔ متاثرین کے مطالبات پر غور کیا جائے تاکہ کسی ناخوش گوار صورتحال سے بچتے ہوئے معاملات خوش اسلوبی سے طے پا جائیں اور ڈیم کی تعمیر بلاتعطل جاری رکھی جا سکے۔ یہ پر امن زمیندار جن میں اکثریت حاضر سروس و ریٹائرڈ جانباز فوجی اور ان کی اولادیں ہیں۔ امید ہے کہ متعلقہ ریاستی اداروں اور حکومت کی جانب سے متاثرین کے مطالبات منظور کرتے ہوئے تمام حقوق  ادا کیئے جائیں گے۔