”لائے گئے لوگ“

 وقاص احمد

جیسے عدالتوں سے نا انصافی ہوجانا ممکن ہے لیکن انصاف کی اصل بربادی اس دن ہوتی ہے جس دن عوام کا عدالت سے سرے سے اعتماد ہی اٹھ جائے۔ بالکل ایسے ہی الیکشن میں چھوٹی یا بڑی دھاندلی ہونا بھی ممکن ہے لیکن کسی جمہوری ملک کا نظام اصل میں اس دن تباہ ہوتا ہے جس دن لوگ الیکشن کو ایک مذاق سے زیادہ اہمیت دینے پر تیار نا رہیں۔

کل پارلیمنٹ سے انتخابی جمہوری نظام کو مذاق بنانے کے لیئے ایک قانون پاس کیا گیا۔ ہر چند کہ ہمارے پاس انتخابات کی بہت زیادہ روشن روایات نہیں ہیں لیکن ایک پردہ داری تھی جس سے عوام کو یہ یقین رہتا تھا کہ سو فیصد نا سہی لیکن کسی نا کسی حد تک وہ انتخابات کے عمل کے ایک بنیادی رکن کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن صدقے جاؤں ان نازک جذبات اور نازک اندام نسل در نسل الیکشن چور فیصلہ سازوں کے، جن کی موجودہ نسل اس حد تک تساہل پسند  ہوگئی ہے کہ انہیں اب یہ بھی ناگوار گزرتا ہے کہ کون الیکشن سے پہلے فائلوں اور ویڈیوز کے ٹوکرے اٹھا کر ٹکے ٹکے کے امیدواروں کی وفاداریاں اپنے ساتھ منسلک کروانے کے لیئے پھرتا رہے۔ کیوں ٹکٹوں کی بندر بانٹ اپنے ہاتھ میں رکھ کر خواری کاٹے۔ ہر بار کون جہانگیر ترین جیسوں کے جہازوں میں جیتنے والے امیدوار لاد لاد کر اسلام آباد لائے تاکہ اپنی مرضی کی حکومت بنائی جا سکے۔ سو کیوں ناں الیکشن نام کے اس ڈھکوسلے کا پردہ چاک کریں اور ایک ہی بار مستقل طور پر انتخابات کے جملہ اختیارات اور نتائج کے تمام ذرائع اپنے ہی نام لکھوا لیئے جائیں۔ نا دربدر کی خواری، نا روٹھنے منانے کا کشٹ، نا فائلیں نا ویڈیوز، نا جیپ کے نشان، نا ترین کا جہاز، نا الیکشن کمیشن کے جھمیلے، نا عدالت عظمیٰ کے ججوں سے معاملات طے کرنے کی سر دردی۔ سیدھی سادھی ایک مشین ہو جس کا بٹن دبائیں تو چاہے سلطانہ ڈاکو کو بھی ایم این اے منتخب کروا لیں۔

پر سوال ہے کہ جہاں اتنا بڑا سیاسی ڈاکہ پڑا ہو تو وہاں ہماری سیاسی قیادت کیا کر رہی تھی۔ خیر سے ہم نے ایک ہفتے سے زیادہ یہ تماشہ چلتا دیکھا تھا کہ اسی قانون سازی پر حکومت کے اپنے بندے راضی نہیں، ق لیگ کے ”تحفظات“ تھے، ایم کیو ایم کے ”اعتراضات“ تھے، جی ڈی اے کے اپنے اختلافات تھے تو اچانک یہ ہوا کیسے؟ ابھی اسی سوچ میں غلطاں تھا کہ فیس بک پر ہی ایک کلپ ملا جس میں کوئی صحافی عامر لیاقت صاحب سے پوچھ رہا ہے کہ سر آپ کے تو بہت سے تحفظات تھے اپنی حکومت کے ساتھ تو آپ ووٹ ڈالنے کیوں پہنچ گئے۔ فرماتے ہیں ”ہم آئے نہیں، ہم لائے گئے ہیں اور۔۔۔۔ بہت اہتمام کے ساتھ لائے گئے ہیں۔“  تو حضور معلوم ہوا کہ حکومت اور ان کے اتحادیوں کے اختلافات، اعتراضات اور تحفظات تو ایک سیٹی بجتے ہوا ہوگئے لیکن یہ ناہنجار اپوزیشن کدھر تھی اور کیا کر رہی تھی۔ اپوزیشن کے معاملات اور کارگزاری پر نظر دوڑائیں تو غالباً آپ نے بھی نوٹ کیا ہوگا کہ چاہے یہ حکومت آرڈیننس کی فائرنگ کرکے پارلیمنٹ کو بھون ڈالے یا ایسی بیہودہ قانون سازی خاکی پروں کے سائے تلے کروائے، ہماری اپوزیشن کا اس پر ردعمل تقریباً اتنا ہی ہوتا ہے جتنا حکومت پاکستان ہر سال پانچ فروری کو کشمیر ڈے پر اپنے بیانات میں بھارت کی مذمت اور کشمیریوں کے حق خود ارادیت پر دیتی ہے۔ کل مصنوعی چہرے سجائے شہباز شریف صاحب اور بلاول بھٹو صاحب کو اسمبلی میں جمہوریت پر اس قاتلانہ حملے کی روکھی سوکھی مذمت کرتے دیکھا تو دل میں سوچا کہ بھائی اس سے بہتر تھا کہ پیٹ درد کا بہانہ کرکے چھٹی کر لیتے۔ کم از کم آپ کی یہ تابعدار اور شکست خوردہ شکلیں دیکھنے کو تو نا ملتیں۔ یہ ایک مشترکہ اجلاس، چار پریس کانفرنسز اور درجن بھر میڈیا شو پر رونے پیٹنے کا ڈرامہ کریں گے اور اس دوران پاکستان کے اصلی فیصلہ ساز یہ پلان کر رہے ہوں گے کہ اب ہم نے ”دشمن“ کا کونسا اگلا مورچہ فتح کرنا ہے۔ لفظ دشمن پر حیران مت ہوں، وہ جمہور اور جمہوریت کو دشمن ہی تصور کرتے ہیں۔

اپوزیشن کو یہ سمجھنا ہوگا کہ آخری نتیجہ ایک مکمل غلامی کی شکل میں نکلے گا یا پھر اگر عوام نے ان سے مایوس ہوکر اپنے معاملات سے خود ڈیل کرنا شروع کردیا تو نتیجہ مکمل انارکی ہوگا۔ لیڈر کا کام انہی دو انتہاؤں سے ملک کو بچانا ہوتا ہے۔ اگر عوام کنٹرول حد میں اپنے حقوق کے لیئے موٹیویٹ نہیں ہورہی تو اس کی ذمہ داری عوام پر نہیں بلکہ آپ کی کنفیوز اپروچ پر ہے جو طاقتور سے اختلاف بھی کرنا چاہتی ہو اور تابعداری کا علم بھی تھامے رکھنا چاہتی ہے۔ ”رند کے رند رہے اور ہاتھ سے جنت بھی نا گئی“ ایسا نہیں ہوتا حضور! عوام کو صاف صاف بتا دیں کہ آپ کا ارادہ کیا ہے؟ اگر آپ طاقتور کو نکیل ڈالنا چاہتے ہیں تو یہ مور کے پنکھ، روئی کے گالوں اور ہومیوپیتھک دوائیوں سے نہیں ہوگا۔ اور اگر آپ تابعداری نبھانا چاہتے ہیں تو یہ ہر ہفتے دو ہفتے بعد ہمارا خون گرمانے کے لیئے تقریریں اور ٹویٹس کرنا بند کریں۔ عوام کو جب یہ پتہ چل جائے گا کہ وہ اب اپنے حال پر ہیں تو وہ خود فیصلہ کر لے گی کہ اب انہیں نام نہاد افریقی جمہوریہ بننا ہے یا ترکی برپا کرنا ہے۔

یاد رکھیں حضور! لیڈر شپ سے غلطیاں ہونا ممکن ہے۔ لیکن لیڈر اپنا مقام اصل میں اس دن کھو دیتا ہے جس دن عوام کا اپنے لیڈر پر سے اعتماد ہی ختم ہو جائے اور آپ تیزی سے اسی انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں۔